پاکستان کے انتظامی و معاشی بحران میں نوکر شاہی کا کردار


پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں برطانوی نو آبادیاتی نظام حکومت کا سلسلہ اب تک قائم ہے، اس سلسلے کو مستقل قائم رکھنے میں نوکر شاہی جسے ہم بیوروکریسی کہتے ہیں وہ معاون و مدگار ہیں۔ نوکر شاہی ایک مکمل نظام ہے جس میں ایک مخصوص تربیت یافتہ افراد کا گروہ مل کر ملک پر حکومت کرنے والوں کے احکامات بجا لاتے ہیں۔ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ انگریز بہت ہی کم تعداد میں یہاں آئے تھے اور وہ سلطنت برطانیہ کے وفادار تھے۔ جس میں ملکہ کا حکم شاہی چلتا تھا۔

پاکستان نے آزادی کے بعد بھی اسی سلسلے کو جاری رکھا لیکن اب نہ ملکہ تھی نہ بادشاہت تھی اور نہ ہی انگریز سرکار جس کے مفاد کی رکھوالی کرنی ہو، یہ ایک آزاد ملک تھا مگر اپنا قانون نہ ہونے کے سبب گزشتہ قانون کے مطابق چلنے کا پابند تھا 1956 اور بعد میں کئی مرتبہ انگریزوں کے قانون میں پیوند کاری کی گئی مگر جو نظام چلا آ رہا تھا اس میں کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا، پولیس کا مینول اٹھا کر دیکھ لیں وہی انیسویں صدی کے برٹش پولیس رولز اب بھی رائج ہیں، نوکر شاہی کے لیے وہی امتحان رائج ہے۔

یہ جو سی ایس ایس کا امتحان ہے یہ انگریز کیوں لیتے تھے اس کے پیچھے کیا لاجک تھی۔ یہ لارڈ کرزن کی ڈائری میں لکھے گئے چند جملوں سے واضح ہے کہ ہندوستان میں انگریز سرکار کو ایسے ماتحت درکار تھے جو حفظ و مراتب، لباس و اطوار اور دفتری امور میں انگریز افسروں کو سہولت پہنچا سکیں اور ان کی سہولت کے لیے دفتری کام انگریزی میں کرسکیں اور ضرورت پڑنے پر انگریز افسروں کی غیر موجودگی میں نوابوں اور دیگر با اثر افراد سے وقتی طور پر معاملات کو انگریز سرکار کے منشا ء کے مطابق طے شدہ اصولوں پر چلا سکیں، اس لیے ان افسران کا امتحان انگریزی زبان میں مہارت اور انگریز سرکار کے نظام سے واقفیت کی بنیاد پر لیا جاتا تھا پھر ڈیرہ دون میں ان کی جو عملی تربیت کی جاتی تھی اس میں ان کو سکھایا جاتا تھا کہ صرف انگریز ہی اس دنیا میں لائق عزت و تکریم ہیں باقی سب رعایا ہیں اس لیے ان سے ملتے ہوئے آپ نے کسی بھی قسم کی مقامی روایت و ترتیب کا خیال نہیں رکھنا کھانا انگریزوں کی طرح کھانا ہے لباس انگریزوں کا استعمال کرنا ہے نوکروں سے انگریزوں کی طرح پیش آنا ہے اور خود سے کوئی فیصلہ نہیں لینا جو سرکار کہے اس پر عمل کرنا ہے اور دوسروں سے کرانا ہے۔

یہ سب انگریز سرکار کے اس مینول کے مطابق ہوتا تھا جس کے ذریعہ وہ اپنے مفتوحہ علاقوں کا نظام سنبھالتے تھے۔ پاکستان 47 کے بعد تو مفتوحہ نہیں تھا بلکہ ایک آزاد ملک تھا، اسے ایک نئے اور مکمل نظام کی ضرورت تھی جس پر عمل پیرا ہو کر اس کے مسائل حل ہوسکتے تھے اور ایک نئے ملک کی پہچان بننی تھی مگر ایسا نہیں ہوا، نوکر شاہی میں نوابوں، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے لیے کوٹہ رکھا گیا اور جو سیٹیں باقی بچتیں ان پر انگریزوں کی طرز کے ایک امتحان سے لوگ بھرتی کر کے انگریزوں کی ضرورتوں کے مطابق ان کی تربیت کر کے ان کو ملک چلانے کا اختیار دے دیا گیا۔

انگریزوں کے دور میں انگریز افسر دیانت دار ہوا کرتے تھے اور وہ سلطنت برطانیہ کے ساتھ وفا دار بھی تھے اس لیے اپنے ماتحتوں سے کام لیتے تھے ان کے لیے تمام پالیسیاں انگلستان سے بن کر آتی تھیں۔ یہاں وہ اس پر عمل درآمد کرتے تھے یہاں کسی نے پالیسی بنائی نہیں، پاکستان کی آزادی کے دس بارہ برس بعد چند ایک ماہرین معاشیات جو پروفیسر تھے ان کو جمع کیا گیا انہوں نے پانچ سالہ منصوبہ بندی پلان بنائے جن پر عمل درآمد کر کے پاکستان اچانک دنیا کی نظروں میں آ گیا طویل مدتی کچھ منصوبوں نے تو دنیا کو حیران کر دیا تھا، اسی دور میں چند ایک بینکروں نے پاکستان کو ایک بہترین بینکنگ کا نظام بھی دیا جس سے یہاں کے بینکوں کا نظام بہت بہتر ہو گیا، یہاں کے انجینئروں نے روسیوں کے ساتھ مل کر ایشیا ءکی سب سے بڑی سٹیل مل کھڑی کردی، آبی ذخائر سے فائدہ اٹھایا گیا، پی آئی اے کو جدید بنیادوں پر چلایا اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس کے اثاثے بنائے، مگر ان ماہرین کو نوکر شاہی نے کام کرنے نہیں دیا یوں ان میں سے بیشتر یہ ملک چھوڑ کر چلے گئے، بینکرز اور ہوائی جہازوں کے ماہر متحدہ عرب امارت چلے گئے ان کی ذہانت اور پاکستان میں ان کے گزشتہ تجربوں سے فائدہ اٹھا کر وہ آج اس مقام تک پہنچے، یہاں موجود انگریز سرکار کے سسٹم کے بنائے نوکر شاہی نے وڈیروں اور کارخانہ داروں کو خوش کرنا شروع کر دیا، یوں پاکستان زوال پذیر ہو گیا اور یہ نوکر شاہی پاکستان کی بجائے افراد کی خوشنودی میں مصروف ہو گئے۔

آزادی کے بعد پاکستان کو چند سوٹ میں ملبوس یس سر اور نو سر کرنے والے بابو نہیں ماہرین کی ضرورت تھی جو منصوبہ بندی کرتے آزادی سے پہلے یہ منصوبہ ساز انگلستان میں ہوتے تھے لیکن یہاں ان منصوبہ سازوں کی جگہ بی اے کرنے والے نوکر شاہی اور ایف اے کرنے والے ماتحتوں نے ملک کا انتظام سنبھال لیا اور حکمرانی کے لیے جن لوگوں کا انتخاب کیا گیا۔ ان کے لیے تعلیم کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ چند ایک خاندانوں کو ہم نے سلطنت برطانیہ کا متبادل سمجھا اور ان کے بعد ان کے بچوں اور پوتوں کو بھی آقا تسلیم کر لیا اور ہمارے معاشرے میں جو چاپلوسی اور خدمت گزاری انگریزوں کے دور سے چلی آ رہی تھی۔ اس کا رخ انگریز سرکار کے بعد ان چند خاندانوں کی طرف کر دیا گیا۔

اس سب میں عملی طور پر بی اے پاس اس نوکر شاہی کا ہاتھ تھا ورنہ غلام محمد کا گورنر بننا اور اس کے بعد نا اہل لوگوں کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار ہے۔ اس سب کی وجہ ریاست کے ان اہم پوسٹوں کے لیے مقابلے کے بوسیدہ ترین امتحان سے گزر کر آنے والے یہ نوکر شاہی ہے۔ یہ بی اے کر کے منصوبہ ساز بھی بنتے ہیں۔ یہ تعلیم کے شعبہ کے بھی ماہر بن جاتے ہیں۔ یہ جہاز رانی کی صنعت کو بھی دیکھتے ہیں۔ یہ کامرس، صحت، ٹیکسیشن، سیاحت، زراعت، تجارت، صنعت، حرفت، پولیس، موسمیات، سپورٹس، ریلوے، اطلاعات و نشریات، قدرتی آفات و حادثات، ہنگامی امداد، غرض جتنے بھی ملکی انتظام کے محکمے ہیں۔ ان کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں جب کہ ان کا امتحان انگریزی، پنجابی، سندھی، پشتو، تاریخ، امریکن تاریخ، انگلستان کی تاریخ، اسلامیات، کرنٹ افیئرز، پولیٹیکل سائنس، انٹرنیشنل افیئرز، وغیرہ کے دو دو گھنٹے کے پیپر میں لیا جاتا ہے جس میں انہیں دو گھنٹوں میں پانچ سوال حل کرنے ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے پاکستان میں گائیڈز اور نوٹس بازاروں میں دستیاب ہیں جن کو رٹ کر امتحان باآسانی پاس ہوجاتا ہے اور پھر ہر شہر میں کوچنگ سینٹر موجود ہیں۔ جہاں مخصوص سوالوں کے جوابات انگریزی میں رٹائے جاتے ہیں۔ ایک برس رٹا لگائیں اور پھر نوکر شاہی کی مخصوص تربیت لے کر ایف بی آر، کسٹم، مواصلات، منصوبہ بندی، زراعت، صحت، تعلیم، ہوا بازی و جہاز رانی، سفارتی امور و خارجہ پالیسی اور دیگر شعبوں کے ماہر بن جائیں اور فیصلہ سازی کریں۔

دنیا بھر میں ان تمام شعبوں کے لیے الگ الگ لوگ ہوتے ہیں جن کی تعلیمی اور عملی تربیت اسی شعبہ میں ہوتی ہے اور وہ اسی شعبہ میں مستقل ملازمت بھی کرتے ہیں۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ تربیت لے لے کر وہ اس کام میں دنیا کی ترقی کے رفتار میں شامل ہوتے ہیں۔ اس لیے دیکھئے اس ملک میں کوئی بھی کام ٹھیک ہو رہا ہے۔ کیا کسٹم اپنا کام ٹھیک کر رہی ہے؟ کیا صحت کا محکمہ کام کر رہا ہے؟ کیا ریلوے، ڈاکخانے کا نظام درست ہے؟ کیا منصوبہ بندی نام کی کوئی شے ہے؟

کیا پولیس کرائمنالوجی کے علم اور جدید تقاضوں سے آگاہ ہے؟ کیا یہاں شہروں میں انتظامیہ نام کی کوئی شے ہے؟ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم نے ان کاموں کے لیے اسپیشلائزڈ لوگوں کی جگہ انگریزی لباس میں ملبوس یس سر جی سر، کرنے والے بابو بھرتی کیے ہیں۔ ان کا کام صرف حکمرانوں کے احکامات بجا لانا ہیں۔ ملکی معاملات اور انتظام کو بہتر کرنے کی جگہ یہ اپنے لیے مراعات میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ اب ذرا غور کریں یہ سب لوگ بی پی ایس میں تنخواہ لینے کے پابند ہیں۔ مگر یہ اس بنیادی تنخواہ پر تین سو پچاس گنا زیادہ ایک الاونس لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مراعات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس کا تصور عرب کے شیخ بھی نہیں کر سکتے۔

پاکستان شدید ترین توانائی کے بحران کا شکار ہے لیکن یہ نوکر شاہی لاکھوں سرکاری گاڑیوں کا استعمال کرتی ہے جو سالانہ کتنے سو ارب کا بجٹ خرچ کرتی ہیں۔ یہ دفتروں اور رہائش گاہوں میں بجلی کا مفت اور بے دریغ استعمال کرتی ہے۔ سرکاری ریسٹ ہاؤسز کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے خرچے دیکھیں اور ان کی کارکردگی دیکھیں یہ تو وفاقی سطح کے سی ایس ایس افسران کا حال ہے جو صوبائی سطح پر ان کاموں کے لیے بھرتی ہوتے ہیں۔ ان کا معیار و تربیت تو بیان کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔

اس ملک کو اب نوکر شاہی کی نہیں اپنے اپنے شعبوں کی ماہرین کی ضرورت ہے جو تعداد میں کم ہوں اور با اختیار ہوں اور نوکر شاہی کے ماتحت نہ ہوں تو چند برسوں میں اس ملک کے وسائل کو استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ اس کا انتظام درست کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بے جا خرچے ختم کیے جا سکتے ہیں۔ دنیا کے جدید تقاضوں خصوصاً آئی ٹی کے ماہرین سے ای گورننس لاگو کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے جو افرادی قوت کو بہت کم کر سکتی ہے اور کارکردگی کو کئی گنا بڑھا سکتی ہے۔

یہاں اردلی، چپڑاسی اور خدمت گاروں کی ایک فوج ہے۔ پورے پاکستان میں ان کی تعداد کئی لاکھوں میں ہوگی لیکن کمال دیکھیں کہ برطانیہ میں اس نوعیت کی کوئی آسامی نہیں ہے۔ امریکہ میں بھی اس کا کوئی رواج نہیں ہے۔ ایک انگریز افسر پورے صوبہ کا انتظام دو ماتحتوں کی مدد سے سنبھالتا تھا۔ اب ایک صوبے میں بلکہ چھوٹے صوبے میں ان انتظامی افسران کی تعداد چار ہزار سے بھی زیادہ ہے اور ان کی خدمت کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جب کہ ہالینڈ جیسے ملک کے انتظامی افسران کی تعداد ڈھائی سو سے بھی کم ہے اور ان کا کوئی ماتحت یا خدمت گار نہیں ہے۔ اور ان کی تنخواہ اور مراعات میں گزشتہ دو دہائیوں سے کوئی اضافہ نہیں کیا گیا لیکن وہاں سب انتظام مثالی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments