کراچی سکول کا سکینڈل اور صحافتی اخلاقیات


روزنامہ ایکسپریس میں کالم بعنوان ”جنسی اسکینڈل اور ضابطہ اخلاق۔“ مورخہ 14 ستمبر 2023ء بروز جمعرات شائع ہوا۔ کالم نگار توصیف صاحب کے ساتھ شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ اردو میں ساتھ رہا اس لیے ان کے خیالات و نظریات سے واقفیت ہے جس کی بنا پر ان کی تحریر کو سمجھنے میں مدد مل جاتی ہے۔ ایسے خیالات و نظریات جن کا اس معاشرے میں برملا اظہار مشکل ہے انہیں جب ضبط تحریر میں لایا جاتا ہے تو وضاحت بیان کی جگہ ابہام لے لیتا ہے۔ ایسا کرنا یا ہونا مجبوری ہے یہاں واقفیت کام آتی ہے۔

کیا پیچیدگیاں کم علمی کی پیداوار ہوتی ہیں؟ لیکن اگر ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر اپنی بیس سالہ بیٹی کو اس کے اکیس سالہ دوست کے ساتھ قتل کر دیتا ہے اور واضح طور پر یہ قتل ”غیرت“ کے نام پر ہیں تو ریاستی مشینری غیرت کے نام پر قتل کے خلاف سخت قانون سازی کرے۔ میرے نزدیک ریاست سے مراد جمہوریت کے چار ستون مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور ذرائع ابلاغ ہیں۔ مذکورہ کالم کا موضوع گلشن حدید اسکول اسکینڈل ہے اور اس کا اختتام اس جملے پر ہوتا ہے کہ ’ریاست کو احتساب کا فریضہ پورا کرنا چاہیے‘ یقینا۔

ابھی کئی سوالات ہیں جن کے جواب آنا باقی ہیں۔ ہمارے ہاں نظام کیسے کام کرتا ہے، تفتیش کتنا وقت لیتی ہے اس امر سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود فاضل کالم نگار عجلت کا شکار معلوم ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اپنے اختتامی پیراگراف کا آغاز اس جملے سے کرتے ہیں کہ ’اس مقدمہ کے تمام اہم پہلوؤں کے جائزہ سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ مقدمہ کمزور ہے‘ ۔ مقدمے کے تمام اہم پہلو؟ جب کہ ابھی تفتیش شروع ہوئی ہے۔

فاضل کالم نگار پہلے پیراگراف میں اس کو ’غیر نجی اسکول‘ بتا رہے ہیں۔ ’غیر نجی‘ سے کیا مراد ہے؟ یا تو سرکاری ہے یا غیر سرکاری یعنی نجی۔ ’غیر نجی‘ ؟ اس کا مطلب یا تو ’انتہائی غیر سرکاری‘ ہو سکتا ہے یا ’انتہائی نجی‘ ؛ انتہائی نجی قرین قیاس ہے (پرنسپل کی سرگرمیوں کے پیش نظر) ۔

اقرار الحسن صاحب کی رپورٹ میں اس اہم امر کی جانب نشان دہی کی گئی کہ پرنسپل اور اسٹاف کا خاکی یونیفارم تھا اور طالب علموں کا بھی یونیفارم خاکی اور سبز جیسا کہ رینجرز کا ہوتا ہے۔ یہ واضح طور پر مخصوص ادارے سے وابستگی کا اظہار ہے جو لوگوں پر اثر رکھتا ہے۔ اس میں اتنی معمولی تبدیلی جو عام آدمی نہ پہچان سکے اور جو مخصوص ادارے سے تفوق پیدا کرے، دھوکے میں مبتلا کرنا ہے۔ ادارہ، یونیفارم، نصاب کیا یہ سب غیر رجسٹرڈ ادارے میں ہو رہا تھا؟

عرفان غفار میمن کے نام سے فیس بک اکاؤنٹ بنا ہوا ہے، آئی جی اے ایجوکیشن سسٹم، یہ اکاؤنٹ اکتوبر 2022ء کو بنایا گیا تھا۔ عرفان غفار میمن اس اسکول کے بانی و سربراہ ہیں۔ اس فیس بک پیج پر اسکول، طالب علموں کی سرگرمیوں پر مشتمل اور پرنسپل کی پریزنٹیشن غرض کئی وڈیو ہیں۔ اسکول میں داخلے کا اشتہار بھی موجود ہے۔ اشتہار اس سوال سے شروع ہوتا ہے کہ ”آئی جی ایم ایجوکیشن سسٹم کیوں؟ جواب میں یہ نکات درج ہیں :

1۔ قرآن، ناظرہ، تفسیر، تجوید، قرات، عبادات اور مسنون دعا
2۔ مکمل آئی ایس ایس بی تیاری
3۔ پاک آرمی پریڈ پروٹوکول اینڈ مارچ سسٹم
4۔ مارشل آرٹس
5۔ 100 % کیڈٹ کالج تیاری
6۔ اخلاقیات اور سماجی اقدار پر توجہ
7۔ انگریزی زبان کی کلاسیں (کیڈٹ اور والدین)
8۔ کیڈٹ کے لیے بہترین سیکیورٹی سسٹم
معلوم ہوتا ہے کہ یہاں داخلے کے وقت سے طالب علموں کے لیے ’کیڈٹ‘ لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔
عرفان غفار میمن کے فیس بک اکاؤنٹ پر موجود ایک وڈیو میں ریٹائر جج وجیہہ الدین بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

اسلام اور فوج کا نام اس طرح استعمال کر کے کیا قیمت وصول کی جا رہی تھی؟ فاضل کالم نگار لکھتے ہیں کہ مقدمہ کمزور ہے۔ ان کے نزدیک جن بنیادوں پر کمزور ہے میری نظر میں یہی اس کی مضبوط بنیادیں ہیں۔

صحافی اپنا کردار ادا کرے، منصف نہ بنے۔ یہ کہنا کہ ’مقدمہ کمزور ہے‘ کس کے لیے باعث تقویت اور کس کے لیے باعث اذیت ہے؟ وہی خواتین جن کو کالم نگار آگے چل کر لکھ رہے ہیں کہ ’ان کی زندگی اجیرن ہو جائے گی‘ (یہ ہمدردانہ بیانیہ ہے یا دھمکی آمیز؟)۔ یہ کس قسم کا معاشرہ چاہتے ہیں؟ چلیں ہم مان لیں کہ یہی اس معاشرے کی کڑوی حقیقت ہے لیکن کیا یہ عورت کو مضبوط کرنے کا بیانیہ ہے؟ یہ تو طرز کہن پر اڑنا ہے۔

مکمل جملہ کچھ یوں ہے ”جن خواتین کی وڈیوز وائرل ہو گئیں ان کی زندگی اجیرن ہو جائے گی، یوں خلوت کا حق پامال ہوا“ ۔ ’خلوت کا حق‘ ۔ آئین کے آرٹیکل 14 کے مطابق ’گھر کی خلوت قابل حرمت ہوگی‘ ۔ پاکستان کے قانون کے مطابق خلوت کا تصور گھر سے وابستہ ہے، عوامی مقامات اور تعلیمی اداروں سے نہیں۔ تفتیش سے ثابت ہو چکا ہے کہ پرنسپل کا اپنے دفتر میں کیمرے لگانے کا مقصد بلیک میل کرنا تھا۔ وہ اپنے کسی زعم میں مبتلا تھا۔

اس نے مخصوص وردی کا انتخاب کیا۔ ایک وڈیو میں خاتون بھی اسی وردی میں ملبوس دیکھی جا سکتی ہیں۔ وہ دو خواتین جو تھانے پہنچیں ان کا یہ اقدام ان کو بری الذمہ (کہہ سکتے ہیں کہ مجبور) ثابت کرتا ہے، ورنہ وہ سامنے نہیں آتیں، اب اگرچہ وہ منظر سے غائب ہو گئیں تو اس کی وجہ اس معاشرے کے دہرے معیارات ہیں۔ ان کو گھٹ گھٹ کر جینے سے اگر کوئی عمل بچا سکتا ہے تو وہ ان کا سامنے آنا اور حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔ کاش ان کے گھر کے مرد ان کا ساتھ دیں ایسے نہیں جیسے بیدی کے افسانے ’لاجونتی‘ کے مرد نے دیا۔

یہ مقدمہ کسی طور کمزور نہیں ہے، یہ ریاست مخالف جرم ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر وڈیو وائرل کرنا غیر اخلاقی ہے لیکن یہ کہہ کر یہاں بات ختم نہیں کی جا سکتی، بات یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ ان وڈیو کے سامنے آنے کے اثرات ہمہ گیر و دور رس ہیں، ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں :

1۔ متاثرہ خواتین کا مستقبل
2۔ طالب علموں کا مستقبل
3۔ خود پرنسپل کا خاندان جو انتہائی شرم ساری سے منہ چھپاتا پھر رہا ہو گا۔
4۔ منکوحہ پر اثر۔ نوبت طلاق تک پہنچ سکتی ہے۔
5۔ سب سے اہم اور دیرینہ اثر اسلام اور فوج کے نام اور وردی کا استعمال

فاضل کالم نگار سے ( اس تحریر کی) آخری بات کہ جب ایسے انسانیت سے عاری واقعات خبر بنتے ہیں تو اسے اخبار یا ذرائع ابلاغ کی ”زینت بننا“ نہیں کہتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments