سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال


مہذب معاشروں کا نظام عدل، انصاف کے عالمی اصولوں، ملکی آئین اور قوانین کے عین مطابق ہوتا ہے۔ ماتحت عدلیہ، عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ تک کسی کا بھی فیصلہ ملک کے آئین میں کھینچی گئی لکیر سے باہر نہیں جاسکتا۔ پاکستان کے نظام عدل کا سب سے بڑا نگہبان آئین ہے اس کے بعد مقننہ کے منظور شدہ قوانین اور سب سے بڑی چیز وہ حلف ہے جو عدالت عالیہ و عظمیٰ کے ججز اٹھاتے ہیں۔ ججز کے حلف کو ملاحظہ کر لیں ”۔ میں اپنے فرائض و کارہائے منصبی ایمان داری، اپنی انتہائی صلاحیت و وفاداری کے ساتھ دستور پاکستان اور قانون کے مطابق سرانجام دوں گا، عدالتی کونسل کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کروں گا، اور یہ کہ ذاتی مفادات کو اپنے سرکاری فرائض یا اپنے فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا، اور یہ کہ میں جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں گا، ہر حالت میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ قانون کے مطابق، بلا خوف و رعایت اور بلا رغبت و عناد قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔ اللہ تعالیٰ میری رہنمائی فرمائے۔ اب اس حلف پر وہ پورے اترے یا نہیں یہ تاریخ کے ساتھ ساتھ ان کے فیصلوں کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال 16 ستمبر کو ریٹائر ہو چکے ’ان کی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 18 ستمبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالیں گے۔ 2 فروری 2022 ء کو جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے، وہ ایک سال سات ماہ 14 دن چیف جسٹس رہے۔ عمر عطا بندیال 2004 ء میں لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے، جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 ء میں ایمرجنسی پلس کے ذریعے ججوں کو پی سی او کے تحت حلف لینے پر مجبور کیا، تو جسٹس بندیال ان ججز میں شامل ہو گئے جنہوں نے حلف لینے سے انکار کیا۔ ججوں کی بحالی ایک سیاسی نعرہ بن گیا۔ میاں نواز شریف نے لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا اور 16 مارچ 2009 ء کو افتخار چوہدری و دیگر معزول ججوں کوایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بحال کر دیا گیا تو جسٹس بندیال بھی لاہور ہائیکورٹ میں بحال اور پھر چیف جسٹس بنے۔ 16 جون 2014 ء کو جسٹس بندیال سپریم کورٹ آئے۔ 13 جنوری 2022 ءکو تحریک انصاف حکومت نے انہیں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس نامزد کیا۔ 2 فروری 2022 ء کو اپنے عہدے کا حلف لے کر وہ سپریم کورٹ کے اٹھائیسویں سربراہ بنے۔ چیف جسٹس بننے سے پہلے جسٹس بندیال اکثر چیف جسٹس گلزار احمد کے بینچ میں شامل اور بڑے بڑے فیصلے تحریر کرتے رہے مگر جب وہ خود چیف جسٹس بنے تو انہوں نے سینیئر کے بجائے جونیئر ججز کو ساتھ بٹھایا۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا سب سے بڑا فیصلہ، 7 اپریل 2022 کو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی عدم اعتماد پر رولنگ کالعدم کرنا اور قومی اسمبلی کی بحالی کا تھا۔ جس کے نتیجے میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد ہوا لیکن اس مقدمے میں انہوں نے ڈپٹی اسپیکر اور صدر مملکت کی آئین شکنی پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔ عدم اعتماد کو ناکام کرنے کے لیے صدر پاکستان نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ ریفرنس بھیجا۔ اس میں یہ استدعا بھی کی گئی کہ منحرف اراکین اسمبلی کی ممبرشپ معطل کی جائے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ میں سے 3 ججز نے یہ انوکھا فیصلہ دیا کہ منحرف اراکین ووٹ دے سکتے ہیں لیکن ووٹ شمار نہیں ہوں گے۔ جب کہ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں منحرف اراکین کے خلاف کارروائی کا مکمل طریقہ کار ہے، اس کی مزید تشریح آئین نئے سرے سے لکھنے کے مترادف ہے۔

عمران خان نے فوری انتخابات کے لیے لانگ مارچ کال دی تو سپریم کورٹ نے ان کو ڈی چوک کے بجائے سیکٹر جی 9 اور ایچ 9 میں احتجاج کرنے کا حکم دیا لیکن عمران خان نے کارکنان کو 25 مئی 2022 ء کو ڈی چوک پہنچنے کی کال دی۔ تو وہ ڈی چوک پہنچے، اور امن و امان خراب کیا، پولیس اہلکار زخمی کیے اور درختوں کو آگ لگائی۔ عدالتی حکم سے انحراف پر حکومت نے توہین عدالت کی درخواست دائر کی تو چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ ممکن ہے کہ عمران خان تک پیغام درست نہ پہنچا ہو، جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سفارش کی عمران خان کی عدالتی احکامات کی ثابت شدہ خلاف ورزی پر توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کیا جائے۔ تحریک انصاف کی ہر درخواست چیف جسٹس اپنی سربراہی کے بینچ میں مقرر کرتے اگر تحریک انصاف کے خلاف سائل آتا تو بھی اسی طرح کا بینچ دستیاب ہوتا اور لوگ بھی پہلے سے نتیجہ جان لیتے۔

پنجاب میں بزدار کے بعد حمزہ شہباز وزیراعلیٰ بنے تو معاملہ سپریم کورٹ آ گیا، چیف جسٹس نے حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ آئین کے آرٹیکل 63 اے کی اپنی تشریح کے تحت پرویز الہٰی کو عدالتی وزیراعلیٰ بنا دیا۔ پرویز الہٰی نے تحریک انصاف کے سربراہ کی منشا پر پنجاب اسمبلی تحلیل کردی۔ تحریک انصاف دونوں صوبوں میں فوری ضمنی انتخابات کا مطالبہ لے کر سپریم کورٹ پہنچی۔ اس مطالبے پر سوموٹو نوٹس عجیب انداز میں لیا گیا۔ سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے سروس میٹر کے مقدمے میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نے چیف الیکشن کمشنر کو طلب کر کے دو صوبوں میں ضمنی انتخابات پر رائے مانگی اور چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لینے کی سفارش کی۔ چیف جسٹس نے فوراً بینچ تشکیل دے کر سماعت شروع کردی۔ حالانکہ معاملہ لاہور اور پشاور ہائیکورٹ میں زیر سماعت تھا۔ بینچ میں شامل اکثریتی 4 ججز نے کہا کہ معاملہ ہائیکورٹ میں زیر التوا ہونے کے باعث یہ نوٹس نہیں بنتا، اس کے باوجود تین ججز نے الیکشن کمیشن کی انتخابات کی مقرر کردہ تاریخ 8 اکتوبر کو اڑا کر، 14 مئی کو انتخابات کروانے کا حکم دے کر ایک آئینی ادارے کے اختیارات نہ صرف خود استعمال کیے بلکہ الیکشن ایکٹ بھی از سر نو لکھا۔ اسی طرح پارلیمنٹ کے منظور کردہ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کو بھی ہم خیال ججوں کے ساتھ آئین سے متصادم قرار دے کر کالعدم کر دیا۔

نیب قوانین میں ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست بھی چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ہاتھ میں لی، اس بینچ میں شامل سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے یہ آبزرویشن دی کہ پارلیمنٹ سے نکلنے والی جماعت کے کہنے پر منظور شدہ قوانین کو ہم کیوں مسترد کریں؟ تحریک انصاف ان قوانین کے خلاف پارلیمنٹ میں آواز بلند کرتی۔ لیکن چیف جسٹس نے ان ترامیم کو جانے سے پہلے کالعدم کر دیا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ 2023 ء کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور ہم خیالوں نے یک طرفہ طور پر پہلی ہی سماعت پر معطل کر دیا۔ ملٹری کورٹس کے مقدمے میں جن ججوں کو چیف جسٹس نے کبھی کسی مقدمے میں اپنے ساتھ نہیں بٹھایا، انہیں شامل کر کے بینچ بنالیا، 9 ججز کا بینچ 5 ججز کا رہ گیا۔ درخواست گزار کی استدعا کے باوجود فل کورٹ نہ بنایا۔ فل کورٹ کی ہر استدعا چیف جسٹس نے مسترد کی۔ جسٹس مقبول باقر 4 اپریل 2022 ءکو ریٹائر ہوئے، انہوں نے الوداعی ریفرنس میں کہا کہ اہم مقدمات میں مخصوص ججز کو شامل کرنے سے عدالتی وقار مجروح ہوتا ہے۔ غیر متوازن جوڈیشل ایکٹوازم قانون کی حکمرانی کی موت ہے، سپریم کورٹ کی قدیم روایت ہے کہ چیف جسٹس ہمیشہ سینیئر ترین جج سے مشاورت کرتے ہیں۔ لیکن چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نہ کبھی اپنے ساتھ بینچ میں بٹھایا اور نہ مشاورت کی۔ چیف جسٹس بندیال نے جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس گلزار کی طرح سینیارٹی کے اصول کو پامال کر کے کارکردگی کے نام پر جونیئر ججز کو سپریم کورٹ میں بٹھایا۔

قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو جس انداز میں ڈیل کیا اس پر بڑی تنقید ہوئی لیکن جب جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کے مابین مبینہ ٹیلی فونک گفتگو سامنے آئی اور جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہوا تو چیف جسٹس صاحب نے متنازع جج کو بینچ میں بٹھا کر کہا کہ اس کا مقصد کسی کو پیغام دینا تھا۔

جب 5 آڈیو لیکس سامنے آئیں، جن میں ایک آڈیو چیف جسٹس کی خوش دامن اور تحریک انصاف کے وکیل کی بیگم صاحبہ کی تھی۔ ان کی تحقیق کے لیے حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 ججوں پر مشتمل انکوائری کمیشن تشکیل دیا۔ اپنے مقدمے میں خود جج بن کر چیف جسٹس بندیال نے یہ کمیشن ختم کر دیا۔

نو مئی 2023 ء کو عمران خان القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار ہوئے، اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایکشن لیا مگر چیف جسٹس بندیال نے عدالت لگا لی اور 11 مئی کو عمران خان کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ انہیں ’گڈ ٹو سی یو‘ کہہ کر خوش آمدید کہا۔ عدالت کے اندر اور باہر اس جملے کے چرچے ہوتے رہے، ان کی بار بار وضاحتیں بھی اس تاثر کو زائل نہ کرسکیں کہ ایک بڑے ادارے کے سربراہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ سے ہمدردی رکھتے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا دور متنازع فیصلوں، ججز کی تقسیم، ہم خیال ججز کے ذریعے سینیئر ججز کو نظر انداز کرنے، مخصوص جماعت یا ایک لیڈر کی طرف جھکاؤ، ذاتی پسند، ناپسند اور کچھ سیاسی جماعتوں کے خلاف محاذ آرائی اور شدید مخالفت کے دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ان کے فیصلوں پر سپریم کورٹ کے اہم ججوں نے سخت ترین اختلافی نوٹ لکھے۔ یہاں تک کہ ایک معزز جج جسٹس منصور علی شاہ نے بینچز بنانے کے چیف جسٹس کے اختیار کو ”ون مین شو“ قرار دیا۔ پارلیمنٹ نے بھی ان کے متنازع فیصلوں کے خلاف ایک سے زائد قراردادیں منظور کیں۔ ان کے دور میں پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ بالکل آمنے سامنے آچکے تھے۔ انہوں نے سب سے اہم اپنے کردار کو رکھا جو بدقسمتی سے دوسرے اداروں میں مداخلت کا کردار تھا۔ ان کی کورٹ پر کورٹ آف مدر ان لاء کی پھبتی بھی کسی گئی۔ وہ فل کورٹ ریفرنس سے بھی انکار کر گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments