دنیا بدل رہی ہے


ہر ہفتے نئی تھیوری، نئی پیشگوئی، نیا بحران اور نیا پروپیگنڈا شروع ہوتا ہے۔ ایک کا اثر ختم ہونے پر دوسرا لانچ ہوجاتا ہے۔ یہ سلسلہ عمران خان کے وزیراعظم ہاؤس سے نکلنے کے بعد سے تاحال جاری ہے جو آئندہ سال جنوری فروری تک جاری رہے گا۔ نواز شریف کے 2019 کے جارحانہ موقف اپنانے کے بعد فوج نے ڈیڑھ سال اس پر سوچ بچار کی پھر 2021 میں نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ نیوٹرل ہونے کا پہلا ثبوت سینیٹ الیکشن میں اسلام آباد سے تحریک انصاف کے سیٹ ہارنے کے بعد مل گیا۔

دوسرا بڑا ثبوت عمران خان کے آدھی رات کو ڈائری اٹھائے وزیراعظم ہاؤس سے نکلنے کی صورت میں مل گیا۔ پھر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی میرٹ پر تعیناتی کی صورت میں تیسرا ثبوت مل گیا۔ پھر جنرل ندیم انجم اور جنرل بابر افتخار کی مشترکہ پریس کانفرنس میں نیوٹرل ہونے کا علانیہ چوتھا ثبوت مل گیا۔ پانچواں ثبوت آئین کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پارلیمنٹ میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی جمہوریت پسندوں کو آئین کی گولڈن جوبلی پر مبارکباد پیش کرنے کی صورت میں مل گیا۔

عمران خان کے متعلق جو تاثر تھا کہ یہ لاڈلہ ہے اس کو تاحال فیض کی باقیات سپورٹ کر رہی ہیں وہ تاثر ختم ہو گیا۔ اتحادی حکومت کے آخری دنوں میں عمران خان کی نا اہلی اور گرفتاری سے فوج کے مکمل نیوٹرل ہونے کا چھٹا ثبوت مل گیا۔ عدلیہ کے متعلق ایک تاثر تھا کہ وہ بھی عمران خان کو پروٹیکشن دے رہی ہے جسٹس فائز عیسی کے چیف جسٹس بننے کے بعد یہ تاثر بھی ختم ہو گیا۔ نواز شریف کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے میرٹ پر آرمی چیف تعینات کر کے پاکستان کے بہت سارے مسائل کو حل کر دیے ہیں کیونکہ پسند نا پسند کی دوڑ کے چکر میں ملکی معاملات ہمیشہ خراب ہوئے ہیں جس سے فوج کا بھی ڈسپلن متاثر ہوتا ہے۔

میرٹ پر آرمی چیف کی تعیناتی سے کسی اور سیاسی جماعت کو بھی انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملتا۔ اگر میرٹ کے مطابق دیکھا جائے تو اس وقت اگلے آرمی چیف جنرل ندیم انجم ہوں گے ۔ میرٹ پر تعیناتی اور توسیع کا مستقل خاتمہ ہی فوج کا عوام میں تاثر بہتر کرنے میں معاون ثابت ہوں گے ۔ جہاں تک بات نواز شریف کی پاکستان واپسی کی ہے تو تمام معاملات جیسے پہلے بہت منظم طریقے سے آگے رہے ہیں اور چیزیں آہستہ آہستہ بہتری کی جانب گامزن ہیں تو ان کی واپسی بھی انہی طے شدہ قواعد و ضوابط کے مطابق ہی ہو گی۔

نواز شریف کے وزیراعظم بننے میں بھی اب کوئی بظاہر رکاوٹ نہیں رہ گئی۔ کیونکہ اس وقت گراؤنڈ پر نواز شریف کے علاوہ وزیراعظم کا امیدوار بھی کوئی نہیں ہے۔ نواز شریف کے لئے اصل مسائل وزیراعظم بننے کے بعد پیدا ہوں گے ۔ سب سے بڑے دو مسئلے ہیں مہنگائی اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہے۔ نواز شریف پہلے دو سال تک ان کو حل کرنے میں گزاریں گے۔ یہ دونوں مسائل حل کرنا کوئی ناممکن نہیں ہیں۔ پاکستان بہت بڑا ملک ہے جس کے پاس درجنوں وسائل ہیں ان کو زیر استعمال لاکر نواز شریف مہنگائی اور زرمبادلہ والا معاملہ حل کر لیں گے۔

اس کے بعد تیسرا بڑا مسئلہ اسرائیل ہو گا کیونکہ مشرق و سطیٰ کے ممالک اب تیزی سے اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں۔ عنقریب سعودی عرب کا امریکہ کے ساتھ نیا سیکیورٹی معاہدہ ہونے جا رہا ہے جس کے تحت بڑی شرط اسرائیل کو تسلیم کروانا ہے۔ اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے تو بدلے میں ایٹمی ہتھیاروں کے حصول میں بھی کامیاب ہو جائے گا۔ اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے تو پاکستان بھی یقینی طور پر کر لے گا۔

جو بائیڈن حکومت کی مدت اگلے سال پوری ہو رہی ہے اس لیے ڈیموکریٹ حکومت ہر حال میں مدت پوری ہونے سے قبل سعودی عرب سے سیکیورٹی معاہدہ کرے گی تاکہ الیکشن میں اس کو سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کرسکے یہودی لابی جو دنیا میں دولت کے بڑے حصے کی مالک ہے اس کی بھی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔ تاکہ ڈیموکریٹ اپنا اگلا الیکشن بھی سیدھا کر لیں۔ اگر یہ کام نواز شریف کے دور حکومت میں ہوا تو مذہبی حلقوں کی جانب سے ان کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس لیے سعودی عرب امریکہ کے ساتھ ایسا معاہدہ کرے گا کہ فلسطین کی حیثیت بھی کم نہ ہو اس کے بھی زمینی حقوق متاثر ہونے کا خدشہ نہ ہوتو پاکستان کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے میں مشکل نہیں آئے گی۔ جہاں تک بات مذہبی حلقوں کی مخالفت کی ہوگی تو معاہدہ ایسا ہو گا کہ ان کو بھی پوائنٹ سکورنگ کا موقع نہیں ملے گا۔ اس کے لیے ضروری ہو گا کہ فوج متحد ہو اور حکومت کے ساتھ کھڑی ہو۔ دنیا تیزی سے ہتھیاروں کی دوڑ سے نکل کر تجارت کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔

یو اے ای، بحرین اور ترکیہ کی اسرائیل کے ساتھ تجارت پورے زوروں سے جاری ہے۔ بھارت سعودی عرب سمیت پورے مشرق وسطی سے تجارت کر رہا ہے۔ چین افریقہ، امریکہ اور یورپ کے بعد مشرق وسطی تک پہنچ چکا ہے لیکن ہم ابھی تک افغانستان کے ساتھ اپنے معاملات ٹھیک نہیں کرسکے۔ پاکستان کو بھی اب دنیا کے ساتھ چلنا پڑے گا۔ نوے کی دہائی میں دنیا نے تیزی سے ترقی کی اگر نواز شریف سڑکیں نہ بناتے تو ہماری صورتحال آج بھی افغانستان سے کچھ مختلف نہ ہوتی۔ اب ہمیں اپنا طرز حکومت بھی تبدیل کرنا ہو گا۔ دوست ممالک سے بار بار پیسے ادھار مانگنے کی بجائے اپنے وسائل سے ملک چلانے کے قابل بننا پڑے گا۔ بھارت، اسرائیل سمیت پوری دنیا سے تجارت کے راستے کھولنے پڑیں گے۔ ہم اب زیادہ دیر تک تنہا نہیں رہ سکتے ورنہ ہم شمالی کوریا بن جائیں گے اور دنیا سے کٹ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments