ایک ریاست دو قانون


سویڈن میں ایک بار پھر ایک بد بخت نے قرآن مجید کی بے حرمتی کر دی اس دفعہ بڑا ظلم یہ ہوا کہ ریاست نے یہ کھلواڑ کرنے کی اجازت خود دے دی۔ یعنی اگر کوئی شخص جس کی من میں کچھ بھی ہو، ریاست اسے کرنے کی اجازت دے دیتی ہے جس کو وہ ”کچھ بھی بولنے کی آزادی“ کہتے ہیں اور یہ گھناؤنا کام بھی ایک ایسے شخص نے کیا جو سابقہ مسلمان تھا یعنی جو اسلام کو چھوڑ کر الحاد اپنا چکا تھا۔ ایسا دنیا میں پہلی بار نہیں ہوا یہ مشق مغرب میں کئی بار دہرائی جا چکی ہے۔

اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو فرقان حمید کی بے حرمتی جنگوں میں، مباحثوں اور مباہلوں میں کئی بار ہو چکی ہے لوگوں نے عقیدوں کے اختلاف میں مقدس کتاب کی کئی شکلوں میں بے حرمتی کی ہے لیکن وہ زمانہ جاہلیت تھا جب عقل و شعور ابھی آداب زندگی سے اس طرح واقفیت نہیں رکھتا تھا اور کوئی بری خبر دنیا کے دوسرے کونے تک پہنچتے مہینوں لگ جاتے تھے اس لیے سماجی خلفشار پیدا ہونے میں دیر لگتی تھی۔ آج تو معلومات اور افواہیں ایک دوسرے میں ایسے مدغم ہو چکی ہیں یہ جاننا مشکل ہو چکا ہے کہ سچ کتنا ہے اور جھوٹ کتنا ہے۔

بہرحال ہر ریاست کے اپنے قانون ہوتے ہیں اور اگر کوئی ریاست خود کو مہذب دنیا کا حصہ سمجھتی ہو تو اسے لوگوں کے ذاتی اور اجتماعی جذبات کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔ آج دنیا مہذب ہو چکی ہے جنگ و جدل نے جدت اختیار کر لی ہے موت آسان ہو چکی ہے بربریت کے متبادل کئی اور راستے نکل چکے ہیں وہاں عقیدوں کا خیال اور احترام بھی ایک دوسرے پر لازم ہے۔ یورپ کو اگر یہ پچھتاوا ہے کہ اپنی تعداد سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دے چکے ہیں جس سے ان کی ریاستی پالیسی کہیں متاثر ہوئی ہے تو اسے ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے نظریہ کلیش آف سولائزیشن کو ہوا نہیں دینی چاہیے۔ موجودہ دنیا اب ماضی جیسی بربریت کی متحمل نہیں۔ اسے اپنی ریاستی پالیسیوں کو مڈل ایسٹ یا پھر فار ایسٹ کے ممالک کی پالیسیوں کو سامنے رکھ کر مرتب کر لینا چاہیے نہ کہ مقدس کتابوں کی بے حرمتی جیسے مذموم مقاصد سے دنیا میں بے چینی پیدا کر کے نئی بلکہ تیسری عالمی جنگ کا آغاز کرنے کی کوشش کی جائے۔

یورپ تو اپنی آزادی کو ملحوظ خاطر رکھ کر ایسی بھونڈی حرکتیں کر لیتا تو لیکن اس کے اثرات مسلم اکثریتی ملکوں بالخصوص پاکستان جیسے ملکوں میں عقیدوں کی نسبت سے ناتواں اور شریف النفس اقلیتوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کیونکہ جب بھی مغرب میں ایسی گھناونی حرکت ہوتی تو پاکستان کے گرجا گھروں اور بستیوں میں ایک عجب سی وحشت طاری ہو جاتی ہے ویسے تو اس کی ذمہ دار ریاست ہے کیوں پہلے ریاست نے لوگوں کو مذہبی جنونی بنا دیا اور پھر ایسی ناگہانی صورت سے نمٹنے کے لیے فورسز کو طلب کر لیا اور ساتھ بستیوں کی حفاظت کا نام نہاد ایکشن بھی لے لیا۔

اس سے جانی نقصان ہونے کا اندیشہ تو ہوتا اور نفسیاتی نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ معاشرے ایک عجیب تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی تو صورت حال ویسے ہی بے قابو ہو جاتی ہے اور ریاست سے کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے جس کی مثال ماضی میں شانتی نگر، گوجرہ مسیحی بستی، یوحنا آباد، جوزف کالونی، فرانسس کالونی، سانگلہ ہل مسیحی بستی، اور اب سرگودھا اٹیک وغیرہ جیسی مثالیں سامنے آتی ہیں۔ اس دفعہ تو حد ہو گئی کہ پاکستان کے طول و عرض میں پاکستان کی اقلیتی بستیوں کو ہراساں کیا گیا، کراچی میں ایک مندر پر حملہ کر دیا گیا وہاں مورتیوں کی بے حرمتی کی گئی اور سویڈن کے جھنڈے کی آڑ میں مسیحیوں کے مقدس نشان صلیب کو پاؤں تلے روندا گیا یہاں تک کی لیٹرینوں میں صلیب کا نشان بنا دیا گیا یعنی انتشار، بے حرمتی، ہراسمنٹ، تذلیل اور حملے۔ کیا یہ احتجاج ہے؟

اللہ کے بندو! کیا پاکستان کی اقلیتوں نے آپ کے شانہ بشانہ شریک ہو کر اس بے حرمتی کی مذمت نہیں کی۔ پاکستان کا کو نسا چرچ ہے جہاں مختلف قسموں کی بینر اور فلیکس آویزاں کر کے آپ کے ساتھ قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت نہیں کی گئی۔ ویسے غیرت کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ احتجاج سویڈن میں کیا جاتا اور وہاں کے غیور مسلمان اور غیرت مند پاکستانی سویڈن کی شہریت کو لات مار کر اپنے پیارے وطن پاکستان آ جاتے تاکہ دنیا کو پتا چلتا کہ ہمارے عشق کی انتہا کیا ہے۔

باقی رہی بات ریاست پاکستان کی۔ اب ریاست کہاں ہے؟ ریاست پاکستان نے کیوں نہیں ایسے شرپسند عناصر کی سرکوبی کی، ریاست نے کھل کر قرآن مجید کی بے حرمتی پر کیوں نہیں سرکاری طور پر مذمت ریکارڈ کروائی اور لوگوں کو بتایا کہ کتاب مقدسہ کی بے حرمتی پر تمام مذہب، عقیدے اور اہل فکر ایک پیج پر ہیں اگر کیا ہوتا تو بائبل مقدس کی بے حرمتی نہ ہوتی، صلیب کی تذلیل نہ ہوتی۔ آسمانی کتب اور دیگر غیر الہامی ادیان بھی قابل احترام ہیں، اس پر ریاست کا کیا موقف ہے۔

اعلیٰ حکام خود کو مسلمان سمجھ کر نہیں بلکہ ریاست کے کرتا دھرتا سمجھ کر سوچیں۔ جناب آپ سب کے سانجھے ہیں اپنے عہدے اور ذمہ داریوں میں ڈنڈی نہ ماریں۔ آپ سے بھی قیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ کیا آپ نے اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف کیا؟ پاکستان ترقی کر سکتا ہے اگر ہمارا قبلہ درست اور سمت ترقی کی طرف ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments