تکفیر کے قوانین اور مذہبی اقلیتیں
تکفیر کے قوانین کا غلط استعمال پاکستان میں کئی سانحات کا سبب بن چکا ہے اور اقلیتوں خصوصاً مسیحیوں کی متعدد آبادیاں نذر آتش ہو چکی ہیں۔ ان میں شانتی نگر، سانگلہ ہل، گوجرہ، کوریاں، لاہور کی مسیحی بستیاں نمایاں ہیں۔ مقدمات کا ذکر کریں تو 1987 سے اگست 2023 تک کم از کم 2029 افراد پر الزام لگ چکے ہیں۔ سال رواں میں ان قوانین کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔
ماہ اگست کے اختتام تک مختلف مذکورہ تکفیر مذہب کی دفعات کے تحت کم از کم 196 مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ ان میں 168 مسلمان افراد کے خلاف درج ہوئے، 18 احمدی، 9 مسیحی اور ایک شخص ہندو ہے۔ ان مذکورہ مقدمات میں چار افراد کو الزام کے بعد قتل کر دیا گیا۔ صوبائی جائزہ لیں تو پنجاب میں 50 فیصد، 25 فیصد سندھ جبکہ دیگر صوبہ خیبر پختونخوا اور آزاد جموں کشمیر میں سامنے آئے۔
ادارہ برائے سماجی انصاف کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مسیحیوں پر خصوصاً پنجاب میں پرتشدد حملوں کی طویل تاریخ ہے۔ 1997 سے 2016 تک مسیحیوں کی آبادیوں اور گرجا گھروں پر 51 حملے رپورٹ ہوئے جن میں 15 دہشت گرد حملے اور دیگر ہجوم نے کیے۔ ان حملوں کے نتیجہ میں 69 سے گرجا گھروں اور ہزار سے زائد گھروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ نتیجتاً 138 مسیحی ہلاک ہوئے، اس کے علاوہ 23 مسیحیوں کو تکفیر کے الزامات کے بعد ہجوم نے ماورائے عدالت قتل کر دیا جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔
2016 اور 2023 کے درمیان ملک کے مختلف حصوں میں ہندووں اور احمدیوں کی عبادت گاہوں پر متعدد حملے رپورٹ ہوئے ہیں۔ 2023 کے موسم گرما کے دوران نفرت اور تشدد کی لہر میں تیزی اس وقت دیکھنے میں آئی جب سیاسی جماعتیں آئندہ عام انتخابات کی تیاری کر رہی ہیں۔ سانحہ جڑانوالہ کو ذرائع ابلاغ نے کچھ توجہ دی مگر میڈیا پر پابندیوں اور متاثرین میں خوف و ہراس کے باعث اور دیگر مجموعی صورتحال کی رپورٹنگ پر اثر ڈالا۔ یہ وجہ ہے کہ عوام کی بڑی تعداد اصل حقائق سے بے خبر ہے۔ انتہا پسند عناصر کی جانب سے ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ تکفیر کے الزام میں اقلیتیں ملوث ہیں۔ ایسا تاثر اکثریتی اور اقلیتی حلقوں کے درمیان سماجی تعلق کو تباہ کر رہا ہے۔
جڑانوالہ کے سانحہ سے قبل سرگودھا شہر اور آس پاس دیہاتوں میں 30 جون سے تکفیر کے الزامات کے بعد بدامنی کا ماحول نظر آیا خصوصاً مسیحی برادری کو خوف زدہ کیا گیا۔ تحریک لبیک پاکستان اور دیگر تنظیمیں مسیحیوں کے متعلق شک و شبہ اور تکفیر کے الزامات لگانے کی مہم میں پیش پیش ہیں، پولیس نے درجنوں مسیحیوں کو گرفتار کیا۔
سرگودھا مقدمات میں پانچ مسیحی نوجوانوں (ہارون، وکی وارث، زمران جارج کامران اور آکاش کرامت) جبکہ جڑانوالہ میں پانچ (پاسٹر عامر مسیح، پرویز مسیح، داود مسیح، شاہد آفتاب اور رابرٹ چارلس) ۔ تاہم گرفتار شدگان کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے کیونکہ چک نمبر 49، مریم ٹاؤن، چک نمبر 37، اور 36 میں حراست غیرعلانیہ تھی اور سینکڑوں لوگ بے گھر ہوئے۔ گرفتار افراد کے اہل خانہ گرفتاری کی اطلاع دینے یا قانونی چارہ جوئی سے ڈرتے تھے جبکہ مذہبی گروہوں کی جانب سے مسلسل نفرت انگیزی نے شہر بھر میں مزید خوف و ہراس پھیلا یا۔
سرگودھا اور فیصل آباد میں بھی بڑے پیمانے پر غیر قانونی گرفتاریاں کی گئیں جہاں جڑانوالہ کے لوگ پناہ لیے ہوئے تھے۔ لہذا نام نہاد مذہبی تنظیموں کو خوش کرنے کے لیے پولیس نے متاثرین کی غیر قانونی حراستیں جن میں بہت سے خواتین اور نابالغ بچے بھی شامل تھے، سے نا انصافی کی۔
18 اگست 2023 کو آئی جی پنجاب پولیس نے فرسودہ کہانی دہرائی کہ یہ واقعات غیر ملکی سازش کا شاخسانہ تھے اور پولیس نے یہ بھی دعوی کیا کہ انہوں نے کوئی نیٹ ورک توڑ دیا ہے۔ دوسری طرف ان بیانات میں مذہبی جماعتوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے اس شبہ کو تقویت دی کہ مسیحی ملزمان جرائم میں ملوث ہیں۔
اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ پولیس نے ان واقعات میں مسیحیوں پر اپنا بیانیہ ٹھونسنے کی کوشش کی بجائے اس کے کہ جرم ثابت ہونے تک وہ بے قصور ہونے اور اپنے قانونی موقف پر قائم رہیں۔ سرگودھا میں پولیس اور انتظامیہ نے ممتاز مسیحیوں کو ویڈیو پیغامات ریکارڈ کرنے اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اپ لوڈ کرنے پر مجبور کیا۔ جس میں انہوں نے انتظامیہ اور ان کے اقدام کو سراہا کہ وہ پولیس کے ہاتھوں گرفتار کیے گے لوگوں سے خود کو الگ کرتے ہیں۔ فیصل آباد میں پولیس نے پادریوں کو قرآن پاک کی بے حرمتی پر پشیمانی کے پوسٹر گرجا گھروں میں تقسیم کیے اور آویزاں کرنے پر مجبور کر دیا۔ عرف عام میں ایسے بیانات اعتراف جرم کے زمرے میں آتے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جڑانوالہ سانحہ پر ازخود نوٹس لے لیا ہے جبکہ بشپ آزاد مارشل موڈیٹرر آف چرچ آف پاکستان نے واقعے پر جوڈیشنل کمیشن آف انکوائری بنانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ عدالتی انکوائری یقیناً اس بات کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے کہ تفتیش غیر جانبدارانہ اور منصفانہ ہو، بشرطیکہ ماضی کی عدالتی انکوائریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ تفتیش اور ذیلی عدالت میں عدالتی کارروائی کو منصفانہ طرز پر چلانے کے بنیادی تقاضوں پہ اصرار کرے۔
- تکفیر کے قوانین اور مذہبی اقلیتیں - 21/09/2023
- جڑانوالہ واقعہ کی تفتیش اور پولیس کا موقف - 06/09/2023
- جڑانوالہ واقعہ: متاثرین اور فریقین کی باتیں - 02/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).