اونٹ، انگریز اور نور جہاں
اونٹ کا کینہ مفت میں بدنام ہے۔ اس معاملے میں انگریز بھی کچھ کم نہیں۔ انگریز کا کینہ یہ ہے کہ اس کی آتش انتقام ہی نہیں بجھتی، سو انہوں نے اپنے کتوں کو، ہمارے شیروں کے ناموں سے پکارا۔ یہ کینہ پروری، قدر ناشناسی اور ستم ظریفی کی انتہائی مکروہ صورت ہے۔
صاحبو، ہم کینہ پرور نہ سہی لیکن قدر ناشناس اور ستم ظریف ضرور ہیں۔ تاریخ میں نور جہاں نام کی ایک ملکہ گزری ہیں جس نے شہزادے کا دوسرا کبوتر بھی ہوا میں اڑا دیا تھا اور شہزادے کے لبوں پر بے اختیار فیض کا مصرع جاری ہو گیا : ادائے حسن کی معصومیت کو کم کر دے!
بعد ازاں گناہ گار شہزادے نے اسے حبالۂ عقد میں لا کر ادائے حسن کی معصومیت کو کم کرنے کا ثواب حاصل کیا۔ روایت ہے کہ ایسا ہی ایک واقعہ کراچی کی ایک معزز عدالت میں بھی پیش آیا تھا جب ایک ملزم کو دستی بم سمیت فاضل جج صاحب کے حضور لایا گیا۔ چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد۔ جج صاحب نے بم کے طریقۂ استعمال کے بارے میں دل چسپی ظاہر کی تو معصوم ملزم نے دستی بم سے پن نکال کر دوسرا کبوتر بھی ہوا میں اڑا دیا۔ ہمیشہ رہے نام اللہ کا۔
نور جہاں نام کی ایک اور ملکہ بھی تھیں۔ ملکۂ ترنم! بہشت گوش آواز، حسن ظاہری کی دولت سے مالامال! عشاق قطار اندر قطار نقد جاں لٹانے کو تیار رہتے تھے۔ نور جہاں، اگلے جہاں سدھار چکیں مگر ان کے نغمے آج بھی سماعتوں کو منور کیے رکھتے ہیں۔ اب ہماری قدر ناشناسی اور ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ کراچی کے چڑیا گھر کی ایک ہتھنی کا نام بھی نور جہاں تھا۔ نورجہاں، اگر کسی کوئل یا بلبل کا نام تجویز کیا جاتا تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔
ہمیں یہ بھی برا نہیں تھا کہ ہتھنی کا نام انجمن رکھا جاتا کہ تشبیہ میں وجہ شبہ بہرحال موجود تھی ( تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنی ”اس ہتھنی“ کا نام) لیکن کسی ہتھنی کو نور جہاں کے نام سے پکارنا بدذوقی اور شقاوت قلبی ہے۔ اب یہ ہتھنی دنیا میں نہیں رہی لیکن اس کی یاد بچوں اور ہاتھیوں کے دلوں میں آج بھی باقی ہے۔ بیچاری ”نورجہاں“ کچھ عرصہ علیل رہی۔ گنبد شکم میں کچھ مسائل رہے۔ ایک پاؤں بھی سوج گیا، گویا ایک انسانی بیماری کا شکار رہی جسے ”فیل پا“ کہتے ہیں۔ اور آخر ملک عدم روانہ ہو گئی۔
خبر تحیر عشق ایک اور بھی ہے کہ اسی چڑیا گھر میں ایک اور ہتھنی بھی ہے۔ نام اس کا مدھو بالا ہے۔ صاحبو، اس سے زیادہ جمال دشمنی اور کیا ہو گی۔ یوں لگتا ہے کہ ماضی کی ان مذکورہ پری زادوں کے کسی نامراد عاشق نے، جو یقیناً چڑیا گھر کا منتظم ہو گا، اپنا غصہ، تسمیہ میں نکالا ہے۔ ناکام عاشق دیرینہ کا کینہ بھی اونٹ اور انگریز کے کینے سے کم نہیں ہوتا۔ سنا ہے کہ ”مدھوبالا“ کی طبیعت بھی ناساز رہتی ہے۔
- شہر سے بڑا آدمی - 04/11/2024
- ہم نام کا روزنامچہ - 25/09/2024
- مگس، پروانہ اور امریکہ - 25/07/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).