جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے صرف ایک التماس


بلاشبہ ہر غلطی، معافی اور ہر معافی تلافی مانگتی ہے۔ سید مودودی کا معروف قول ہے۔ ”کوئی غلطی بانجھ نہیں رہتی۔ انڈے بچے دیے چلی جاتی ہے۔“ میں اتنے اضافے کی جسارت کر رہا ہوں کہ غلطی جتنی بڑی ہوگی، اتنی ہی زیادہ کثیرالاولاد اور کریہہ النسل بھی ہوگی۔ زمانوں تک دودھوں نہاتی پوتوں پھلتی رہے گی۔ غلطی جج سے بھی ہوجاتی ہے لیکن شعوری طورپر، کسی ایجنڈے کے تحت، منظم سازش کے انداز میں انصاف کشی، غلطی کے زمرے میں نہیں آتی۔ مسیحی مذہبی تعلیمات کی اصطلاح میں اسے بنیادی نوعیت کا قبیہہ جرم (CARDINAL SIN) کہاجاسکتا ہے۔ ناقابل معافی گناہ کبیرہ۔ اس سے بڑا جرم کیا ہو گا کہ منصف کا لبادہ اوڑھے، مسند عدل پر براجمان شخص، اپنے مقدس منصب قضا کو آلہ ¿ قتل کے طور پر استعمال کرنے لگے۔

میں نے گزشتہ کالم میں قدرتی آفات کی طرح، یکے بعد دیگرے نازل ہوتے چار چیف جسٹس صاحبان کا ذکر کیا تھا جن میں سے ہر ایک نے ذاتی کدورت کی بنیاد پر سیاست زدہ فیصلے کیے۔ ان فیصلوں کا رخ نواز شریف کی طرف تھا جو مسلسل چھ برس ساون بھادوں کی طرح برستے اور عدل کے چہرے پر کالک لیپتے رہے۔ جب نواز شریف کہتا ہے کہ بندوق اور ترازو کے زور پر پاکستان کے عوام کو غربت، مہنگائی، بے روزگاری میں دھکیلنے اور پاکستان کو بے چارگی کی موجودہ کیفیت میں مبتلا کرنے والوں کا محاسبہ کرو، ورنہ ملک آگے نہیں بڑھے گا، تو لاتعداد کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان گنت زبانیں صور اسرافیل پھونکنے لگتی ہیں۔

آئیے ایک بار پھر صاحبان عدل کے ہاتھوں، عدل کی بے چہرگی کانوحہ پڑھ لیتے ہیں۔ ابھی تک یہ بھید نہیں کھلا کہ پانامہ کی بنیاد پر نواز شریف کے خلاف جن درخواستوں کو فضول، لغو، ناکارہ اور لایعنی قرار دے کر سپریم کورٹ نے واپس کر دیا تھا وہ یکایک معتبر اور قابل سماعت کیسے ہو گئیں؟ کیا کسی اور کے لئے بھی ایسی فتنہ ساماں جے۔ آئی۔ ٹی بنی جس میں دو اعلی فوجی افسران شامل ہوں؟ کیا کسی اور جے۔ آئی۔ ٹی کے لئے بھی وٹس ایپ کالز کے ذریعے ایسی دیدہ ریزی، بلکہ دیدہ دلیری کے ساتھ ہیرے تلاش کیے گئے؟ کیا کسی اور جے۔ آئی۔ ٹی کی مسلسل نگرانی کے لئے بھی کوئی عدالتی بینچ تشکیل پایا؟ کیا کسی اور جے۔ آئی۔ ٹی کو بھی دنیا بھر کے بنکوں کے کھاتے کھنگالنے کے لئے لاکھوں یا شاید کروڑوں ڈالر فراہم کیے گئے؟ کیا کسی اور جے۔ آئی۔ ٹی کے سربراہ کو بھی یہ اختیار دیا گیا کہ وہ بیرون ملک سراغرسانی کے لئے بھاری بھرکم ٹھیکہ اپنے کسی بھانجے بھتیجے کو بخش دے؟ کیا کبھی ایسے ہوا کہ پانچ رکنی بینچ میں سے دو فیصلہ دے کر الگ ہوجائیں، باقی تین کارروائی چلاتے رہیں اور فیصلہ سنانے کے لئے پھر پانچوں جمع ہوجائیں؟ کیا کوئی ایسی نظیر ہے کہ قابل وصول (Receivable) کی تشریح کے لئے مروجہ ملکی قواعدوضوابط سے ہٹ کر ”بلیک لاءڈکشنری“ استعمال ہوئی ہو؟ کیا پانامہ لیکس میں آئے پانچ سو کے لگ بھگ پاکستانیوں میں سے کسی ایک کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہوئی؟ کیا نواز شریف کا نام پانامہ لیکس کا حصہ تھا؟ کیا سپریم کورٹ نے کسی اور پاکستانی کے خلاف بھی ریفرنسز دائر کرنے کے لئے براہ راست نیب کو حکم جاری کیا؟ کیا کسی اور مقدمے میں بھی احتساب عدالت کی مسلسل نگرانی کرنے کے لئے کبھی سپریم کورٹ کا ایسا مانیٹرنگ جج تعینات کیا گیا جو پہلے ہی ملزم کے خلاف فیصلہ دے چکا ہو؟ کیا سپریم کورٹ نے کسی اور احتساب عدالت کو حکم دیا کہ یہ مقدمہ تین ماہ کے اندر اندر ختم ہونا چاہیے؟ کیا کسی اور مقدمے کے بارے میں بھی چیف جسٹس نے عدالت لگا کر یہ نادر شاہی فرمان جاری کیا کہ سماعت صبح سے شام اور ہفتہ وار تعطیل والے دن بھی جاری رکھی جائے؟

عدالتی بغض وعناد کا مکروہ سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا۔ عدالت نے اپنی زنبیل سے طلسمی کبوتر نکالا کہ اگرچہ آئین میں کسی بھی نا اہلی کی زیادہ سے زیادہ میعاد پانچ سال ہے لیکن نواز شریف پر لاگو آرٹیکل F ( 1 ) 62 کے بارے میں چونکہ آئین خاموش ہے اس لئے اس کے تحت نا اہلی تاحیات ہوگی۔ پارلیمنٹ نے طے کیا کہ نا اہل قرار دیا گیا شخص بھی پارٹی سربراہ رہ سکتا ہے۔ عدالت لگی اور اس نے پارلیمنٹ کا یہ قانون کالعدم قرار دے دیا۔ ثاقب نثار کو خبر ہوئی کہ سینٹ کے انتخابات کے لئے جاری ٹکٹوں پر نواز شریف کے دستخط ہیں۔ عدالت بیٹھی۔ فیصلہ آیا کہ یہ دستخط مسترد کیے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو ’آزاد‘ حیثیت سے الیکشن لڑنا پڑا۔ منصوبہ یہ تھا کہ ’آزاد‘ سینیٹرز کو آسانی سے پی۔ ٹی۔ آئی کے ریوڑ میں دھکیل دیاجائے گا۔ یہ الگ بات کہ کسی ایک بھی ”آزادسینیٹر“ نے پی۔ ٹی۔ آئی والی ”پریس کانفرنس“ کی نہ نواز شریف کا ساتھ چھوڑا۔ نواز شریف کے حوالے سے یہ اس انصاف کے چند نمونے ہیں جو مسلسل چھ برس شیش ناگ کی طرح پھنکارتا رہا اور عزت مآب منصفین کرام سرمستی وسرشاری کے عالم میں بین بجاتے اور ”ناگ رقص“ سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ سنپولیوں کی تعداد گنتی شمار سے باہر ہے۔

بغض وعناد میں لتھڑے ان فیصلوں کے متوازی، سورماؤں کا ایک اور لشکر بھی خنجر آزما تھا۔ اپنے عہد کے مرد صف شکن، جنرل فیض حمید دو بار جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے گھر گئے اور کہا۔ ”نوازاور مریم کی ضمانت نہیں ہونی چاہیے ورنہ ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔“ دوسری بار فرمایا۔ ”آرمی چیف جنرل باجوہ کہتے ہیں کہ تم کیسے ڈی۔ جی۔ سی ہو کہ ہائی کورٹ کا ایک جج بھی تمہارے قابو میں نہیں آ رہا۔“ شوکت عزیز تو سرسری سماعت کے بعد ”کیفر کردار“ کو پہنچا دیے گئے لیکن جری جج صاحبان میں سے کسی کو حوصلہ نہ ہوا کہ فیض حمید کو بھی بلا کر ”گڈ ٹوسی یو“ کہتے ہوئے پوچھ لیتا۔ ”شوکت عزیز سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ؟“ خوشدامنوں، سہیلیوں اور خود ججوں کی آڈیو وڈیو لیکس، جج ارشد ملک کی گواہی، رائیونڈ جا کر نواز شریف سے معافی، سرینا شاپرز میں آئے فیصلوں کو اگر آسانی سے بھلا بھی دیا جائے تو ان کرداروں کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے جنہوں نے حیا باختہ فیصلے دے کر عدلیہ کے چہرے پر کالک تھوپی اور فوج کی وردی پہنے ہوئے اپنے مقدس حلف کی دھجیاں اڑائیں؟ صرف یہی نہیں، توانائی اور دہشت گردی کے بحرانوں پر قابو پاکر معاشی طور پر سنبھل جانے، فاٹف کی وائٹ لسٹ میں آجانے، آئی۔ ایم۔ ایف سے نجات حاصل کرنے، روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے اور مہنگائی کی شرح کو تین فی صد تک محدود کردینے والے پاکستان کو لاتعداد مسائل کی چتا میں جھونک دیا۔

عزت مآب قاضی فائز عیسٰی نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالا تو عوام کو نمود صبح نو کا تاثر ملا۔ میں توقعات کی بھرمار، تبصروں کی یلغار، مشوروں کے طومار اور نصیحتوں کے انبار سے قطع نظر ایک سادہ ومعصوم سا استفسار کرنا چاہتا ہوں۔ ”عالی مرتبت قاضی صاحب! کیا اپنی آزادی کے بارے میں بے حد حساس عدلیہ میں اتنا دم خم ہے کہ وہ شخصی بغض وعناد یا ایجنڈے کی بنیاد پر اپنے حلف کو رسوا، عدل کو بے توقیر اور عدلیہ کی توہین کرنے والے جج صاحبان کا محاسبہ کرسکے؟ اگر نہیں تو آپ، فل کورٹ بٹھا کر پارلیمنٹ کو کہہ دیں کہ وہ آرٹیکل 6 سمیت آئین کی زینت بنی ان تمام درشنی شقوں کو نکال پھینکے جو عالی شان گھروں کے پچھواڑے میں پڑی انبوہ ¿ خس وخاشاک سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ ایک اور تاریخی فیصلہ بھی بہت سی الجھنیں دور کردے گا کہ آئین، قانون اور انصاف کچھ بھی کہتے رہیں، ججوں، جرنیلوں اور سیاستدانوں کو ایک ترازو میں نہیں تولا جاسکتا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments