اگلا قیدی حاضر ہو
ابھی چند دن پہلے ہی تو پورے پاکستان سمیت اقلیتوں نے بھی اپنے گرجا گھروں میں پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کی دعائیں اور جشن منایا تھا۔ عبادات کے بعد ناچ ناچ کر سبز و سفید ملبوسات پہنے ایک دوسرے کو وطن کی آزادی پر مبارک بادیں دی گئیں تھیں۔ گرجوں کے باہر سبز ہلالی پرچم کی جھنڈیاں اور پرچم بلند کیا تھا۔ پاکستان کی آزادی کا یہ دن چودہ اگست کو آتا ہے جس کا پورے پاکستان سمیت پاکستان کی اقلیتوں بالخصوص مسیحوں کو بھی اُسی شدت سے انتظار رہتا ہے جتنا کہ اکثریت کو ہو تا ہے بلکہ آج کل تو سوشل میڈیا پر یہ بحث بھی جاری تھی کہ جب دوسرے لوگ اپنی عبادت گاہوں میں اس طرح کے جشن کا اہتمام نہیں کرتے جس میں بچیاں ملی نغموں پر ڈانس یا پھر ٹیبلو کر کے مناتے ہیں تو ہم کیوں ایسا کرتے ہیں۔ دراصل قوموں یا برادریوں کی اپنی اپنی سوچ اور تربیت بھی ہوتی ہے۔ بالخصوص مسیحی اقلیت دوسری اقلیتوں سے مختلف سوچتے ہیں یہ ان کی تعلیمات کا اثر ہے کہ یہ لوگ اپنی سرزمین اور ملک سے وفادار ہوتے ہیں یہ جس دیس میں بھی رہیں اس کو پوری طرح اون کرتے ہیں اپ بیشک تحقیق کر کے دیکھ لیں دنیا کا مسیحی جس دیس میں رہے گا اُسی کے گن گائے گا۔ جیسے پاکستان کا مسیحی پاکستان کی سلامتی اور اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کرے گا اور اگر کوئی انڈین مسیحی ہے تو وہ انڈین ہونے پر فخر کرے گا۔ ایرانی مسیحی ہے تو ایرانی ہونے پر فخر کر گے گا اور اگر جاپانی ہے تو جاپانی ہونے پر ۔ یعنی یہ لوگ جس دیس میں رہتے ہیں اُس دیس سے وفادار ہوتے ہیں یہ ان کی تربیت اور تعلیم کا حصہ ہے بحوالہ انجیل شریف ”اعلیٰ حکومتوں کے تابع رہو اور ان کی سلامتی کی دعا کرو“ ۔
اس کے باوجود کہ ساڑھے سات دہائیوں سے یہ سکولوں، کالجوں، سیاسی تقریروں، ٹی وی پروگراموں، رسالوں، جریدوں اور نصابوں میں مسلسل پڑھتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور قائد اعظم کی انتھک محنت سے یہ ملک مسلمانوں کی ریاست کے طور پر حاصل کیا گیا ہے۔ مسلمان اس ریاست کے اصلی باشندے ہیں یہ بات آج تک اتنی دفعہ بیان کی گئی ہے ملک کے ایک ایک باشندے کو چاہے وہ ان پڑھ ہو یا پڑھا لکھا ازبر ہو چکی ہے یہ ملک مسلمانوں کے لیے ہے ہاں یہ بات الگ ہے کہ اگر کہیں کوئی غیر مسلم علاقہ یا لوگ موجود ہوں تو جملہ ء خاص ہے ایسے بولا جاتا ہے ”آپ بھی اس ملک کے باشندے ہیں، آپ کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو اکثریت کو ہیں“ ۔ یہ ایک ایسی غیر علانیہ تقسیم ہے جس نے ملک کو دو بڑے حصوں میں تقسیم ہوا ہے یعنی اس جملے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہر غیر مسلم پاکستانی، ہر مسلمان پاکستانی کے مرہون منت ہے۔ مطلب وہ مسیحی ہو یا ہندو، وغیرہ اسے اپنے حق کی آواز اٹھانے کا کوئی حق حاصل نہیں اور اگر اُس نے ایسی جرات کی تو اُسے سنگین قسم کے نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں جس میں، ہراسمنٹ، جسمانی تشدد وغیرہ وغیرہ ہو سکتے ہیں۔
عمومی رویہ تو یہ ہے کہ انہیں پہلی بات تو پڑھنے کا کوئی حق حاصل نہیں دوسرا انہیں کسی بھی ادارے کا سربراہ بننے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ یہ بات اکثریت کے لیے بے حد حیرت زدہ ہوتی ہے جب انہیں یہ معلوم ہو جائے کے اُن کے اوپر ایک غیر مسلم بالخصوص مسیحی تعینات ہے۔ چونکہ یہ ایک اسلامی ملک ہے اور مسلمانوں کی لیے حاصل کیا گیا ہے وہاں ایک غیر مسلم کسی کلیدی عہدے پر کیسے فائز ہو سکتا ہے۔ لہذا دو قسم کی کوشش اُسے دیکھ کر جاری ہو جاتی ہے ایک اسے دعوت کیسے دی جائے اور دوسرے اُسے عہدے سے کیسے ہٹایا جائے۔
دنیا میں کچھ بھی اچانک نہیں ہوتا ہر واقعہ یا حادثہ کسی نہ کسی سبب سے ہوتا ہے جس کی ابتدا چند ماہ پہلے یا چند سال پہلے بھی ہو سکتی ہے یا پھر اوپر بیان کی گئی تمہید بھی ہو سکتی ہے مثلاً آپ سانگلہ چرچ کا حادثہ لے لیں، آپ خانیوال شانتی نگر کی تاریخ پڑھ لیں، آپ گوجرہ کا واقعہ دیکھ لیں، آپ جوزف کالونی، یوحنا آباد، سرگودھا لے لیں اور آج جڑانوالہ کے سانحہ اس تحقیق سے پتا چلے گا کہ وہاں ہوا کیا تھا۔ یقیناً پیسوں کا لین دین، خاتون یا زمین کا معاملہ ہو سکتا ہے۔ مطلب وجہ مذہبی نہیں ہو سکتی بلکہ مذہبی بنا دی جاتی ہے ایسا نہیں اس سے پہلے ایسے واقعات نہیں ہوتے تھے ُاس وقت یا تو یہ مذہبی قانون کی سزا موت نہیں تھی اور دوسرا یہ قانون زبان زد عام نہیں تھا اور اس قانون کے بارے میں پوری معلومات بھی نہیں تھی۔ ماضی میں جس پر بھی ایسا الزام لگا ہے اس کو مس ہینڈل کیا گیا ہے اور ریاست ایسے معاملہ میں بے بس نظر آتی ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے کمزور اور بے بس نظر آئے ہیں۔ وہ رمشا مسیح کا واقعہ ہو یا پھر مشال خان کا ۔ ریاست اور قانون نافذ کرنے والے ادارے نہایت کمزور اور نااہل دکھائی دیے ہیں۔ یہاں تک کے ذمہ داران کو کوئی سزا نہیں سنائی گئی۔ یعنی جھوٹا الزام لگانے والے کو مجرم ہی نہیں سمجھا گیا۔ سارے کا سارا نزلہ جس پر الزام ہو اس پر گرایا گیا۔ شاید پہلی دفعہ پاکستان میں متفقہ طور سب سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے ایسے گھناؤنے جرم پر آواز اٹھائی ہے جو کہ ملک اور دین کی حرمت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ جس سے دنیا کو کم از کم یہ پیغام تو گیا ہے کہ ریاست اور مذہبی حلقے متاثر ین برادری کے ساتھ ہیں۔ بالخصوص مولانا طاہر اشرفی اور دیگر علماء نے بھی یک زبان ہو کر ایسے واقعات کی مذمت کی اور ریاست سے فی الفور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسے اسلام دشمن عناصر کو جو دین اور ملک کے دشمن ہیں سختی سے نمٹنے کی استدعا کی ہے۔ پوری قوم متاثرین جڑانوالہ کے بے گھر ہونے، ستائے جانے، لٹ جانے والو کے ساتھ کھڑے ہیں اور ایک بار پھر ایسے سماج دشمن عناصر کو قرار واقعی سزا دینے کی اپیل کرتے ہیں کیونکہ اگر ایسے شر پسندوں کو بروقت روکا نہ گیا تو ایسا واقعہ کل کہاں ہو جائے کچھ بھی کہا نہیں جا سکتا ہے۔ یہ مت سوچیں یہ انتہاپسندی کسی کو معاف کرے گی۔ کل کس باری کچھ معلوم نہیں اگر صوبے کے گورنر کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے خدا نہ کرے ایسا ہو۔ آئیے ایک بار پھر دعا کریں کہ ہمارے ملک سے انتہا پسندی کا خاتمہ ہو تا کہ پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے۔
- مغرب انتہا پسند کیوں ہو رہا ہے؟ حصہ دوئم - 29/08/2024
- مجھے اب سوات نہیں جانا۔ - 27/06/2024
- خاکروب کا کلیدی عہدہ اور مسیحی شہری - 23/05/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).