کتاب تبصرہ: خوشبو کی دیوار کے پیچھے از محمد حمید شاہد


”زندگی بھیدوں بھری کتاب ہے
یہ ہاتھ لگے اور کھولنے کا وقت نہ ملے تو ورق ورق دیمک چاٹ جاتی ہے۔
کھول لیں تو اس کی اپنی زبان سیکھے بغیر اسے پڑھا اور سمجھا نہیں جا سکتا۔ ”
محمد حمید شاہد

بھیدوں بھری اس کتاب میں کیا کچھ ہو سکتا ہے یہ ہر انسان کے ذاتی تخیل پر مبنی ہے۔ خوشبو کی دیوار وہ پردہ ہے جو ایک سے دوسرے انسان کے بیچ پڑا ہے، یہ پردہ ہٹے تو کون سا روپ نکلے گا یہ آپ تب تک نہیں جان سکتے جب تک آپ اس پردے کو ہٹا کر نہ دیکھیں۔ میں حمید شاہد صاحب سے محض ایک دو بار ملی ہوں۔ یقینی طور پر میں ان کے بارے میں اس قدر نہیں جان پائی کہ میں ان کی شخصیت پر چند جملوں سے بڑھ کر تبصرہ کر سکوں۔ مگر ان کی خود نوشت ”خوشبو کی دیوار کے پیچھے“ میں نے پڑھی ہے اس لئے اس کتاب کی رو سے دیوار کے اس پار مجھے کیا کچھ نظر آتا ہے اس کا تذکرہ میں کر سکتی ہوں۔

اس کتاب کے پہلے پچاس سے سو صفحات ایک کم عمر نوجوان کا مشاہدہ اور مطالعہ ہے جو اس نے نہ صرف اپنی نظر سے بلکہ اپنے والد اور والدہ صاحبہ کی نظر سے کر رکھا ہے۔ یہ مطالعہ اور مشاہدہ اس قدر باریکی اور نزاکتوں پر مبنی ہے کہ میرے گاؤں کے ساتھ براہ راست رابطوں کے باوجود خود میرے لئے ایک دلچسپ مطالعہ رہا۔ یہ وہ داستانیں ہیں جو ہمارے والدین ہمیں اس قدر مستعدی اور مہارت سے نہ سنا سکے چونکہ یہ ان کے بھی مطالعے اور مشاہدے کا حصہ تھے۔ مطالعہ اور مشاہدہ کھول کر خوبصورتی سے بیان کر دینا ہی تو وہ ہنر ہے جو ایک تخلیق کار کو عام انسان سے الگ کرتا ہے۔

یہ مناظر اور داستانیں اپنے اندر اس قدر متوجہ کر لیتے ہیں کہ آپ خود کو بھی اسی منظر کا ایک حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔ قاری کا دل پنڈی گھیپ میں نانی جان، ابا جان اور امی جان کے ساتھ ساتھ دھڑکنے لگتا ہے۔ امی جان کا بھائی کے خلاف کھڑے ہو جانا ہو کہ نانی جان کی ٹوٹ جانے والی ہڈی کے ساتھ ٹوٹ جانے والی قسم ہو یا والد صاحب کی نصیحت کہ

”بیٹا! جب دوسروں سے چھپ کر یا کسی کو دھوکہ دے کر کچھ حاصل کرنے کو دل چاہے تو سمجھ جانا بات ضرورت سے بڑھ گئی ہے۔“

قاری یہ بھول جاتا ہے کہ داستان مصنف کی نہیں بلکہ ان کے والدین کی بھی نہیں، والدین کے والدین کی چل رہی ہے اس کے باوجود انتہا کی دلچسپی پیدا کرتی ہو۔ صدی پہلے کے حالات و واقعات میں حمید شاہد صاحب نے گمبھیر فلسفے کو اس طرح لپیٹ دیا ہے کہ محسوس تک کرنا مشکل ہے کہ آپ سادہ الفاظ میں زندگی کے بڑے بڑے فلسفے ازبر کرتے جا رہے ہیں۔

یہ کتاب آپ کو کہانیاں نہیں سناتی باتیں کرتی ہے، جیسے کسی گاؤں کا ایک بوڑھا آدمی حقہ منہ سے لگائے فصلوں کے بیچ میں چارپائی بچھائے بیٹھا ہو اور آپ کو باتوں ہی باتوں میں سادہ سے الفاظ میں عمر بھر کی حکایت سنانے میں مصروف ہو کہ اور آپ کو خبر تک نہ ہو کہ نصف صدی بیت چلی۔ صرف یہی نہیں اسی گفتگو کے بیچ کہیں کوئی واقعہ کوئی شعر یا غزل اچانک اتر آئے تو اسے اپنے لئے مخصوص اور بنی بنائی جگہ پہلے سے تیار ملتی ہے تب احساس ہوتا ہے کہ حقے والا بوڑھا دراصل آج کے ادب کا گمبھیر مطالعہ رکھتا ہے۔

یہ تو بہت بعد میں جا کر کھلتا ہے جب شاعروں اور ادیبوں کا ذکر شروع ہوتا ہے کہ یہ حقے والا گاؤں کا بوڑھا دراصل خود ایک ادیب اور تحقیق کار ہے۔ اور پھر یہیں ان تمام قصوں کی حقیقت کھلتی ہے کہ بھلا ایک ادیب اور تحقیق کار سے بڑھ کر یہ کچی مٹی کی خوشبو، فصلوں کی سرگوشیوں میں سے ابھرتی چکی کی گھمر، مطب کی دیواروں پر نصب تختیاں اور قبروں پر اگی گھاس، خاموش آوازیں، سائے اور سرسراہٹیں، اور کون اتنی ہوشیاری سے بیان کر سکتا ہے۔

خوشبو کی دیوار کے پیچھے کیسے کیسے رنگ جمے ہیں
جب تک دن کا سورج آئے اس کا کھوج لگاتے رہنا
منیر نیازی کے اس شعر کو کتاب کا ٹائیٹل بناتے ہوئے شاید حمید شاہد صاحب

اپنی ذات کے اسرار سے پردہ اٹھانے کے خواہشمند تھے۔ خوشبو کی دیوار کے پیچھے کتاب کے سرورق پر جلی حروف میں لکھا ہے خود نوشت!

مگر یہ ہڈ بیتی نہیں ہے!

اس کتاب کو ہڈ بیتی کا تذکرہ ضرور کہا جا سکتا ہے مبہم سا، بے ترتیب سا، مگر یہ صحیح معنوں میں ایک ہڈ بیتی نہیں ہے۔

یہ کتاب ان تمام اجزائے تراکیب کی وضاحت تو ضرور کرتی ہے جن کے ملانے سے حمید شاہد صاحب کی شخصیت وجود میں آئی ہے مگر کس ترتیب سے کون سا جز اس میں کس طرح کس وقت کتنی مقدار میں شامل ہوا اس کی کوئی منظم شکل نہیں دیتی۔ بچپن اور والدین کی قربت اس شخصیت کا ستر فیصد حصہ دکھائی دیتا ہے۔ پھر دوسرا بڑا عنصر سیاسی اور معاشرتی محسوس ہوتا ہے۔ حمید شاہد صاحب جس روانی اور فرصت سے اپنی کہانی بیان کرنا شروع کرتے ہیں بچپن سے بلوغت تک آتے اس میں دراڑ پڑنے شروع ہو جاتی ہے پھر اس میں سیاسی اور معاشرتی حالات کی شدت دکھائی دینے لگتی ہے اور مصنف کا وجود مبہم ہونے لگتا ہے۔

مصنف جو ایک تخلیق و تحقیق کار ہیں اور اپنی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر تمغہ امتیاز حاصل کر چکے ہیں آخر ان کے بننے کی ترکیب کیا تھی۔

ایک نقاد اور ادیب ادب کی سیڑھیوں سے چڑھتا کب تیز بھاگا کب آہستہ رو، کب تھک گیا اور کب اس کا جی بھر گیا۔ بننے کا عمل ہمیشہ ان تمام محسوسات سے لبریز ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ جب قاری ایک تخلیق کار کی خودنوشت اٹھاتا ہے تو وہ ان میں سے وہ حوصلہ چاہتا ہے جو اسے خود اپنے سفر میں درکار ہوتا ہے۔ وہ یہ بھی جاننا چاہتا ہے زندگی میں کتنی بار مٹی میں ملنا ہو گا کہ خوشبو کی دیوار کھڑی کی جا سکے، کب کب ٹوٹ بکھرنا ہو گا، کب کب ٹوٹ چکے غرور ہستی کو پھر سے اپنے ہاتھوں سے گوندھنا یو گا کہ بالآخر تمغہ امتیاز ہاتھوں میں سما سکے۔

وہ محسوسات جو حالات، اعمال اور زمانے کے عمل کے ردعمل میں پیدا ہوتے ہیں قاری ان کی آواز سننا چاہتا ہے تا کہ اسے اپنی جدوجہد کے نارمل ہونے پر یقین آ سکے اس لئے بھی کہ اسے مصنف کی ہستی کے زندہ جاوید ہونے کا یقین ہو سکے۔ خودنوشت میں جو دھڑکتا ہوا ایک زندہ انسان کا دل نظر آتا ہے جو قاری کو زندگی کے معانی سے متعارف کروایا ہے مجھے لگتا ہے کہیں کہیں اس کی جگہ کم پڑتی رہی۔ یہ کتاب فتح کے ترانوں اور شکست و ریخت کی داستان سے نظر چراتے میں کامیاب رہی۔

اس کتاب کی رو سے حمید شاہد صاحب کی شخصیت 25 فیصد اپنے بچپن اور والد صاحب پر مشتمل ہے اور باقی پچھتر فیصد ادب، ادبی حلقے، اور ادیب سے لبالب بھری ہے۔ مزید تفصیل میں جائیں تو یہ کتاب دراصل شہر حکمران کے ادب اور ادیب کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔

اور اگر نہیں بھی ہے تو ادب اور ادیب اس کتاب میں اس قدر ٹھونس ٹھونس کر بھر چکے ہیں کہ حمید شاہد صاحب کی ہستی پس منظر میں چلے جاتی ہے۔ کتاب ادب اور ادیب کا تعارف زیادہ لگنے لگتی ہے اور خودنوشت کم۔ یہ معاشرے کی، اس کی سیاست کی، اہم لوگوں اور ادیبوں کی کہانی لگتی ہے۔

یہی رہی وہ تشنگی جو پوری کتاب میں برقرار رہتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مصنف بیرونی دنیا کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اپنے بارے میں بات کرنا ہی بھول چکے ہیں۔ بیرونی منظرنامہ مکمل رہا مگر اندرونی منظر کبھی کبھی جھپ دکھاتا اور پھر ادب اور ادیب یا سیاسی و سماجی حالات کے پیچھے چھپ جاتا۔ بحیثیت ایک فرد ایک افسانہ نگار اور نقاد کے حمید شاہد صاحب کی کتاب شواہد سے بھری ہے مگر قاری کو ادھر ادھر کے مناظر دکھا کر سیاسی اور معاشی ٹکڑے چھیڑ کر خود تک لانے سے بہت کامیابی سے روکتی رہی ہے۔

حمید شاہد صاحب کی شخصیت کے کچھ مرکزی رنگوں میں ان کا گاؤں، والدہ اور والد صاحب مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اس کے بعد اگر کوئی نظر آتا ہے تو کہیں کہیں پہلی اور آخری محبت عمر بھر کی کمائی کی صورت ان کی اہلیہ یاسمین اور وہ بھی ایک آدھ مضمون کی صورت یا کہیں کہیں برسبیل تذکرہ۔ مصنف ادب اور ادیب کو ذاتی زندگی کا اس قدر حصہ بنا چکے ہیں کہ اب اس سے ہٹ کر الگ دکھائی ہی نہیں دیتے۔

تو بات یہ ہے کہ خوشبو کی دیوار کے پیچھے جتنے بھید ہیں ان میں سے اکثر اس کتاب کے بعد بھی بھید ہی رہتے ہیں۔ پوری صورت میں کھل نہیں پاتے۔ ہمیں اس کتاب میں ایک نوجوان اور ایک ادیب، اس کے سارے دوست احباب اور معاشرہ تو بھاری بھرکم نظر آتا ہے مگر اس کے اپنے سارے ادوار اور روپ پورے نہیں تو کافی حد تک بھید ہی رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments