چوہدری محمد خورشید زمان


یہ 14 اکتوبر شام 5 بجے کا وقت تھا۔ ہم گرانڈ ملینئم الوحدہ ہوٹل ابوظہبی، کی لابی سے باہر نکل کر کھڑے ہو گئے۔ فون کال کے مطابق چند ہی لمحوں بعد پاکستان کے سفیر فیصل نیاز ترمذی صاحب بلیک کلر کی بی ایم ڈبلیو سے باہر نکلے اور آ کر چوہدری محمد خورشید زمان کو گلے لگا لیا۔ سفیر محترم فیصل ترمذی صاحب سے پہلی ملاقات 25 مئی کو ہوئی تھی جب پاکستان سے مطالعاتی دورے پر آئے صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ راقم الحروف انہیں پاکستان کے سفارت خانہ میں ملنے گیا تھا لیکن چوہدری خورشید زمان کو میں سنہ 1998 سے جانتا ہوں جب 1997 کے انتخابات میں وہ مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر تحصیل گجر خان سے پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف (جو بعد میں 22 جون 2012 کو وزیراعظم بھی بنے ) کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

شام 5 بجے سفیر محترم فیصل نیاز اور چوہدری خورشید زمان صاحب، العین روانہ ہو گئے جہاں وہ گورنر ہاؤس میں النہیان شاہی خاندان کے ساتھ رات کے کھانے پر مدعو تھے۔ جب چوہدری صاحب رات اڑھائی بجے واپس ہوٹل پہنچے تو میں نے ان سے کھانے کی میز پر ہونے والی گفتگو کے بارے استفسار کیا تو انہوں نے کچھ تفصیل کے بعد بتایا کہ وہ میٹنگ ”بیک ڈور پالیسی“ کا حصہ تھی۔ چوہدری خورشید زمان صاحب پروقار شخصیت اور بے پناہ سیاسی بصیرت و پختگی کے حامل سیاست دان ہیں۔

3فروری 1997 کو میاں محمد نواز شریف نے وزارت عظمی کا حلف اٹھایا اور اگلے روز چوہدری خورشید زمان کو ناشتے پر بلایا۔ چوہدری خورشید زمان نے انگلینڈ لندن سے وکالت کا امتحان پاس کیا۔ وہ مدلل اور پرکشش گفتگو کے ماہر ہیں۔ اگر انہیں ”ٹیبل وننگ پرسنلٹی“ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ چند روز بعد حکومت نے چوہدری خورشید زمان کی سربراہی میں پارلیمنٹیرین کا ایک وفد خیر سگالی دورے پر جاپان بھیجا اور جب یہ وفد واپس آیا تو وزیراعظم محمد نواز شریف نے چوہدری خورشید زمان کو پارلیمانی سیکرٹری برائے دفاع تعینات کر دیا۔ 1999 کے ”ملٹری کوو“ تک جتنا عرصہ نون لیگ کی حکومت رہی دفاع کی وزارت کا قلمدان خود وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے پاس تھا، جبکہ دفاع کے دیگر سارے معاملات پارلیمانی سیکرٹری دفاع چوہدری خورشید زمان دیکھتے رہے۔

اس دوران چوہدری خورشید زمان کے سیاسی تجربے اور ”سٹیٹس مین شپ“ میں اضافہ ہوا۔ انہی دنوں وہ بطور صحافی قومی اخبارات میں مضامین بھی لکھتے رہے۔ ان کا ایک مضمون بعنوان ”کس مسیحا کی تلاش ہے“ بہت مشہور ہوا۔ انہوں نے انگلستان اور یورپی یونین کے سفیروں سے اچھے اور دوستانہ تعلقات استوار کیے۔ 2002 میں جب بلوچستان کے میر ظفر اللہ خان جمالی وزیراعظم منتخب ہوئے تو ان کی نظر انتخاب ایک بار پھر چوہدری خورشید زمان پر پڑی اور انہوں نے چوہدری صاحب کو سٹیٹ منسٹر کے برابر سیاسی مشیر کے طور پر وزیراعظم ہاؤس میں تعینات کر دیا۔

اگرچہ اس کے بعد چوہدری خورشید زمان نے کبھی کسی الیکشن میں حصہ نہیں لیا مگر اپنی سیاسی ذہانت کی بناء پر اندرون و بیرون ملک میں پاکستان کے لئے وہ ”پس پردہ خدمات“ مسلسل انجام دیتے رہے ہیں۔ اگلی صبح 15 اکتوبر کو ہم ملینئم ہوٹل کے فرسٹ فلور پر ناشتے کی میز پر پاکستان کے محفوظ مستقبل کے بارے میں سیر حاصل باتیں کرتے رہے۔ 17 جولائی 2012 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ”تحریک تحفظ پاکستان“ کی بنیاد چوہدری خورشید زمان کے گھر I/ 8 میں رکھی اور ان کو انہوں نے جماعت کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا۔

میں نے چوہدری خورشید زمان کو متحدہ عرب امارات میں بارہا آتے دیکھا ہے۔ 1998 میں برطانوی سفارت کار ڈومینک جیریمی اسلام آباد میں برطانوی سفیر کے پولیٹیکل سیکرٹری تھے جن سے چوہدری خورشید زمان کے خصوصی مراسم تھے۔ 2010 میں یہی ڈومینک جیریمی متحدہ عرب امارات میں برطانوی سفیر بن کر آئے تو انہوں برٹش کوئین کی ”ڈائمنڈ جوبلی“ پر چوہدری خورشید زمان کو خصوصی دعوت نامہ بھیجا۔ اس دن سے آج تک میں وثوق سے کہتا ہوں کہ چوہدری خورشید زمان صاحب نے ہمیشہ پاکستان کے مفاد کی وکالت کی ہے۔

11 بجے ہم ہوٹل کے گراؤنڈ فلور کی لابی میں آئے تو وہاں صدر گرینڈ اوورسیز طارق جاوید قریشی اور سینئر رہنما مسلم لیگ (ن) راجہ محمد شفیق کی معیت میں ہم دبئی روانہ ہو گئے۔ ہمارا دوپہر کا کھانا دوبئی پارک جمیرا میں پاکستانی برٹش بزنس مین سجاد حسین کی رہائش گاہ پر تھا اور شام کا ڈنر ڈاؤن ٹاؤن دبئی میں ایک اور پاکستانی برٹش کے ساتھ تھا۔ ہم واپس دبئی سے ابوظہبی کے لئے کہیں رات 11 بجے جا کر روانہ ہوئے۔ اگلے روز یعنی 16 اکتوبر کو 2 بجے چوہدری خورشید زمان کو ابوظہبی ائر پورٹ پر چھوڑ کر واپس پلٹا تو ذہن پر پاکستان کے آئندہ مستقبل کے بارے سوچتے ہوئے گومگو کی ایک عجیب سی کیفیت محسوس ہو رہی تھی۔

بلاول بھٹو زرداری جب لاڑکانہ کے حلقہ این اے ۔ 200 سے ایم این اے منتخب ہوئے تو ان کی عمر 30 سال تھی اور سوات کے حلقہ این اے ۔ 04 سے مراد سعید ایم این اے بنے تو ان کی عمر 31 سال تھی۔ لیکن سیاست اور معیار کے درمیان فرق واضح ہے۔ گزشتہ 15 برس سے چوہدری خورشید زمان پاکستانی عوام کو یکجا کرنے کے لئے ”ون نیشن“ کی تحریک بھی چلا رہے ہیں۔ نا جانے ہمارے درمیان خاموشی کی نظر ہوتے ایسے کئی ”چھپ رستم“ خورشید زمان موجود ہیں۔ کچھ لوگ نواز شریف کو بھی مسیحا بنا کر پیش کر رہے۔ کیا وہ واقعی ”مسیحا“ ہے؟ جب کچھ چشم بیدار طبقہ میاں نواز شریف کو چوتھی بار اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھتا دیکھ رہا ہے تو وہ یہ ضرور سوچتا ہو گا کہ کیا:

شہر کی بے چراغ گلیوں میں!
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments