مدرسے اور بلیک واٹر
پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹرز یا کرائے کے فوجی جو عوام میں بلیک واٹر کے نام سے مشہور ہوئے عراق پر امریکی حملے کے بعد سامنے آئے۔ ہمارے ہاں اس کی بری مثال ریمنڈ ڈیوس کی ہے جو کیانی کے دور میں دو پاکستانیوں کو قتل کرنے کے بعد خراش پروف ثابت ہو کر امریکہ سلامت چلا گیا تھا۔ پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹرز یا پی ایم سی کی جدید تاریخ 1965 میں برطانیہ سے شروع ہوئی جب سپیشل فورسز کے دو ریٹائرڈ فوجیوں ڈیوڈ سٹرلنگ اور ووڈ جان ہاؤس نے واچ گارڈ کے نام سے فوجی خدمات مہیا کرنے کی خاطر مے فیئر میں اپنا دفتر کھولا۔ ان کی افادیت یہ ہوتی ہے کہ ان کا نقصان یا ذمہ داری ملک پر ہونے کی بجائے اس کمپنی پر ہوتی ہے جو ان کو ملازم رکھتے ہیں۔ ان کو روزانہ 300 سے 750 ڈالر یا 9000 سے 22500 ڈالر تک ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔
کارپوریٹ وارئیر: دی رائز آف پرائیوٹائزڈ ملٹری انڈسٹری نامی کتاب کے مصنف پی ڈبلیو سنگر کے مطابق پی ایم سی پچاس سے زیادہ ممالک اور انٹارکٹیکا کے علاوہ ہر براعظم میں مصروف عمل ہیں۔ 1990 میں ہر پچاس امریکی فوجیوں کے مقابلے میں ایک کرائے کا سپاہی موجود تھا لیکن اب یہ تناسب دس اور ایک کی ہے۔ سنگر کے مطابق ان کے فرائض کی نوعیت کرایہ ادا کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ ان کو کہاں استعمال کرتا ہے۔ قیمتی قدرتی وسائل کی چوکیداری، وی آئی پی شخصیات کا تحفظ، یا میدان جنگ، یہ ہر جگہ کام میں لائے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں سابقہ افغان صدر حامد کرزئی کے تحفظ کی ذمہ داری انہی کرائے کے فوجیوں ذمے تھی۔ جو ان کی ذات اور رہائش کی حفاظت کے لئے آپریشن کولمبو کے نام سے جاسوسی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں سے بھی کام لیتے تھے۔
2003 کی ایک سٹڈی کے مطابق یہ صنعت سالانہ سو بلین ڈالر کما رہی تھی۔ امریکہ کے قومی جاسوسی کے ڈائریکٹر کی 2008 کی ایک سٹڈی کے مطابق پی ایم سی امریکہ کے لئے 49 فیصد بجٹ کے عوض 29 فیصد جاسوسی کے فرائض فراہم کر رہی تھی۔
کولڈ وار کے اختتام پر مغربی ممالک کے تقریباً چھ لاکھ فوجی بیروزگار ہو گئے تو وینل اینڈ ملٹری پروفیشنلز ریسورسز کارپوریشن آف امریکہ، جی فور اینڈ کینی مینی سروسز آف یو کے، لارڈن لیوڈن آف اسرائیل، اور ایگزیکٹو آؤٹ کم آف ساؤتھ افریقہ جیسی کمپنیوں کو وافر مقدار میں جنگ کے ماہرین ہاتھ آئے۔ جنگوں اور حفاظت کے علاوہ پی ایم سی قدرتی آفات جیسے سیلاب اور زلزلہ کے علاوہ خطرناک علاقوں میں انسانی ہمدردی کے تحت امدادی سامان پہنچانے والی این جی اوز کے ساتھ بھی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔
یہ مغربی پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹرز کا مختصر ذکر تھا جبکہ پاکستانی پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹرز کی تاریخ اس سے زیادہ دلچسپ ہے، وہ اس لیے کہ وہ مغربی پی ایم سی سے زیادہ بہتر نظام کے ساتھ، خود کفالت اور خود انحصاری کی بہترین ماڈل پر مشتمل، دیرپا، مغربی اداروں سے زیادہ کامیاب اور قابل اعتماد ہے۔
امریکی اکانومی جنگوں پر انحصار کرتی ہے اور پاکستانی اکانومی انہی جنگوں کی طفیل کورین وار سے لے کر حالیہ یوکرین وار تک اپنا حصہ وصول کرتی آئی ہے۔ جب بھی امریکہ نے اپنی کوئی جنگ پاکستان کو آؤٹ سورس کردی ہے، پاکستان میں کسی جرنیل کی حکومت اور ڈالر کی ریل پیل ہونے لگی ہے، لیکن جب بھی امریکہ نے جنگ سے وقفہ کرنے ارادہ کیا ہے، پاکستان میں مارشل لاء اور اکانومی دونوں کریش کر گئی ہے۔
امریکیوں نے پی ایم سی کا تصور پاکستان سے لیا ہو یا پاکستان نے امریکہ سے، پاکستانی ماڈل دیرپا، کم خرچ اور زیادہ کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ امریکہ میں جہاں کرائے کا ایک سپاہی 7,875,000 روپے کے برابر ماہانہ تنخواہ پر دستیاب ہے وہاں پاکستان میں اتنی رقم میں کرائے کے سپاہیوں کی پوری بریگیڈ کھڑی کی جاتی ہے۔ وہ اس لیے کہ یہاں پر معاوضہ اور مراعات صرف بھرتی کرانے والے ہینڈلر کو ملتی ہے اور عام سپاہی کو، جو ٹریننگ اور جذبے میں مغربی پی ایم سی سے ہزار درجے بہتر ہوتا ہے، زندگی میں ثواب اور آخرت میں جنت کی بشارت دی جاتی ہے۔
جب پاکستان وجود میں آیا تو ملک میں کل مدرسوں کی تعداد 189 تھی، لیکن ضیائی مارشل لاء کے دوران ان کی تعداد 900 ہو گئی۔ جب ضیاء کی مارشل لاء آخری دور میں داخل ہوئی تو ان کی تعداد 33000 تک پہنچی، جو 2008 میں چالیس ہزار ہو گئی۔ ان چالیس ہزار مدرسوں سے نکلنے والے بچوں کی اکثریت کو عشروں تک تقدس کی قباؤں میں ملبوس ایسے لوگوں نے، کشمیر سے لے کر بوسنیا تک اور پاکستان سے لے کر افغانستان تک، بلامعاوضہ استعمال کیا، جن کے والدین کے پاس بھی کبھی اپنی موٹرکار نہیں تھی، لیکن جن کی اولادیں اب نئی ٹھنڈی جیپوں، عالیشان بنگلوں، قیمتی جائیدادوں اور کاروباروں کی مالک اور پارلیمنٹ کی ارکان ہیں۔
ایک وقت میں موسم بہت اچھا تھا، اس لیے سعودی تیل میں تلے ہوئے اور امریکی قمار خانوں اور سی آئی اے کے زیر انتظام چلنے والے قحبہ خانوں سے اکٹھے کیے گئے ڈالر پاکستان پر برس رہے تھے، جن میں وافر حصہ ان مدیران کرام اور مہتممان عزام کے فربہ بنک اکاؤنٹوں میں جمع ہوتا رہا، اگرچہ وہ ان مدرسوں کے لئے دیے جاتے تھے جہاں پر پختون بچوں کی برین واشنگ کرا کر انہیں سی آئی اے کی جنگ میں بھیجنے کے لئے تیار کیا جاتا تھا۔ یہ الگ کہانی ہے کہ اس ”جہاد“ کے منتظمین یعنی قاضی حسین احمد، مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمان کے کتنے برخورداران اس جہاد میں شہادت کے درجے پر سرفراز ہوئے۔
پرائے بچوں کی ہول سیل سپلائی کے اس منافع بخش روزگار اور ڈالروں کی بہتی گنگا میں ہر ہوشیار مولوی نے مہتمم بن کر اپنا حصہ وصول کیا، جس کی برکت سے بڑی بڑی جائیدادیں، چار چار شادیاں، نئی نویلی گاڑیاں، سینٹ اور اسمبلی کی سیٹیں اور عہدے وہ ”اسلام کی خدمت“ کرتے کرتے اس دنیا میں پا گئے اور آخرت کے اپنے مزے ہیں۔
ہماری بلیک واٹر مغربی بلیک واٹر کے مقابلے میں زیادہ کامیاب اس لیے رہی کہ جو طلباء مدارس میں محض دین سیکھنے آتے تھے، ہم نے ان کے ذریعے افغانستان میں روس اور امریکہ کے برج الٹ دیے اور کشمیر میں ہندوستان کے ساتھ ایک طویل جنگ لڑی، اور دو دفعہ پرائی سرزمین پر حکومتیں قائم کیں جن میں آخری حکومت ہم سے سیکھ کر آج ہمارے بغیر بھی قائم و دائم ہے۔
ہزاروں کی تعداد میں بننے والے ان مدارس نے معاشرے پر کیا اثرات ڈالے وہ الگ موضوع ہے لیکن خود مدرسے والوں پر اس کے کیا اثرات پڑے وہ ابھی تک سامنے نہیں آئے۔
جنت کی بشارت کے عوض لوگوں کی جائیدادیں لینا اور ان پر مدرسے بنا کر اپنا روزگار لگانا، ایک حد تک تو لوگوں کے چندوں سے چلانا ممکن ہے، لیکن گلی گلی، گاؤں گاؤں، شہر شہر مدرسے بنانا، جس میں ہر سال مزید سینکڑوں مدرسوں کا اضافہ ہو رہا ہو، کس طرح عقلمندی کا کام ہے؟ آپ نے اکنامکس کبھی سمجھی نہ پڑھی ہو لیکن سادہ اصول ہے کہ بہتات جس چیز کی بھی ہو، بے قدری بڑھاتی ہے۔ خریدار نہ ہو (چندے دینے والے) تو بہترین پیداوار بھی کباڑ سمجھی جاتی ہے۔
امریکی دلچسپی ختم، سعودی بھائی ’چارہ ”ٹھنڈا، ڈالر اور ریال بند اور اندرون ملک دینے والے مہنگائی کی وجہ سے خود لینے والوں کی قطار میں کھڑے ہوں، تو اتنی تعداد میں مانگنے والوں کو وہ کیا دے سکتے ہیں؟ بلکہ آپ کو جو کھانا لنگر سے اور فری بجلی مسجد اور مدرسے سے ملتی ہے وہ بھی جلد بند ہو جانے والی ہے، اور وہ اس لیے کہ اوپر والے ہاتھ میں مزید سکت نہیں رہی۔ آپ کو ان کی مصائب اور مسائل کی وجہ سے اسلام کبھی خطرے میں پڑتا ہوا نہیں لگا لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کہ بہت جلد آپ کا اسلام مسجد اور مدرسے کو ملنے والی چندے کی بندش کی وجہ سے اصل خطرے سے دوچار ہونے والا ہے۔
آپ نے چپس، سنگ مرمر، پچی کاری، شیشہ گری اور مقابلے پر بڑے بڑے مینار بنانے اور کھاؤ پیو تقریبات کے نام پر قوم کی بڑی بڑی رقمیں خرچ کر دیں لیکن جمعہ اور عیدین پر صفوں میں چندے کے لئے چادریں پھیلانے سے پہلے آپ کو مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی بھوکی بیٹیاں اور ننگے بے پاپوش بچے ایک لمحہ بھی نظر نہیں آئے، جن کو کھانا کھلانا میناروں پر پچی کاری منبروں پر شیشہ گری اور صحنوں میں رنگین ٹائلیں لگوانے سے بہتر تھا۔ آپ نے نمازیوں کی جیبیں مساجد میں خالی کرتے ہوئے کبھی ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچا کہ یہاں خرچ کرنے کے بعد یہ باہر مساکین اور ضرورت مندوں پر کیسے خرچ کریں گے؟
حقانیہ کی باری آئی ہوئی ہے اور باقیوں کی باری اس کے بعد ہے۔ امریکیوں کو چین کے خلاف بھرتی چاہیے لیکن آپ کو وہ سہولت حاصل نہیں۔ میرا خیال ہے کہ مدرسے آپ کا روزگار ہے، لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام کی خدمت کے لئے ہیں۔ اگر یہ واقعی اسلام کی خدمت کے لئے ہیں تو پھر ایک سال تک اپنے خفیہ اکاؤنٹس نکالیں اور بے نام جائیدادیں بیچیں اور ان پر خرچ کر دیں، دل پھیرنے والے نے دل پھروا دیے تو اچھے دن پھر آ جائیں گے۔
آپ غریب بھی نہیں ہیں۔ مفتی نعیم کے بچوں کے درمیان چار ارب کا قضیہ ابھی ذہنوں میں تازہ ہے۔ ایک مشورہ اور! ہزاروں کی تعداد میں تیار والے ”فاضلین“ کے پاس نیا مدرسہ اور مسجد بنانے کے سوا روزگار کا کیا ذریعہ ہے؟ جب روز مدرسے بنیں گے اور مساجد تعمیر ہوں گی تو چندے میں ملنے والی رقم مزید تقسیم ہو کر اور کم ہو جائے گی، جس سے اس صنعت کو مزید چلایا نہیں جا سکتا۔ اس لیے موجودہ صنعت کو بچانے کی خاطر نئے ”علماء“ سے دستار بندی کے دوران حلف لیا کریں کہ وہ باہر جاکر نئی مساجد اور مدرسے نہیں بنائیں گے تاکہ مارکیٹ مزید سیچوریشن کا شکار ہو کر بالکل ٹھپ نہ ہو جائے۔
حالت پہلے سے ایسی ہو گئی ہے کہ فارغین تعزیت گاہوں میں دو پیسے ملنے کی غرض سے باری باری خوش الحانی اور پسماندگان کی خوشامد کر کے منبر و دستار کی اہانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ نیز سرکار کی خاطر دینے والے فتوؤں کے عوض ملنے والی رقم بھی جلد بند ہو جائے گی جب آپ کے اپنے شاگرد آپ کے کردار کی تضاد دیکھ کر آپ کی بات نہیں مانیں گے۔
(یہ نصیحتیں مدیران اور مہتممین کے لئے ہیں۔ اساتذہ تو شروع سے بھوکے سلائے جا رہے ہیں۔)
- متحدہ آزاد کشمیر کی نئی پالیسی (حصہ دوم) - 25/10/2023
- متحدہ آزاد کشمیر کے لئے نئی پاکستانی پالیسی - 14/10/2023
- مدرسے اور بلیک واٹر - 20/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).