روبوٹ دنیا کا نقشہ بدل دیں گے


mahmood ul-hasan khan mansehra

جاپان اس زمین پر سب سے طویل عمر پانے والوں کا ملک ہے اور ان کے ہاں معمر لوگوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ جاپان میں مردوں کی اوسط عمر 80 سال اور عورتوں کی 87 سال ہے، جو اگلے کچھ سالوں مزید بڑھ کر 84 اور 91 سال ہو جائے گی۔ آج جاپان کی 29 فیصد آبادی 65 سال یا اس سے اوپر کی ہے جو کہ 2050 تک 39 فیصد تک پہنچ جانا ہے۔

ان طویل عمر بزرگوں کو دیکھ بھال کرنے والوں کی اشد ضرورت ہوگی لیکن جاپان کی کم شرح پیدائش سے یہ چیز مفقود ہونے لگی ہے۔ کچھ عرصہ قبل جاپان کے وزارت صحت نے بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے 4 ملین نرسوں کی ضرورت پیش کی ہے جبکہ اس وقت ملک میں صرف 1.49 ملین نرسیں موجود ہیں۔ افراد کی یہ قلت بزرگوں کی دیکھ بھال جیسے کاموں کو بہت شدت سے متاثر کرے گی۔

1970 کی دہائی میں جاپانیوں نے کاریں بنائی، 1980 کے پیٹے میں الیکٹرانکس کا بھول بھال ہوا اور اب انسان نما روبوٹس دنیا میں ہل چل مچانے لگی ہے جس کا سب سے پہلے اختراع جاپان نے کیا۔

ایلک راس اپنی کتاب (The Industries of the future) میں لکھتے ہیں کہ ٹویوٹا اور ہونڈا کی حریف کمپنیاں، روبوٹوں کی اگلی نسل اختراع کرنے کے لیے مکینیکل انجینئرنگ میں اپنی مہارت کو تقویت دے رہی ہیں۔ ٹویوٹا نے ”روبینہ“ نامی ایک مددگار آیا بنائی۔ روبینہ ایک مؤنث روبوٹ ہے، جس کا وزن 60 کلوگرام اور قد 1.2 میٹر ہے۔ جو الفاظ اور اشارات سے ابلاغ کر سکتی ہے۔ اس کی کھلی ہوئی آنکھیں ہیں، گھنے اور الجھے ہوئے بال ہیں اور یہاں تک کہ ایک شاندار سفید چمکدار سکرٹ بھی ہے۔

روبینہ کا بھائی ”ہیومنائڈ“ مختلف گھریلو کاموں میں معاونت کرتا ہے۔ وہ برتن دھو سکتا ہے، والدین بیمار ہوں تو ان کی دیکھ بھال کر سکتا، اور تفریح تک مہیا کر سکتا ہے۔

اس کے مقابلے میں دوسری کمپنی ہونڈا نے ایسیمو (ASIMO) ایجاد کیا۔ ایسیمو اتنا مہذب روبوٹ ہے کہ وہ انسانی جذبات، حرکات اور گفتگو کی ترجمانی کر سکتا ہے۔ دو کیمروں کی بدولت ایسیمو صوتی احکام کو سمجھ سکتا ہے، ہاتھ ہلا سکتا ہے اور سر ہلا کر یا آواز کے ذریعے سوالوں کے جوابات دے سکتا ہے۔ یہاں تک کہ دوسروں کا استقبال کرنے کے لیے اچھے جاپانی آداب بجا لاتے ہوئے سر بھی جھکا سکتا ہے۔

اس وقت پانچ بڑے ممالک جاپان، امریکا، چین، جنوبی کوریا اور جرمنی روبوٹس کی دنیا میں چھائے ہوئے ہیں۔ روبوٹ کی فروخت کا ستر فیصد انہیں ممالک سے ہوتا ہے۔ جاپان روبوٹ کی فروخت میں سب سے آگے ہے جبکہ چین انتہائی تیزی سے بڑھتی ہوئی مارکیٹ ہے جس کی فروخت ہر سال 25 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔

میڈیکل فیلڈ میں بہت سارے کام جو انسانوں کے پہنچ سے دور ہیں وہ روبوٹس کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ 2013 میں 1.5 ملین ڈالر پر 1300 سرجیکل روبوٹوں کی فروخت ہوئی۔ روبوٹ کے ذریعے سے کیے جانے والے آپریشنوں میں ہر سال 30 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ کین گولڈ برگ کی تحقیقاتی ٹیم، ایسے روبوٹس سے کینسر کا علاج کرنے پر کام کر رہی ہے، جنہیں انسانی جسم کے اندر ڈالا جا سکتا ہو تاکہ وہ اس پر شعاعیں چھوڑیں، یہ روبوٹ جسم کے اندر ریڈیائی لہر چھوڑتے ہیں جو شعاعوں کو ٹھیک کینسر کے خلیات پر پھینک کر انھیں ختم کردیں گے۔ مستقبل قریب میں سرجری، فزیکل تھراپی اور یہاں تک کہ کسی وبا کے خلاف لڑنے میں بھی روبوٹ پیش پیش ہوگے۔

ایلک راس آگے جاکر لکھتے ہیں کہ گوگل نے نیشنل ہائی وے ٹریفک سیفٹی ایڈمنسٹریشن کے سابقہ ڈپٹی ڈائریکٹر ”رون میڈ فوڈ“ کو خود چلنے والی کاروں کی حفاظت کے لیے ڈائریکٹر چن لیا گیا ہے۔ میڈفوڈ نے وضاحت کی کہ امریکی مجموعی طور پر ہر سال تقریباً تین ٹریلین میل گاڑی چلاتے ہیں اور اس عمل میں 30,000 سے زیادہ لوگ مر جاتے ہیں اور عالمی طور پر 1.3 ملین لوگ کار حادثوں میں مر جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں روبو ڈرائیور ان سے زیادہ محفوظ رہے گا۔ ممکنہ طور پر حادثات کے اسباب چار ”ڈی“ ہیں : پریشانی (Distraction) ، اونگھ (Drowsiness) ، مے نوشی (Drunkeness) اور ڈرائیور کی غلطی (Driver Error) ۔ بے ڈرائیور کاریں ان چیزوں کو کسی حد تک کم کر سکتی ہیں۔

کرس گرڈیز جو کہ انجینئرنگ کے سٹینفورڈ پروفیسر ہیں، خبردار کرتے ہیں کہ بے ڈرائیور کاریں مکمل طور پر انسانی غلطی کا ازالہ نہیں کریں گے، بلکہ اس غلطی کو ڈرائیور سے پروگرامر پر منتقل کر دیں گے ؛ پورا امکان ہے کہ یہ آگے کی طرف ایک قدم ہو گا۔ اس روبوٹک صنعت سے بہت سے لوگ فائدہ لیں گے لیکن یہ ڈرائیوروں کی مارکیٹ کھا جائے گی، جیسے کہ اوبر نے ٹیکسی مارکیٹ کو گھٹنوں پر بٹھا دیا تھا۔ نا صرف یہی بلکہ کسی آنلائن کمپنی جیسے ایمزون کا پارسل بھی ہوائی ڈرون یا خودکار روبوٹس لے لیں گے اور ہمارا پارسل وقت پر نہ پہنچنے والا گلہ بھی ختم ہو جائے گا۔

روبوٹ اگرچہ کچھ ایسے کام کریں گا جو انسان کے دسترس سے باہر ہے، لیکن وہ کام جس کا واسطہ صدیوں سے انسانوں سے پڑا ہے، جو تہذیب ہماری نسل در نسل چلتی آ رہی ہے وہ سب ختم ہو جائے گا۔ تصور کیجئیے کہ بڑی بڑی کمپنیوں سے لے کر ہوٹل کے ویٹروں تک، روزمرہ کے کام کاج روبوٹ کے حوالے کر دیا جائے گا اور ہر آتے جاتے راہ میں ہمارا پالا روبوٹوں سے پڑے گا، پھر روبوٹ ہماری زندگیوں کا ایک اہم محور ہو گا۔

آج سے بیس سال پیچھے دیکھے تو انٹرنیٹ بہت خال خال ہوا کرتا تھا لیکن ان کچھ سالوں میں اتنا بدلاؤ آیا کہ اب ہر ایک کے دسترس میں موبائل اور انٹرنیٹ ہے، جبکہ اس سے بھی تیز ترین انقلاب روبوٹس کی دنیا میں آنے والا ہے جو اگلے کچھ برسوں میں دنیا کا نقشہ بدل دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments