پشتون ثفافتی دن
23 ستمبر چونکہ پشتون ثقافتی دن کے نام سے منسوب ہے تو آئے بتاتا چلوں، کہ اس دن کی ابتداء کہاں سے اور کیسے ہوئی؟
آج سے چھ سال قبل یعنی 2015 کو پشتو اکیڈمی کوئٹہ کے ایک ادبی سیمینار میں ثقافت کے موضوع کو زیر بحث لایا گیا جس میں باہمی فہم و تفہیم اور مشورے سے یہ دن پشتون ثقافت کے لیے طے کر دیا گیا یعنی 23 ستمبر 2015 سے یہ دن پشتون ثقافتی دن کے نام سے منسوب ہونا شروع ہو گیا اور اس روز ہمارے پشتون بہن بھائی پشتو کے مخصوص لباس زیب تن کرتے ہیں۔
سب سے پہلی بات ثقافت ہے کیا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ثقافت کسی قوم یا خطے میں رہنے والے لوگوں کی مادی اور غیر مادی اشیاء کے مجموعے کو ثقافت کا نام دیا گیا ہے، اور ثقافت کا قیام شعوری جد و جہد سے نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے ارتقاء میں فطری عمل کو دخل ہے جس کے لیے زمانہ اور عرصہ درکار ہیں، اور ہاں اسی طرح زمانے کی ارتقاء ہی کی وجہ سے لباس اور رہن سہن کے طور و طریقوں میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔
ثقافت کی دنیا میں لباس اور طرز زندگی یعنی رہن سہن کو اہمیت کا مقام حاصل ہے کیونکہ ایتھنولوجی (The study of culture and civilization) میں یہ بات مذکور ہے کہ ثقافت مرئی اور ثقافت غیر مرئی دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتیں ہیں گویا کہ ایتھنولوجین کا یہ اندازہ ہے، کہ ثقافت غیر مرئی ثقافت مرئی سے ہی ماخوذ ہوتی ہے کیونکہ مرئی ثقافت جس معیار کا ہو گا غیر مرئی بھی وہی معیار اختیار کرے گی تو یہ بات ہم بلا جھجک کہہ سکتے ہیں کہ پشتون ثقافت میں جن چیزوں کو مرئی مقام حاصل ہیں یعنی عورتوں کا مخصوص قسم کا لباس پہننا، حجرے کا قیام، اچھے غذا خاص کر ثرید اور لاندئی کا گوشت، مردوں کا واسکٹ پہننا اور سر پر پگڑی باندھنا جس کو پشتو میں لونگئی کہا جاتا ہے، ان ساری چیزوں میں وہ چیز بذات خود موجود ہے جو ہمیں خوش اخلاقی، مہمان نوازی، وفاداری، خدا پرستی اور غیرت اختیار کرنے پر ابھارتی ہے، لیکن صد افسوس کہ نئی نسل (ہم) کئی عرصہ ہونے کو ہے کہ مرئی ثقافت آہستہ آہستہ چھوڑ رہے ہیں بلکہ غیر مرئی بھی ترک کر چکے ہیں صرف اس دن نوجوان نسل اپنی ثقافت کو مرئی طور پر اپناتی ہے وہ بھی صرف ان چیزوں کو جن کو ثقافت میں کوئی خاص مقام حاصل نہیں ہیں یا اگر مقام حاصل ہے بھی تو ادنی مقام ہے، جو اصل ثقافت ہے وہ ہم بھول چکے ہیں مثال کے طور پر خدا پرستی، بھائی چارگی (ورورګلوی او تربورګلوی) اچھے اخلاق، وفاداری اور حسن سلوک جس کا درس ہمارے بڑوں نے خود اپنی زندگی میں کر کے ہمیں سکھایا۔
مزید یہ کہنا پڑے گا کہ کیا ہی اچھا ہوتا؟ کہ ہم آج کے دن کو غریبوں کی مدد کے لیے صرف کرتے، پشتون کے ان ادباء اور شعراء یعنی خوشحال خان بابا، رحمان بابا اور باچا خان بابا اسی طرح مزید پیچھے جائے تو قیس عبد الرشید کی زندگی پر کسی کو آگاہ کرتے جنہوں نے پشتون اور پشتو زبان کو یہ شہرت اور عزت بخشی، کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم اسی دن کے واسطے اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ تلخ کلامیوں کو ختم کر کے پشتو کی ایک نئی مثال قائم کرتے، جو کہ اصل پشتو یعنی پشتونوالہ یا پښتونولی یہی ہے نا کہ گانا سننا، ڈھول بجانا اور نا ہی عکس بندی کرنا ہے۔
- سہولتیں در سہولتیں - 10/12/2023
- پشتون ثفافتی دن - 23/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).