پاکستان: جین آسٹن کی ایلزبتھ بینٹ اور معجزے


محفل میں گفتگو کا موضوع موجودہ سیاست سے ہوتا ہوا تحریک پاکستان پہ جا ٹھہرا۔ ایسا لگتا تھا کہ قیام پاکستان کے بارے میں ہر شخص کے پاس ایک الگ کہانی ہے۔ کوئی اس کے قیام کا راز محمد بن قاسم کی صورت میں آنے والے پہلے مسلمان کے نقوش پا میں تلاش کر رہا تھا اور کسی کے نزدیک یہ ”ملک خدا داد“ اینگلو امریکن سیاست کا شاخسانہ تھا۔ گویا آپ روزویلٹ اور چرچل کے درمیان ہونے والی مراسلت کی کتابت پہ مامور رہے ہوں۔ ایک صاحب کا کہنا تھا کہ کانگرس کی پہاڑ جیسی غلطیوں نے ہندوستان جیسے عظیم ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جبکہ ایک اور دوست پاکستان کی تخلیق کے پیچھے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے مخصوص مفادات کے علاوہ کسی اور عامل کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ ایک رائے کے مطابق جنگ عظیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کساد بازاری کے بوجھ تلے دبی ہوئی برطانوی سلطنت کے لئے ہندوستان میں مزید قیام ہی ناممکن ہو چکا تھا۔

بحث اپنے عروج پہ تھی کہ سفید ریش، دراز قامت، عمامہ بر سر، جبہ بر دوش، بھاری بھرکم جثے والے ایک بزرگ نے تسبیح والے ہاتھ کی درمیانی انگلی سے سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ آواز کو اپنے طرے کی سطح تک بلند کرتے ہوئے، گویا ہوئے کہ آپ سب لوگ اپنی اپنی جگہ ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن۔ میں نے ہمت سے کام لیتے ہوئے انہیں ٹوکا اور یہ جاننے کی جسارت کی کہ مختلف بلکہ متضاد آرا رکھنے والے اتنے بہت سے لوگ بیک وقت ٹھیک کیسے ”کہہ“ سکتے ہیں۔ اہل محفل کی طرح، اس مرد حق آگاہ نے بھی دخل در معقولات جانتے ہوئے، میری معروضات سے صرف نظر کیا اور سلسلہ کلام جاری رکھا۔

موصوف کا کہنا تھا کہ یہ سب قصے کہانیاں اور مباحث اپنی جگہ لیکن اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کا قیام ایک معجزہ تھا۔ آپ نے نہیں دیکھا کہ یہ ملک رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اس ماہ کی ستائیسویں یعنی برکت والی رات میں پردہ شہود پر آیا تھا۔

میں نے ایک بار پھر ہمت سے کام لیتے ہوئے عرض کیا کہ حضرت یہ ستائیسویں شب والی بات بھی افسانہ محض ہے۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں پندرہ اگست کو آزاد ہوئے تھے اور وہ شب ستائیسویں کی نہیں اٹھائیسویں کی رات تھی۔ یاد دہانی کے لئے یہ بھی عرض کیا کہ پاکستان نے 1948 میں اپنا پہلا یوم آزادی پندرہ اگست ہی کو منایا تھا، اس وقت کے اخبارات گواہ ہیں۔

ذوق خامہ فرسا کی ستم زدگی کا شکار ہونے کے باوجود اسداللہ غالب کی طرح پاسخ مکتوب کی توقع ہمیں بھی کم تھی۔ یوں بھی طبیعت رنگ محفل دیکھ کر اوب چکی تھی۔ ادھر اجازت طلبی کے لئے مناسب الفاظ کی تلاش جاری تھی کہ ادھر اس نطق گہر بار کا سفینہ، دیکھتے ہی دیکھتے، جنگ ستمبر کے ساحلوں پہ لنگر انداز ہو چکا تھا۔ استفہامیہ انداز میں فرمایا کہ اگر پینسٹھ کی اس جنگ میں سفید لباس اور ہری پگڑی والوں کی غیبی مدد نہ آتی تو کیا داتا کی نگری کو بچایا جا سکتا تھا، یہ بات کسی معجزہ سے کم ہے کیا؟

بز اخفش کی طرح سر ہلاتے ہوئے شرکائے بزم کو کیا خبر کہ لاہور کا قدیمی روڑا، جنگ ستمبر کا ایک عینی شاہد بھی یہاں موجود ہے۔ جی میں آئی کہ سب تکلفات برطرف کر کے تاریخ سے باآواز بلند مدد کی درخواست کروں کہ انہیں بتائے کہ حضور ہیڈ مرالہ سے سفر کا آغاز کرنے والی بمباں والی بیدیاں نہر جسے دنیا بی آر بی کینال کے نام سے جانتی ہے، راستے میں حائل نہ ہوتی تو شام کی وہسکی لاہور جمخانہ میں جا کر پینے کا دعوی کرنے والے جنرل چوہدری کا خواب پورا ہو چکا ہوتا اور چوہدری اور اس کے توندل ساتھی اگلے دو دن میں لاہور جمخانہ میں موجود ہر نسل کی وہسکی کا ذخیرہ تمیز رنگ و بو کیے بغیر ختم کر چکے ہوتے۔ ہاں اس بی آر بی پر باٹا پور اور جلو موڑ (ڈوگرائے کلاں نامی یہ بستی جلو پنڈ کو لے جانے والی سڑک کی تعمیر کے بعد سے جلو موڑ کہلاتی ہے۔) کی بستیوں کو ملانے والے پل کو توڑنے کی داد کسی کو دینا ہی ہے تو، نادیدہ بابوں کی بجائے، انجیئنرنگ کور کے جوانوں کا حق اس پر زیادہ ہے۔ لیکن شرکا کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر خاموشی میں عافیت سمجھی۔

اس وقت تک یہ احساس پختہ ہو چکا تھا کہ جرات کا ایسا کوئی مظاہرہ حماقت سے کم نہیں ہو گا۔ برابر میں بیٹھے ہوئے صاحب سے واش روم تک جانے کا کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ابھی لان تک پہنچا تھا کہ ذہن میں جیسے بجلی سی کوند گئی۔ خیال میں جانے کیوں تقریباً ”دو صدیاں پیشتر فکشن کی دنیا میں جھنڈے گاڑنے والی جین آسٹن کی کہانیوں کے لافانی کردار گردش کرنے لگے۔ تصور کی دھندلی سکرین پر پرائڈ اینڈ پریجوڈیس کی الزبیتھ بینٹ کی شکل نمایاں تھی۔ وہی الزبیتھ جسے ہر حال میں دل کی بات کہنے کا ہوکا تھا اور جو لیڈی کیتھرین (Lady Catherine de Bourgh) جیسی آتش مزاج عورت کے روبرو بھی کڑوی سے کڑوی بات کو نرم و نازک الفاظ کے خوشنما پیرائے میں ڈھالنے کا ہنر جانتی تھی۔

میں اسے ہاتف غیبی کا اشارہ جانتے ہوئے محفل میں آ کر دوبارہ شریک گفتگو ہو گیا، مگر دھیرے سروں میں۔ الزبیتھ بینٹ کی ہدایات کے عین مطابق۔ عرض کیا کہ معجزوں کے بارے میں حضرت کے ارشادات کی صداقت کی ایک دنیا قائل ہے۔ اس قصہ پارینہ کو گاہے گاہے دوہرانے میں بھی کیا قباحت ہو سکتی ہے۔ لیکن میری دبدھا یہ ہے کہ قیام پاکستان سے متصل دو اور معجزے بھی اسی سرزمین پر رونما ہوئے تھے، ہم ان کے ذکر سے اس قدر گریزاں کیوں ہیں۔ ایک یہ کہ قومی زبان کے طور پر ایک ایسی زبان کا انتخاب مناسب سمجھا گیا جو نئے ملک میں شامل پانچ صوبوں میں سے کسی ایک صوبے کی بھی زبان نہیں تھی۔ دوسرے یہ کہ تقسیم ہند کی سر توڑ مخالفت کرنے والے وارثان منبر و محراب کی راتوں رات ایسی قلب ماہیت کیسے ہوئی کہ وہ خود کو اسی مملکت کے مستقبل کا امین اور محافظ سمجھنے اور قرار دینے لگے جس کے قیام کی راہ کھوٹی کرنے کے لئے انہوں نے دن رات ایک کر رکھے تھے۔

میری بات نامکمل تھی کہ محفل میں موجود ایک بزرگ نے پیک تھوکتے ہوئے گفتگو کا رخ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی طرف موڑ دیا۔ ادھر میں اس وقت سے اس سوچ میں غلطاں ہوں کہ ہم پاکستانی معجزوں کا ذکر تو بصد شوق کرتے ہیں مگر صرف اپنی پسند کے معجزوں کا۔ ہم باقی معجزوں کے بارے میں گفتگو سے گریزاں کیوں رہتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments