نوازشریف کی واپسی، فائدے اور نقصانات


نواز شریف کی واپسی ملکی معیشت کو صحیح ڈگر پر ڈالنے کے لیے تو شاید اتنی ضروری نہ ہو، جتنا کہ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کی جانب سے رنگ آمیزی کی جاری ہے۔ مگر بہرکیف پارٹی کی اعلان کردہ تاریخ پر نواز شریف کا ملک میں واپس آ کر بھرپور انتخابی مہم چلانا اگلے انتخابات میں مسلم لیگ نون کی انتخابی جیت کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ جبکہ اگلے قومی انتخابات سے پہلے نواز شریف کے ملک میں واپس نہ ہونے سے اتنا زیادہ سیاسی فائدہ اٹک جیل میں ایام اسیری کاٹنے والے عمران خان کو نہیں ہو گا، جتنا اس بات کا انتخابی فائدہ اٹھانے کا منصوبہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری ذہن رسا میں پنپ رہا ہے۔

بظاہر بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے قومی ذرائع ابلاغ میں تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اور ان کی جماعت میاں محمد نواز شریف کو قومی انتخابات کی انتخابی مہم کا آغاز ہونے سے پہلے ملک کے اندر دیکھنا چاہتی ہے۔ لیکن دوسری جانب بلاول کی جانب سے ایسے سیاسی بیانات بھی تسلسل کے ساتھ دیے جا رہے ہیں، جن سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اگر نواز شریف ملک میں واپس آ کر انتخابی مہم کی پیشوائی کرتے ہیں تو یہ سراسر مقتدر حلقوں کے ساتھ ان کی خفیہ ڈیل کا نتیجہ ہو گا۔

یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ جیسے جیسے قومی انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں، ویسے ویسے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان سیاسی اختلافات، ایک دوسرے کے خلاف سیاسی بیان بازی کی صورت میں شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابات سے قبل صف آراء ہونا بالکل ایک فطری عمل ہے۔ خاص طور پر جب معاملہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ انتخابی نشستیں حاصل کر کے وزیراعظم کے منصب پر براجمان ہونے کا ہو تو پھر دونوں طرف کے سیاسی قائدین کا ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور انداز میں پنجہ آزمائی کرنا بنتا بھی ہے۔

مگر انتخاب جیتنے کے لیے کی جانے والی ”انتخابی لڑائی“ اور ایک دوسرے کو رسوا کرنے کے لیے کی جانے والی ”ذاتیاتی لڑائی“ میں بہت فرق ہوتا ہے۔ فی الحال ہم پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون میں جسم قسم کی سیاسی معرکہ آرائی ملاحظہ کر رہے ہیں۔ اسے کم سے کم اگلے قومی انتخابات جیتنے کے لیے ہونے والی صرف ہلکی پھلکی ”انتخابی لڑائی“ تو ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اندیشہ نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ جس کا سب سے بڑا اور ناقابل تردید ثبوت، مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت کا میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان سیز فائر کروانے کے لیے منظر عام پر سامنے آنا ہے۔

یاد رہے کہ چوہدری شجاعت حسین ایک انتہائی زیرک اور بردبار سیاست دان ہیں، جو فقط خبر بننے یا خبر بنانے کے لیے کبھی بھی کسی سیاسی معاملہ کے بیچ میں اپنی ٹانگ نہیں اڑاتے۔ ہاں! سیاسی معاملات سنگین ہوجائیں تو پھر وہ پس منظر سے پیش منظر میں آنے میں ایک لمحہ کی تاخیر نہیں کیا کرتے۔ اس بار بھی شاید معاملہ سنگین کے ساتھ ساتھ کچھ رنگین بھی ہو گیا ہے اور مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت کے درمیان اگلے انتخابات کے بعد نئی حکومت کی تشکیل اور عہدوں کی بندر بانٹ پر ابھی سے شدید اختلافات اور ابہامات پیدا ہو گئے ہیں۔

دراصل آصف علی زرداری کا موقف یہ ہے کہ سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد میاں محمد شہباز شریف کو وزیراعظم بناتے ہوئے یہ طے پایا تھا کہ اگلا وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہو گا۔ جبکہ اس معاملہ پر مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کا یہ کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی میں سے جس سیاسی جماعت کو بھی اگلے قومی انتخابات میں عددی برتری حاصل ہو جائے گی تو اس کا حکومت بنانے کا حق تسلیم کر لیا جائے گا اور برتری رکھنے والی جماعت کی نمبر گیم پی ڈی ایم تمام جماعتیں مل کر پورا کر دیں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ پیپلز پارٹی انتخابات میں اقلیتی جماعت بن کر سامنے آئے اور مسلم لیگ نون اکثریتی جماعت ہونے کی صورت میں بھی پیپلز پارٹی کے وزیراعظم کے حق میں رضاکارانہ دست بردار ہو جائے۔

اگر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہاں مسلم لیگ نون کے قائد میاں محمد نواز شریف کی دلیل بالکل درست محسوس ہوتی ہے کہ ہر سیاسی جماعت بھرپور قوت کے ساتھ اگلے قومی انتخابات میں حصہ لے اور جو بھی جماعت بعد از نتائج سرفہرست رہے۔ وزیراعظم کا قرعہ فال اسی سیاسی جماعت کے نام نکال دیا جائے۔ مگر یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کو اندیشہ یہ لاحق ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے اپنا جھکاؤ مسلم لیگ نون کے سیاسی پلڑے کی جانب کر دیا تو پھر مسلم لیگ نون تنہا صوبہ پنجاب کے بل بوتے پر ہی عددی برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

لہٰذا، پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کی خواہش ہے کہ کسی طرح سے اسٹیبلشمنٹ کو اپنی جانب کیا جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے، جب مسلم لیگ نون اور اسٹیبلشمنٹ کے آپسی تعلقات کشیدہ ہوجائیں۔ یہ جو ٹی وی چینلز پر اچانک سے اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ نون کے درمیان فاصلے اور دوریاں پیدا کرنے کے حوالے سے خبریں، تجزیے اور بحث و مباحثے نشر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ان سب کے پیچھے مقصد یہ ہی ہے کسی طرح مسلم لیگ نون اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پائے جانے والے پرانے اختلافات کی بجھتی ہوئی چنگاری کو ہوا دے کر ایک بار پھر سے آگ کے روشن الاؤ میں تبدیل کیا جائے۔

دوسری جانب مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو یہ تشویش لاحق ہے کہ کہیں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار کے لیے ہونے والی رسہ کشی کے نتیجے میں سب کچھ ہی الٹ پلٹ کر رہ نہ جائے اور حالات اس آخری نہج پر نہ پہنچ جائیں، جہاں سیاست دان صرف مہمان اداکار بن کر رہ جاتے ہیں۔ اس لیے چوہدری شجاعت حسین مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان عارضی سیز فائر کروانے کے لیے سامنے آئے ہیں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موصوف دونوں سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کو اقتدار کی منصفانہ سیاسی تقسیم کے کسی ایک متفقہ فارمولے پر قائل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد میں سو فیصد کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ آصف علی زرداری ہوں یا پھر میاں محمد نواز شریف یہ دونوں رہنما اپنے سیاسی اختلافات کو کسی بھی صورت میں اس آخری حد تک نہیں لے کر جائیں گے، جہاں ان کے لیے ایوان اقتدار کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments