دہشت گردی کی ذمہ داری تمام افغان شہریوں پر نہ ڈالی جائے!
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ملک میں دہشت گردی کے واقعات اور غیرقانونی غیرملکیوں کو ملک بدر کرنے کے معاملہ کو ملا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے جیسے اس ملک میں افغان باشندوں کی موجودگی درحقیقت دہشت گرد کارروائیوں کا سبب بن رہی ہے۔ اس بیان سے نہ صرف افغانستان کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں گے بلکہ ملک کے اندر بھی بے چینی میں اضافہ ہو گا۔
وزیر اعظم کا یہ بیان تمام مسلمہ انسانی اصولوں اور اخلاقی ضابطوں کے خلاف ہے۔ کوئی بھی ملک مجرمانہ سرگرمیوں کی ذمہ داری لوگوں کے ایک گروہ پر ڈال کر سرخرو نہیں ہو سکتا۔ اس تناظر میں انوار الحق کاکڑ کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہوجاتا ہے جس میں وہ ملک بدری کے فیصلہ کو پاکستان کا قانونی اور اخلاقی حق قرار دیتے ہیں۔ پاکستانی حکومت نے ملک میں مقیم تمام غیر قانونی غیرملکیوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ اس فیصلہ میں اگرچہ پاکستان میں مقیم تمام غیر قانونی لوگوں کی بات کی گئی تھی لیکن عملی طور سے اس کا ٹارگٹ افغان شہری تھے جو طالبان حکومت سے حفاظت کے لیے پاکستان میں پناہ لینے آئے تھے۔ حکومت پاکستان کے مطابق ان لوگوں کی تعداد سترہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
ملک میں اس کے علاوہ تیس چالیس لاکھ افغان شہری موجود ہیں جنہیں کسی نہ کسی انتظام کے تحت قانونی طور سے رجسٹر کیا گیا ہے۔ پاکستانی حکومت افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغان پناہ گزینوں کو واپس جانے کا مشورہ دیتی رہی ہے لیکن طالبان کے زیر انتظام افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کے علاوہ مالی حالات بھی دگرگوں ہیں۔ اس لیے پاکستان میں آباد ہو جانے والے افغان باشندے واپسی کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ البتہ ملک میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے علاوہ اسمگلنگ اور ڈالر پر افغان تجارت کے مرتب ہونے والے اثرات کی روک تھام کے لیے غیر قانونی افغان باشندوں ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اکتوبر کے شروع میں نگران حکومت نے تمام غیرملکی باشندوں کو یکم نومبر تک پاکستان سے نکل جانے کا حکم دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ اس تاریخ کے بعد انہیں زبردستی نکال دیا جائے گا۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ کابل میں طالبان حکومت تحریک طالبان پاکستان کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس گروہ سے منسلک عناصر مسلسل افغانستان میں حکومتی تحفظ میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہاں سے ہی پاکستان میں دہشت گرد حملے کیے جاتے ہیں۔ ایسے متعدد حملوں میں شہریوں کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں۔ بظاہر حکومت ان کارروائیوں کی روک تھام کے لئے غیر قانونی افغان باشندوں سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ پاکستانی حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان نے چالیس سال تک افغان بھائیوں کی میزبانی کی ہے۔ اب افغانستان سے غیر ملکی فوجیں نکل چکی ہیں، اس لئے اس ملک کے شہری ایک آزاد افغانستان میں واپس جا سکتے ہیں۔ تاہم یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ اتحادی فوجوں کی موجودگی میں تو شہریوں کو کچھ حقوق حاصل ہوئے تھے اور خواتین یا اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی و متعصبانہ سلوک میں بھی کمی آئی تھی۔ لیکن طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد سے یہ صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔ افغانستان کے شہری درحقیقت ایک انتہاپسند گروہ کے جبر کا شکار ہیں اور ہمدردی و امداد کے مستحق ہیں۔
دوحہ معاہدہ کے تحت طالبان نے ملک میں تمام نسلی گروہوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک متفقہ حکومت قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ کسی بھی انتہاپسند گروہ کو کسی دوسرے ملک میں کارروائی سے روکنے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ طالبان نے شہریوں کے حقوق اور خاص طور سے خواتین کو معاشرے میں مساوی مواقع دینے کے حوالے سے بھی ٹھوس وعدے کیے تھے۔ البتہ امریکی افواج کے انخلا اور کابل پر طالبان کے قبضہ کے بعد اگرچہ موجودہ کابل حکومت کو عبوری انتظام کا نام دیا گیا ہے یعنی تکنیکی طور سے طالبان یہ مانتے ہیں کہ یہ اتفاق رائے سے قائم کی گئی حکومت نہیں ہے۔ طالبان کا تعلق بنیادی طور سے پشتون قبائل سے ہے جبکہ افغانستان میں متعدد دوسرے قبائل بھی آباد ہیں۔ طالبان حکومت نے امریکہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے سے انحراف کیا ہے لیکن امریکہ یا کوئی دوسری طاقت یہ صورت حال تبدیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ طالبان کو جد و جہد جاری رکھنے اور پھر کابل پر قابض ہونے میں پاکستانی ایجنسیوں نے امداد فراہم کی تھی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سے انہوں نے ٹی ٹی پی کو غیر فعال کرنے میں کسی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ درحقیقت یہی ایک معاملہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان تنازعہ کی بنیاد بنا ہے۔
اسلام آباد میں نگران وزیراعظم نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مخالف دہشت گردوں کے خلاف افغان حکومت نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ یہ حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان میں دہشتگردی میں 60 فیصد اضافہ ہوا۔ خودکش حملوں میں 15 افغان شہری ملوث تھے جبکہ پاکستانی افواج سے مقابلے میں 64 افغان شہری مارے گئے۔ پاکستان نے دہشت گرد کارروائیوں سے متعلق معلومات افغان حکومت کو فراہم کیں۔ دہشتگردوں کی فہرست بھی افغان عبوری حکومت کو بھیجی گئی لیکن کابل نے کسی قسم کا تعاون نہیں کیا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کارروائیوں میں دو ہزار سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں۔ پاکستان مخالف دہشت گردوں کے خلاف افغان حکومت نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ پاکستان میں بدامنی پھیلانے میں زیادہ ہاتھ غیر قانونی تارکین وطن کا ہے۔ پاکستان نے اب داخلی معاملات کو اپنی مدد آپ کے تحت درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک واپس جانے والے غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی تعداد 2 لاکھ 52 ہزار کے قریب ہے۔
انوار الحق کاکڑ کی طرف سے افغان باشندوں کو ملک میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دینے کا دعوی، درحقیقت غیر قانونی غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلہ کو مشکوک بناتا ہے۔ کسی حکومت کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ انسانوں کے ایک خاص گروہ کو کسی جرم کی اجتماعی قصور وار قرار دے۔ اس وقت غیر قانونی طریقے سے ملک میں آباد افغان شہریوں کو ہراساں کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، وہ چند سماج دشمن دہشت گردوں کے افعال کی سزا لاکھوں انسانوں کے دینے کے مترادف ہے۔ اگرچہ حکومت پاکستان کے اس قانونی اختیار سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ غیر قانونی طور سے ملک میں مقیم لوگوں کو واپس جانے کے لیے کہا جائے لیکن افغان شہریوں کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ ان پر اس عمومی ضابطہ قانون کا اطلاق کیا جا سکے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت یہ اقرار کر رہی ہے کہ لاکھوں افغان شہریوں کو نکالنے کی وجہ دہشت گردی میں اضافہ ہے۔ اگر کسی ایک ملک کے شہری ہی انتہاپسندی میں ملوث ہوتے ہیں تو حکومت کے پاس اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جو افغان شہری قانونی طور سے ملک میں آباد ہیں، وہ ایسی گھناؤنی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوں گے؟ اس کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ قصور وار کا سراغ لگا کر اسے اس کے کیے کی سزا دی جائے اور محض ایک شبے یا تاثر کی بنیاد پر ایسی پالیسی اختیار کرنے سے گریز کیا جائے جس سے لوگوں کے گروہوں اور ملکوں کے درمیان خلیج حائل ہو جائے۔
افغان شہریوں کو نکالنے کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے پناہ اختیار دیے گئے ہیں، اس سے انسانی حقوق پامال ہونے اور نا انصافی عام ہونے کا اندیشہ موجود رہے گا۔ یہ خبریں سامنے آ چکی ہیں کہ پنجاب کے بعض علاقوں میں پولیس پشتون پاکستانیوں کو غیر قانونی افغان شہری قرار دے کر ہراساں کرتی ہے اور ان سے بھاری رشوت وصول کی جاتی ہے۔ وزیر اعظم کے صرف یہ کہہ دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا کہ وہ خود پشتون ہیں اور ان کے خلاف کوئی زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی۔ حکومت نے غیر قانونی غیر ملکیوں کو نکالنے کے لئے بہت کم وقت کا نوٹس دیا اور اب اس حکم پر عمل کروانے کے لیے پولیس و دیگر اداروں کو باقاعدہ اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔ اس طریقہ سے غلط فہمیاں پیدا ہوں گی اور متعدد بے گناہ لوگ طاقت ور اداروں کے چنگل میں پھنس کر رہ جائیں گے۔
حکومت جن غیر قانونی افغان شہریوں کو ملک سے نکالنا چاہتی ہے وہ کئی دہائیوں سے اس ملک میں قیام پذیر رہے ہیں۔ ان میں اب کثیر تعداد اس نسل سے تعلق رکھتی ہے جو پاکستان ہی میں پیدا ہوئے ہیں اور افغانستان ان کے لیے اجنبی ملک ہے۔ سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ ان نام نہاد غیرقانونی غیرملکیوں کو مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے حکومت پاکستان اس سوال کا جواب دے اتنی کثیر تعداد میں غیر ملکی کیوں کر سال ہا سال سے ملک میں آباد ہیں۔ نہ تو ان کی رجسٹریشن کی گئی اور نہ ہی انہیں باہر نکالا گیا۔ اس کا تو ایک ہی مطلب ہے کہ جب تک افغان شہریوں کو ملک میں رکھنا حکومت پاکستان کے مفاد میں تھا، انہیں رہنے دیا گیا اور اب کابل حکومت سے اختلاف کی سزا ان معصوم شہریوں کو دے کر اپنی کمزوری و کوتاہی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس طرح کی غیر منصفانہ کارروائی سے پاکستان کے دوررس مفادات کا تحفظ ممکن نہیں ہے۔
اسی حوالے سے یہ پہلو بھی بے حد اہم ہے کہ غیر قانونی افغانوں کو پکڑ کر ملک سے نکالنے کا طریقہ تو اختیار کیا جا رہا ہے لیکن ان کے وسائل، جائیداد یا دیگر املاک کو فروخت کر کے انہیں ساتھ لے جانے کا کوئی طریقہ وضع نہیں کیا گیا۔ اس ابہام سے ملکی نظام میں راسخ بدعنوانی میں اضافہ ہو گا اور غیر قانونی ہونے کا لیبل لگا کر لاکھوں انسانوں کو ان کے محنت مزدوری سے کمائے ہوئے وسائل سے محروم کیا جائے گا۔ یہ طریقہ کار اس بھائی چارے اور باہمی ثقافتی و مذہبی تعلق کے برعکس ہے جس کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نے افغان شہریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ہے۔
ملک میں جلد ہی انتخاب ہونے والے ہیں۔ نگران حکومت کو ایک متنازع اور خطرات سے بھرپور فیصلہ نافذ کرنے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ نگران حکومت کا کوئی فیصلہ پاکستانی عوام کی امنگوں کا آئینہ دار نہیں ہو سکتا کیوں کہ اسے محض انتخابات کی نگرانی کے لیے مختصر مدت کے لیے اقتدار دیا گیا ہے۔ بہتر ہو گا کہ انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالنے والی حکومت پارلیمنٹ کے ساتھ مشاورت سے کوئی مناسب اور متوازن راستہ تلاش کرے۔ پاکستان کا موجودہ فیصلہ اگر اس کی افغان پالیسی کی ناکامی کا اقرار ہے تو اس کی سزا مظلوم افغان شہریوں کو نہیں ملنی چاہیے۔
- عمران خان سے ’انتقام‘ لینے کا اعلان - 09/12/2023
- عدالتوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی افسوسناک کوشش - 08/12/2023
- اسرائیل دشمنی میں جہاد کے ناجائز نعروں سے گریز کیا جائے! - 07/12/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).