اعلیٰ عدلیہ میں غیر جمہوری سوچ کی جڑیں
یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ آمروں کے سامنے سرنگوں اور فوجی مارشل لاؤں کو جائز قرار دینے والی عدلیہ نے آئین بنانے اور بحال کرنے والی پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ جسٹس منیر سے جسٹس بندیال تک کس کا ذکر کریں کس کا نہ کریں۔ کیا ایسی اعلیٰ عدلیہ اور چیف جسٹس نظر آتا ہے جس نے مروجہ آئین کا تحفظ کیا ہو۔ ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو صفحہ ہستی سے مٹانے، 1956 کے آئین کے قتل، 1973 کے آئین کے معطل یا حلیہ بگاڑنے، چار بار فوجی آمروں کو آئین و قانون کا لبادہ عطا کرنے اور عدلیہ کو آمروں کے جیب کی گھڑی بنانے جیسے سنہری کارنامے سر انجام دینے کا تاج اعلیٰ عدلیہ کے سر پر رکھنے کے علاوہ کس کو پہنایا جا سکتا ہے۔ آج تک کسی فوجی ڈکٹیٹر کو آئین و قانون پامال کرنے کی پاداش میں مجرم نہیں ٹھہرایا گیا۔ جبکہ عدلیہ نے منتخب حکومتیں ختم کرنے، عوام کے منتخب وزیر اعظم کا جوڈیشل قتل کرنے، وزرائے اعظم کو جیلوں میں ڈالنے، سزا دینے اور جلاوطن کرنے میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا۔ فوجی آمروں کے سامنے تھر تھر کانپنے والے قلم کا زور صرف اور صرف عوام کے منتخب نمایندوں پر تلوار بن کر چلتا رہا۔ جسٹس افتخار چوہدری کے کارنامے بھی کسی سے کم نہیں۔ جمہور کے کندھوں پر سوار ہو کر چیف جسٹس کی کرسی حاصل کرنے والے چوہدری افتخار نے منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ایک غیر قانونی فیصلے کی بھینٹ چڑھا کر وزارت عظمیٰ سے محروم کر دیا تھا۔
عدلیہ کے اندر غیر جمہوری سوچ کے غلبے کی وجوہات کی نشاندہی کرنا مشکل کام نہیں۔ قیام پاکستان کے بعد جمہوری سیاست کے فقدان کی وجہ سے غیر جمہوری قوتوں کو پنپنے کے لئے زرخیز زمین میسر آئی۔ انگریز کی تربیت یافتہ سول بیوروکریسی بشمول عدلیہ اور عسکری قیادت نے کمزور جمہوری پس منظر رکھنے والی سول قیادت کو پسپا کر کے ریاستی اقتدار پر گرفت مضبوط کرنا شروع کر دی تھی۔ 1954 تک ریاست پر غیر جمہوری قوتوں نے اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ دیے تھے۔ سوائے چند مختصر وقفوں کے ریاستی اداروں اور عدلیہ میں غیر جمہوری سوچ کے نمائندہ افراد کی تقرریاں ہوتی رہیں۔ جس سے غیر جمہوری سوچ اور عناصر کی جڑیں مضبوط ہوتی رہیں۔ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرریاں غیرجمہوری قوتوں کی مرہون منت رہی ہیں۔ بیوروکریسی کے سرغنہ غلام محمد، سکندر مرزا، چوہدری محمد علی، اور فوجی آمروں جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے طویل دور اقتدار کے دوران اعلیٰ عدلیہ میں غیر جمہوری سوچ رکھنے والے افراد کی نامزدگیاں کی جاتی رہیں۔ تاکہ یہ عناصر ریاستی اقتدار پر غیر قانونی غاصبانہ قبضے کو نام نہاد قانونی تحفظ فراہم کرتے رہیں۔ اس لئے یہ اچنبھے کی بات نہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان ڈکٹیٹروں کے ریاست پر غیر آئینی قبضے کو آئینی قرار دیتے رہے۔
انصاف و قانون طاقتوروں کے گھر کی لونڈی بنا رہا۔ جبکہ عدالتی فیصلوں کے ذریعے منتخب حکومتوں کے آئینی اختیارات استعمال کرنے اور جمہوری اقدار کے فروغ کے راستے میں کانٹے بچھانے سے دریغ نہیں کیا جاتا رہا۔ عدالتی فیصلوں کا شاخسانہ تھا کہ بے نظیر شہید کی دونوں وفاقی حکومتیں، پیپلز پارٹی کی تیسری وفاقی حکومت اور میاں نواز شریف کی تینوں حکومتیں سیاسی استحکام حاصل نہ کر پائیں۔ کیا اعلیٰ عدلیہ کے تعاون کے بغیر اسٹبلشمنٹ جمہوری حکومتوں کو عدم استحکام کا شکار کرنے میں کامیابی حاصل کر سکتی تھی۔ اس سوال کا جواب ہر پاکستانی بخوبی جانتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اعلیٰ عدلیہ میں تازہ ہوا کا جھونکا بن کر آئے ہیں۔ انہوں نے بطور چیف جسٹس پہلے دن اعتراف کیا کہ سپریم کورٹ سے بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ بقول ان کے بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے غلط کیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ مارشل لاؤں کے حق میں سپریم کورٹ کے فیصلے درست نہیں تھے۔ چیف جسٹس قاضی عیسیٰ جہاں آئین و قانون کی عملداری کا تہیہ کیے ہوئے لگتے ہیں وہیں وہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کے حق قانون سازی کو تسلیم کرتے ہیں۔ مگر ان کے بعض ہمنوا جج صاحبان کی غیر جمہوری سوچ بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ ابھی تک آئین و قانون کی خالق پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ان کی غیر جمہوری سوچ یہ تسلیم کرنے سے عاری ہے کہ عوام کی منتخب پارلیمنٹ بالاتر ہے۔ آئین بنانے اور آئین میں ترمیم کرنے والی پارلیمنٹ آئین کے دائرے میں قانون سازی کرنے میں با اختیار ہوتی ہے۔
عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو بالادست تسلیم نہ کرنے والے جج صاحبان بخوبی جانتے ہیں کہ پارلیمانی جمہوری نظام میں آئین عوام کے منتخب نمائندوں یعنی پارلیمنٹ کی تخلیق ہوتا ہے۔ عوامی حاکمیت کی مظہر اور آئین و قانون کی خالق پارلیمنٹ اپنی تخلیق کے خد و خال کو عوامی مفاد میں ڈھالنے یا تبدیل کرنے پر قادر ہوتی ہے۔ جبکہ آئین ریاست پر عوامی بالادستی اور جمہوری طرز سیاست کے تسلسل کا ضامن ہو تا ہے۔ آئین اور آئینی دائرے میں پارلیمانی قانون سازی سب ریاستی اداروں اور عدالتی اداروں کی تخلیق کرتے ہیں۔ نچلی سطح سے اعلیٰ سطح تک عدلیہ، وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں اور سب ادارے آئین و قانون کے دائرہ میں کام کرنے کے پابند قرار دیے جاتے ہیں۔ یہ نشاندہی کرنا بھی ضروری نہیں کہ سارا عدالتی نظام بشمول سپریم کورٹ پارلیمنٹ کی تخلیق آئین کے مطابق معرض وجود میں لائے گئے ہیں۔ غیر جمہوری سوچ کی قانونی موشگافیاں پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین و قانون کی حکمرانی کے اصول کی بنیاد کو نہیں ہلا سکتیں۔ یہ امید کی جانی چاہے کہ چیف جسٹس قاضی عیسیٰ کے فیصلے آئین و قانون کی عملداری، جمہوری اقدار کے فروغ اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھنے والی قوتوں کو مضبوط کریں گے۔ جس سے عدلیہ میں غیر جمہوری سوچ کے نمائندہ افراد کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ یہاں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ غیر جمہوری قوتوں کی پسپائی اور جمہوری عمل کے تسلسل سے پارلیمنٹ کی بالادستی، آئین و قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے عظیم مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
- ہمسایہ ممالک سے لڑائی! خوشحالی کی دشمن - 29/11/2023
- اصولی مزاحمت سے شہبازی مصالحت تک - 02/11/2023
- میاں صاحبقومی مفاہمت کا راستہ اپنائیں - 20/10/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).