تحقیق کی دنیا اور ہماری درسگاہیں
تحقیق انسان کے لئے اپنے پسندیدہ شعبے میں منظم طریقے سے آگے بڑھنا، صحیح حقیقتوں، نتیجوں کے حصول اور کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے کار آمد ثابت ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو ایسے ہوتا ہے جب وہ اپنے کسی بھی نظام میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو پہلے تحقیق کرواتے ہیں تاکہ نئی تبدیلی کے فوائد اور نقصانات معلوم ہو سکے۔ اگر نظام میں تبدیلی لائی گئی تو کچھ عرصہ گزرنے کے بعد دوبارہ اس پر تحقیق کروائی جاتی ہے تاکہ وقت اور حالات کے حساب سے معلوم ہو سکے کہ کی گئی تبدیلی کار آمد ہے یا نہیں۔
اسی طرح ترقی یافتہ ممالک میں تحقیق دانوں کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ حقیقت میں وہ تحقیق دان ہی ہوتا ہے جو کسی مسئلے پر سائنسی طریقے سے جانچ پڑتال کر کے اس کا حل تلاش کرتا ہے۔ البرٹ سینٹ گیورگی نے کہا کہ ایک عام آدمی اور تحقیق دان کسی مسئلے پر دیکھتے ضرور ہیں لیکن جس طرح تحقیق دان مسئلے کا حل تلاش کرتا ہے عام آدمی کبھی نہیں کر سکتا۔ برطانیہ میں ”جنسی مجرم کا علاج“ نامی پروگرام تقریباً پچیس سالوں تک جاری رہا اس پروگرام میں حصہ لینے والے قیدیوں کی سزا میں کمی کی جاتی تھی۔
ایک دن ”وزارت انصاف“ نے اس پروگرام پر تحقیق کروائی جس میں ملک کے نامور تحقیق دان اس نتیجے پر پہنچے کہ ”جنسی مجرم کا علاج“ پروگرام جرائم میں روک تھام کے بجائے اضافہ کر رہا ہے آخر کا ر حکومت کو یہ پروگرام ختم کرنا پڑا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بیرون ممالک کی درسگاہیں ایسے ذہین تحقیق دان پیدا کر رہی ہیں ہمارے یہاں کیوں نہیں؟ ایسے ممالک میں تحقیق دانوں کی ہر ممکنہ مدد کی جاتی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ ہمارے یہاں حکومت، درسگاہوں کے سربراہان اور اساتذہ کو تحقیق میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر کوئی طالب علم تحقیق کرنا چاہے بھی تو اسے اساتذہ کی طرف سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی مثال یہ ہے کہ میرا ایک دوست جو سکھر آئی بی اے یونیورسٹی سے ڈیٹا کلیکٹ کرنے کراچی آیا تھا میں اس کے ساتھ کراچی کی دو پرائیویٹ یونیورسٹیز میں گیا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ بمشکل ہمیں انٹری ملی۔ ڈیٹا کلیکشن کے دوران ملائیشیا کے پی ایچ ڈی ہولڈر نے سوال کیا کہ پاکستان میں تحقیق کی کوئی اہمیت نہیں آپ کیوں اتنی تکلیف کر رہے ہیں؟
ذرا سوچیئے! جب استاد ایسی سوچ رکھتا ہے تو طالب علموں کی کیسے حوصلہ افزائی ہو گی؟ ایسی صورت حال رہی تو یقیناً ہمارے ملک میں فلسفی یا نامور تعلیم دان پیدا نہیں ہوں گے ۔ ہماری ریاست کو تحقیق کو فروغ دینے کے لئے اقدام اٹھانے چاہیے۔ مثلاً ملک کی تمام تر یونیورسٹیز میں ایک الگ سے تحقیق کا ڈیپارٹمنٹ بنانا چاہیے جہاں پر تجربہ کار اساتذہ اور آئی ٹی کے ماہرین کو ٹاسک دیا جائے تاکہ طلبہ کو تحقیق کے سائنسی طریقوں سے تربیت دے سکیں۔ خصوصاً: PLS, Nesstor, SPSS, NVivo, MAXQDA جیسے سافٹ ویئرز میں ایکسپرٹ بنایا جائے تاکہ طلبہ کو جعلی تحقیق کرنے سے روکا جا سکے کیونکہ جب انسان میں اصلی کام کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی تو وہ جعلی کام کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اگر ہم نے طلبہ کو آئی ٹی کی تربیت نہیں دی تو ساری دنیا کے ساتھ چلنا ایک خواب ہی رہ جائے گا۔
- 23 ستمبر: اشاروں کی زبان کا عالمی دن - 23/09/2023
- جاگیردارانہ طرز حکومت اور دردناک سسکیاں - 20/09/2023
- تحقیق کی دنیا اور ہماری درسگاہیں - 13/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).