آسڑیلوی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیب (2)
برطانوی نو آبادیوں میں بھیجے جانے والے زیادہ تر مجرم مرد تھے۔ اگرچہ ان میں کچھ ایسے بھی تھے۔ جنہیں قتل جیسے سنگین جرائم میں سزائیں دی گئی تھیں۔ تا ہم اکثریت کو چھوٹے موٹے جرائم میں سزائیں دی گئیں تھیں۔ یوں لگتا ہے کہ اس کا واحد مقصد انہیں مجرم قرار دے کر آبادکاروں کی شکل میں مختلف نوآبادیوں میں منتقل کرنا تھا۔ مثلاً کچھ کو کسی تالاب یا دریا سے کوئی چیز چوری کرنے کی سزا ملی تھی۔ تو کسی کو جھاڑیوں کو آگ لگانے پر۔ ان میں سے ایک قابل ذکر سزا وہ ہے جو آسٹریلیا میں ایک جنگل کے مشہور مالک نیڈ کیلی کے والد کو دی گئی۔ ان کے والد کا نام ریڈ تھا۔ جو آئرلینڈ کے رہائشی تھے۔ انہیں دو سور چرانے کے جرم میں سات سال کے لیے تسمانیہ بھیج دیا گیا۔ آسٹریلیا کی سرزمین پر قدم رکھنے والی پہلی برطانوی خاتون مجرم کا نام الزبتھ تھیکری تھا۔ انہیں پانچ عدد رومال چرانے کے جرم میں سات سال کی سزا دی گئی تھی۔ ویسے تو برطانوی شہریوں کو چھوٹے موٹے جرائم میں سزا سنا کر آسڑیلوی نو آبادی میں بھیجنے کا عمل ایک تسلسل کے ساتھ 1868 ء تک جاری رہا۔
لیکن برطانیہ بدر کیے جانے والے مجرموں کی سب سے بڑی تعداد 1833 ء میں دیکھی گئی۔ جب سات ہزار افراد کو 36 بحری جہازوں پر چڑھا کر برطانوی نوآبادی میں منتقل کیا گیا۔ جن علاقوں میں ان لوگوں کو بسایا گیا۔ وہ اب تسمانیہ، وکٹوریہ اور کوئنز لینڈ میں شامل ہیں۔ اپنی سزا ختم ہونے کے بعد بہت سے مجرم آسڑیلیا میں ہی رک گئے اور انہوں نے سرکاری ملازمتیں کر لیں۔ جب برطانیہ نے آسٹریلیا کو اپنی نوآبادی بنانے کی بنیاد رکھی اور جیلوں سے مجرموں کو نکال کر یہاں آباد کرنا شروع کیا۔ تو یہاں آسٹریلیا کے اصل مکین 5000 سالہ تہذیب کے ساتھ مختلف قبائل کی شکل میں موجود تھے۔ یہ غالباً دنیا کی قدیم ترین تہذیب تھی۔ جو اس قطعے میں کسی حد تک اپنی اصل شکل و صورت میں موجود تھی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ انگریز یہاں پر بہت سی ایسی بیماریوں کو اپنے ساتھ لے کر آئے جن کے خلاف قوت مزاحمت ان مقامی باسیوں میں موجود نہیں تھی۔ نتیجے کے طور پر ان قدیم باشندوں کی تقریباً نصف آبادی باہر سے آنے والی ان بیماریوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔
مگر تاریخ دان اس کو اس قتل کی پردہ پوشی قرار دیتے ہیں۔ جو برطانوی استعمار نے آسڑیلیا میں اختیار کی۔ دوسرا بڑا کام جو برطانوی آبادکاروں نے کیا۔ وہ پانی کے وسائل اور زرخیز زمینوں پر قبضہ تھا۔ جس کی وجہ سے آسٹریلیا کے اصل باشندے ننگ اور بھوک کا شکار ہو گئے اور تیسرا طریقہ جو اختیار کیا گیا۔ اور اسی طریقے سے مقامی باشندوں کو بہت تیزی سے ختم کیا گیا وہ یہ تھا۔ کہ انگریز کہتے تھے ہم کنگرو کی جگہ انسانی شکار کرتے ہیں۔ یعنی قدیمی باشندوں کو جانوروں کی طرح شکار کیا گیا۔
جدید ٹیکنالوجی میں آبادکاروں کے مقابلے میں ان کی حیثیت تو نہ ہونے کے برابر تھی چناں چہ یہ لوگ بڑی تیزی سے برطانوی استعمار کا شکار ہوتے چلے گئے ایک روایت کے مطابق ان لوگوں کو قتل کرنے والے آبادکاروں کو ایک قتل کا خاصا معقول معاوضہ دے کر اس فعل کی سرکاری طور پر حوصلہ افزائی کی جاتی۔ اس قتل عام میں مردوں عورتوں اور بچوں میں کسی قسم کی کوئی تخصیص روا نہ رکھی جاتی۔ غرض کہ بیسویں صدی کے آغاز تک ان کی بقیہ تعداد دو لاکھ سے بھی کم رہ گئی۔ اور انہیں بھی آسٹریلیا کے دور دراز اور بنجر بیابان علاقوں میں دھکیل دیا گیا۔ آج بھی تقریباً تمام ترقی یافتہ علاقوں میں ان کا وجود عنقا ہو کر رہ گیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آباد کاروں کی تعداد بڑھی۔ اور ایک تبدیلی جو اس عرصے میں ہوئی۔ وہ اون کی صنعت کا ظہور تھا۔ جو 1840 ء کی دہائی تک آسٹریلوی معیشت کے لیے آمدنی کا ذریعہ بن گیا۔ جس میں ہر سال مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ 19 ویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں آسڑیلوی اون یورپی منڈیوں میں مقبول رہنے لگا۔
آسٹریلوی دولت مشترکہ کی ریاستوں پر مشتمل باقی کالونیاں 19 صدی کے وسط سے شروع ہو چکی تھیں۔ 1851 ء میں وکٹوریہ اور 1859 ء میں کوئنز لینڈ کی کالونیوں کی بنیاد رکھی گئی۔ 1851 ء میں مشرقی وسطی نیو ساوتھ ویل میں سونا، دریافت ہونے سے دنیا کی نظروں میں آسڑیلیا کی اہمیت یک دم بہت بڑھ گئی۔ اور تارکین وطن کی آمد سے آبادی میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ اس عرصے میں برطانیہ اور آئرلینڈ کی کم سے کم 2 فیصد آبادی آسڑیلیا منتقل ہو گئی۔ دیگر قومیتوں کے آبادکاروں جیسے کہ امریکی نارویجین، جرمن اور چینیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ 1870 ء کی دہائی میں دیگر معدنیات جیسے کہ ٹن اور تانبے کی کان کنی بھی اہم ہو گئی۔ اور 1880 ء کی دہائی چاندی کی دہائی تھی۔ اون اور معدنیات دونوں کے ذریعے لائی جانے والی خدمات کی تیز رفتار ترقی نے آسٹریلوی باشندوں کی ترقی کو مستقل طور پر متحرک کیا۔ انیسویں صدی کے آخر تک یہاں کی آبادی 30 لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ 1860 ء سے لے کر 1900 ء کے عرصہ کے دوران اصلاح کاروں نے ہر سفید فام باشندے کو مناسب سکولنگ فراہم کرنے کے لیے مسلسل کوشش کی۔ اور اسی عرصہ میں خاطر خواہ ٹریڈ یونین تنظیمیں بھی وجود میں آئیں۔
انیسویں صدی کے آخر میں آسڑیلوی دانش ور اور سیاستدان ایک فیڈریشن کے قیام کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور مسودہ آئین کی تیاری شروع کی گئی۔ جولائی 1900 ء میں اس منصوبے کو شاہی منظوری دے دی گئی۔ اور پھر ایک عوامی ریفرنڈم کے ذریعے اس حتمی منصوبے کے حق میں عوامی تائید بھی حاصل کر لی گئی۔ آخر کار یکم جنوری 1901 ء کو آئین کی منظوری نے چھ برطانوی کالونیوں، نیو ساؤتھ ویلز، وکٹوریہ، مغربی آسڑیلیا، جنوبی آسڑیلیا، کوئنز لینڈ اور تسمانیہ کو آسٹریلیا کی دولت مشترکہ کے نام سے ایک قوم بننے کی اجازت دے دی۔ اس طرح کی تبدیلی کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت کے بعد سے آسٹریلیا کو انگریزوں سے زیادہ آزادی حاصل ہو گئی۔ اس کے بعد یہاں کے باسیوں کو مزید جمہوری حقوق بتدریج حاصل ہوتے گئے۔ آج بھی آسٹریلیا کا بادشاہ برطانیہ کا بادشاہ ہوتا ہے۔ لیکن ویسے یہاں پارلیمانی جمہوریت قائم ہے۔ اور جمہوری حکومتیں ہی ملک اور عوام کے تمام مسائل کو دیکھتی ہیں۔ بادشاہ کی حیثیت محض علامتی اور روایتی ہے۔
- گاؤں کا پنچایتی نظام - 30/11/2023
- جنات سے ملاقات - 25/11/2023
- دیہی ثقافت میں خواتین کے مسائل - 16/11/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).