یونیورسٹیوں کے شودر پروفیسر
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یونیورسٹیاں ہیں، جن کی تعداد اب دو سو سے زیادہ ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں ہر برس لاکھوں تشنگان علم و ضرورت مندان سند داخلہ لیتے ہیں اور پھر اس علم کو اپنے روزگار کا وسیلہ بناتے ہیں۔ ان تشنگان علم میں سے سب سے قابل لوگ اپنی علم کی پیاس بجھانے کے لیے مزید تعلیم و تحقیق کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ اور ایک دن اس قابل ہو جاتے ہیں۔ کہ وہ بھی کسی یونیورسٹی میں پڑھائیں۔ جبکہ ان کے ساتھ پڑھنے والے دو یا چار برس پڑھ کر کوئی نوکری حاصل کرلیتے ہیں۔ اور کسی دفتر میں افسر بن جاتے ہیں۔
پھر اپنے اس محدود ترین علم کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کرتے چلے جاتے ہیں ان کی زندگی میں سہولیات و تعیشات کا دور دورہ ہوتا ہے۔ ان کے بچے ملک اور بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے کسی اسکالرشپ کے محتاج نہیں ہوتے۔ ان کو دس بستہ ملازمین کی فوج دستیاب ہوتی ہے۔ وہ ملازمت مکمل کرنے سے بہت پہلے کروڑوں کے گھروں کے مالک بھی بن جاتے ہیں۔ اور ان کے بچے بیس پچیس برس تک سرکار کی قیمتی گاڑیوں پر ڈرفٹنگ کرتے ہیں۔
جبکہ ان سے زیادہ قابل اور تعلیم یافتہ لوگ جو تدریس و تحقیق کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی زندگی کسی پناہ گزین کی زندگی کے مانند ہمیشہ مشکل میں ہوتی ہے۔ ایسا صرف ہمارے اس مملکت خداداد میں ہوتا ہے۔ ورنہ دنیا کے دیگر ممالک میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی تنخواہ دوسروں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اور ان کو وہاں کی ریاستیں تمام ممکنہ سہولیات بھی بہم پہنچاتی ہیں۔ معاشرے میں ان کی قدر ہوتی ہے اور ان کو معاشرے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کا مکمل اختیار ملتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت یونیورسٹی اساتذہ کی تعداد ساٹھ ہزار کے قریب ہے جن میں پچیس ہزار سے زیادہ پی ایچ ڈی ہیں۔ اور کچھ چھے ہزار اساتذہ پوسٹ ڈاکٹریٹ بھی کرچکے ہیں ان اساتذہ کی ہزاروں کتابیں چھپ چکی ہیں اور ان کی شایع کردہ تحقیقی مقالات کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ جبکہ گزشتہ دس برسوں میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ان اساتذہ کو اس سلسلے میں کوئی مالی معاونت بھی فراہم نہیں کی۔ ایک تحقیقی مقالہ شایع کرنے کے لیے ایک لاکھ روپے سے زیادہ کا خرچہ آتا ہے۔
یہ اعلی ترین تعلیم یافتہ طبقہ گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل زیر عتاب ہے۔ ان کی تنخواہیں ملک میں موجود دیگر ملازمین سے کم ہیں۔ حکومت نے ملک میں مہنگائی کا ادراک کیا اور تنخواہوں میں اضافہ کا اعلان کیا ایک بار نہیں کئی بار کیا۔ یونیورسٹی ملازمین کو چھوڑ کر یہ اضافہ سب کو مل گیا۔ گزشتہ دور حکومت میں جب ایک کھلاڑی کو وزیر اعظم بنایا گیا تو اس نے یہ ستم کیا کہ۔ تین برس تک ایک سے انیس گریڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا۔ اور بیس، اکیس اور بائیس گریڈ کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ان گریڈ زمیں تمام افسران بہت زیادہ الاونسز اور مراعات لیتے ہیں۔ کسی بزرجمہر نے ان کو یہ بتانے کی زحمت ہی نہیں کی کہ جناب یہ ان گریڈوں میں سیکرٹری صاحبان ہیں وہ یہ سب مراعات اور تین سو پچاس گنا اپنی بنیادی پر الاونس وہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ یوٹیلٹی الاونس لیتے ہیں، ان کو گھر پر نوکر، خانساماں اور چوکیدار دستیاب ہیں۔
ان کی تصرف میں گاڑیاں ہیں۔ ان گاڑیوں کے ڈرائیور سرکار کے ملازم ہوتے ہیں۔ اور ان گاڑیوں میں تیل سرکار کے خرچے سے ڈھلتا ہے۔ اور ان کی مرمت بھی سرکار ہی کرتی ہے۔ وہ اپنے دفتر سے کسی دوسری جگہ جائیں تو سرکار کے خرچے پر فائیو سٹار ہوٹل میں رہائش رکھتے ہیں۔ ان کی خدمت کرنے کے لیے سیٹھ، بلڈرز، کارخانہ دار، دکاندار، ٹھیکہ دار، اور ان کے ماتحت ملازمین موجود ہوتے ہیں۔ جو ان کی ہر ضرورت و فرمائش پوری کرتے ہیں۔
جبکہ بیس، اکیس اور بائیس گریڈ کے ملازمین جو اساتذہ ہیں انہیں صرف بنیادی تنخواہ دی جاتی ہے۔ اب ہوا یہ ہے کہ اس ملک میں گریڈ انیس کی تنخواہ گریڈ بیس سے زیادہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار کو سکریٹریوں کے علاوہ باقی کوئی سرکار ملازم نظر ہی نہیں آتا۔ اور کمال دیکھیں باوجود ان سب کے سکریٹری صاحبان نے دوبارہ نوٹیفیکیشن کر کے وہ اضافے بھی لے لیے۔ پیچھے صرف اساتذہ رہ گئے۔ یوں حکومت نے جو تنخواہوں میں تفریق مٹانے کے لیے ڈسپیرٹی الاونس دیا تھا۔ اس نے تفریق کو کئی سو گنا بڑھ دیا۔
گزشتہ چند برسوں سے اعلی تعلیم کے لیے بجٹ میں کمی کی جاتی رہی۔ جس کی وجہ سے جو کم ترین تنخواہیں ان ملازمین کو مل رہی ہیں وہ بھی ہر مہینے کبھی دس دن کبھی پندرہ دن کی تاخیر سے مل رہی ہیں۔ اور وہ بھی جلسے جلوس اور ہڑتال کرنے کے بعد ۔ ظلم اتنا ہی ہوتا تو برداشت بھی کرلیتے۔ مگر اس پر ایک اور ظلم یہ کہ پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں میں بی پی ایس پر ملازمت کرنے والے اساتذہ کے لیے کوئی ٹائم سکیل ترقی کا نظام ہی نہیں ہے بیس بیس برسوں سے پی ایچ ڈی کر کے اساتذہ ایک ہی گریڈ میں ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔
جبکہ بی اے کر کے ان کے شاگرد جو بیوروکریسی میں ملازم ہوئے۔ وہ اس عرصے میں گریڈ اکیس تک پہنچ گئے ہیں۔ اس ملک میں زیادہ پڑھ لکھ جانا اب قابل سزا ہے۔ برسوں سے لوگوں کی ترقی نہیں ہو رہی ان کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہو رہا، ان کو بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ جبکہ ان کے لیے بنایا گیا ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ملازمین کے لیے پروموشن کا طریقہ کار بھی موجود ہے ان کو وہ تمام مراعات بھی حاصل ہیں۔ یعنی جو ان کے لیے اور پورے پاکستان کے لیے حلال ہے۔ وہ یونیورسٹی کے اساتذہ کے لیے حرام ہے۔
گزشتہ ایک دو دہائی پہلے یونیورسٹیوں میں بی پی ایس کے ساتھ ایک اور تجربہ کیا گیا۔ کہ۔ یونیورسٹیوں میں ٹی ٹی ایس یعنی ٹینیور ٹریک سسٹم بھی متعارف کروایا گیا۔ جس میں بی پی ایس کے مقابلے میں تنخواہیں دگنی سے بھی زیادہ رکھی گئیں۔ اس پر ہزاروں لوگوں کو بھرتی کیا گیا۔ ان کے لیے پروموشن کا ایک واضح طریقہ کار بھی رکھا گیا۔ یوں یہ ہزاروں اساتذہ اچھی تنخواہ بھی لیتے ہیں اور وقت پر پروموٹ بھی ہو جاتے ہیں۔
حالانکہ دونوں ایک ہی کام کرتے ہیں۔ ایک ہی کلاس میں جاکر پڑھاتے ہیں، ایک ہی جیسی تعلیمی قابلیت رکھتے ہیں۔ مگر طبقات بنانا ضروری ہے۔ اگر یہ سلسلہ اتنا ہی اچھا ہے تو پھر سب کو اس میں لے جانے میں کیا حرج ہے۔ مگر کو تلیہ چانکیہ نے ارتھ شاستر میں لکھا ہے۔ کہ ”نظام چلانے کے لیے شودروں کا ہونا بہت ضروری ہے سب براہمن ہو گئے تو حکومت یا ریاست ظلم کسی پر ڈھائے گی، تجربے کس پر کرے گی اور لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لیے اس کو نشان عبارت بناؤ جو زیادہ جانتا ہے۔ اور مہارت رکھتا ہے تاکہ باقی سارے احکاماتی قطار توڑنے کی جرات نہ کرسکیں۔ اور ان میں سے کچھ کو زیادہ مراعات دو اور آسائشیں دو تاکہ طبقے بنے رہیں اور حکومت کا دبدبہ قائم رہے“ خیبر پختونخوا میں یونیورسٹی کے اساتذہ کو سرعام اس وقت کے وزیر تعلیم نے پولیس سے پٹوایا اور پھر فخر سے اس کارنامے کو بیان کرتا رہا۔ اساتذہ اپنی تنخواہ مانگ رہے تھے ایک ماہ تک بازوں پر سیاہ پٹی باندھ کر احتجاج کرتے رہے، پھر دھرنے دیتے رہے۔
جب اس سے بھی اس وقت کے حکمرانوں کی کان پر جوں نہیں رینگی تو انہوں نے جلوس نکالا۔ اس پر انصاف کا نعرہ لگانے والے وزیر کو غصہ چڑھا اور وہ پہلے سے بھی غصہ میں تھا کہ اس کے کہنے پر ان کے چھوٹے لیڈر کو تین فیل پرچوں میں پاس کر کے یونیورسٹی نے ان کو ڈگری کیوں نہیں دی۔ یونیورسٹیوں کا زوال اس دن سے شروع ہوا تھا جب وزیروں اور سیاست دانوں کی جعلی ڈگریوں کو عدالت میں یونیورسٹیوں نے ایکسپوز کیا تھا۔ اس دن کے بعد یونیورسٹیوں کے لیے بجٹ میں اضافہ بند ہو گیا اور بجٹ میں کٹوتیاں شروع ہو گئی تھیں۔
کیا نیب کا پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ اور وائس چانسلر کو ہتھکڑیاں پہنا کر اخباروں کو تصویر جاری کرنا لوگ بھول گئے، کیا ایک پروفیسر کا تذلیل کرنے پر دوران قید ہارٹ اٹیک سے مر جانا کسی کو یاد نہیں ہے۔ یہ سب وہ انتقام تھا جو اس ملک پر قابض لوگ ان اساتذہ سے لیتے رہے۔ اس ملک میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں تعلیم کے گزشتہ دو وزیر ایک میٹرک اور دوسرا ایف پاس تھا یعنی یہ دونوں حضرات اگر ان سکولوں میں جہاں کے وہ وزیر تھے کلرک کی نوکری لیے درخواست دیتے توان کو نا اہل کہہ کر ان کی درخواست وصول ہی نہیں کی جاتی۔
جو لوگ ان محکموں میں چپڑاسی بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے ان کو اختیار ملا تو انہوں نے جو سلوک کیا وہ جائز ہے اس لیے کہ باقی اس جرم کے مرتکب ہوئے تھے کہ انہوں نے وزیروں سے زیادہ پڑھ لیا تھا۔ یونیورسٹی کے اساتذہ کے لیے یکساں ترقی کا نظام رائج کرنے کے لیے اسمبلی کے سٹینڈنگ کمیٹیوں نے احکامات جاری کیے۔ ایچ ای سی نے تحریری طور پر جواب جمع کیا کہ وہ ایسا کریں گے مگر وہ ایسے نہیں کرتے۔ شاید وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ ہزاروں اساتذہ پھر سے احتجاج پر نکلیں اور انہیں پھر سے سڑکوں پر گھسیٹا جائے۔
ان کی تذلیل کی جائے، ان کو دکھایا جائے کہ اس ملک میں زیادہ پڑھ لکھ جانا ایک جرم ہے۔ اب یونیورسٹی اساتذہ کا حال دیکھ کر ذہین گریجویٹس اس پیشہ میں آنے سے انکاری ہو رہے ہیں۔ وہ گریڈ اٹھارہ میں ملازمت کی جگہ گریڈ سات اور نو میں پٹواری، پولیس میں سپاہی، کسٹم میں سپاہی، محکمہ مال میں منشی بھرتی ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ بنگلہ دیش نے اساتذہ اور پھر یونیورسٹی اساتذہ کی تنخواہوں میں دس گنا اضافہ کر دیا ہے۔ ان کی جی ڈی پی میں اس سے تیس گنا کا اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ اور جاپان میں ٹیچر نو پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر سکتا ہے جبکہ پاکستان کے کسی بھی پولیس یا فوجی ناکہ پر اگر تعارف کرا دیں کہ پروفیسر ہوں تو جو تذلیل کی جاتی ہے۔ اس کا کرب شودر پروفیسر ہی محسوس کر سکتا ہے۔
علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ
آہ شودر کے لیے پاکستان غم خانہ ہے
درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
- پاکستان میں دھرنوں سے عوام کو صرف لارے ہی ملتے ہیں - 12/08/2024
- اٹک کے اِس پر پار: دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں - 06/08/2024
- چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے امریکہ کا خوف - 30/07/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).