وبال جان کچرا!
دنیا کے ہر کونے میں کچرا پیدا ہوتا ہے اور اسے مناسب، ماحول دوست طریقے سے ٹھکانے لگایا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں دیگر چیزوں کی طرح اسے بھی وبال جان بنا لیا گیا ہے۔
اگر کچرا بری چیز نہ ہوتی تو لوگ اسے گھر سے کیوں نکالتے۔ گھر سے تو فوراً باہر پھینک دیتے ہیں لیکن اسے آگے مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے پر اصرار نہیں کیا جاتا۔
اس وقت اگر آپ مشاہدہ کریں کہ لوگ اپنی گاڑی موٹر سائیکل پر میلوں دور سے آتے ہیں اور کچرا پھینک جاتے ہیں۔ جہاں کہیں کوئی خالی پلاٹ پڑا ہو تو لوگ وہاں کوڑا کرکٹ ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف خالی پلاٹوں پر تیزی سے تعمیرات کی وجہ سے کچرا پھینکنے کی یہ جگہیں بھی تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔
اس کچرے میں سب سے زیادہ پلاسٹک کے لفافے، پلاسٹک سے بنی اشیا اور نائلون سے بنے کپڑے ہوتے ہیں۔ جو کہ ظاہر ہے جلنے پر پلاسٹک کی آلودگی پھیلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چمڑے، نائلون اور چاولہ کے بنے جوتے ہوتے ہیں۔ بچوں کے غلیظ پوتڑے اور خواتین کے استعمال کی اشیا، استعمال شدہ کپڑے، ادویات، ڈرپ اور سرنج وغیرہ ہوتے ہیں۔ پورسلین کے بنے برتن جن کا اگر ایک چھوٹا سا کونا بھی ٹوٹ جائے تو پھینک دیے جاتے ہیں۔ موبائل فون کے چارجر ہینڈز فری اور دیگر چھوٹے موٹے برقی آلات ہوتے ہیں۔
ان کے علاوہ اور بھی درجنوں اقسام کی اشیا ہوتی ہیں۔ خود یہ کچرا بھی آٹے اور چینی کی خالی پلاسٹک کی بوری میں لا کر پھینکا جاتا ہے۔ اب بعض سیانے لوگ اس ڈھیر کو ماؤنٹ ایورسٹ کا پہاڑ سمجھ کر اسے سر کرنے کے لیے آگ لگا دیتے ہیں۔ یہ کام کرتے ہوئے وہ ایسے سینہ پھلائے ہوتے ہیں کہ جیسے کوئی بہت اہم قومی فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ جیسے کہ احتجاج کرنے والے ٹائر وغیرہ جلاتے ہوئے کرتے ہیں حالانکہ ٹائر جلائے بغیر بھی احتجاج کیا جا سکتا ہے مگر لوگ سمجھتے ہیں کہ جب تک یہ کام نہیں کیا تو کچھ بھی نہیں کیا حالانکہ یہ دھواں خود انہی کی سانسیں خراب کر رہا ہوتا ہے۔
کچرے کے دھوئیں کے ذرات لوگوں کی آنکھوں میں جاتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آنکھ میں کوئی چیز چبھ گئی ہو، یہی دھواں پھیپھڑوں میں جا کر ان کے سوراخ بند کرتا ہے اور دمے وغیرہ کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے اب کچرا اٹھانے کا کام زیادہ تیز رفتاری سے کرنا وقت کی مجبوری ہے۔ بلدیہ کے خاکروب صرف سڑک کے ساتھ واقع کچرے دانوں سے کوڑا اٹھاتے ہیں۔ خالی پلاٹوں پر جتنا کوڑے کا ڈھیر پڑا ہو اور وہ ماؤنٹ ایورسٹ ہی کیوں نہ بن جائے، بلدیہ والوں کی بلاء سے، انہیں اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ صرف سڑک پر پڑا کچرا اٹھاتے ہیں اور وہ بھی کئی کئی دنوں بعد ۔
اب مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں بلدیہ والوں نے بڑے بڑے پیلے رنگ کے کچرا دان رکھ دیے ہیں لیکن لوگ ان میں کچرا نہیں پھینکتے بلکہ ان کے ارد گرد پھینک دیتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ لوگ اپنے گھروں کے سامنے یا گھر کے ایک کونے میں کوڑا دان رکھیں اور اس میں کوڑا پھینکیں اور جب بلدیہ والے آئیں تو اسے اٹھا لے جائیں۔ اس کے علاوہ لوگ کوشش کریں کہ کم سے کم کچرا پیدا ہو۔ آخر لوگ اپنے مسائل خود حل کرنے کی بجائے کب تک دوسروں کی جانب دیکھتے رہیں گے۔ محترم قارئین، جب تک آپ بارش کا پہلا قطرہ نہیں بنیں گے تو ساون کی جھڑی نہیں لگے گی۔
ہم نے پہلے بھی کئی مرتبہ انکل عرفی میں جمشید انصاری مرحوم کے مشہور مکالمے ”چقوہے میرے پاس“ کی طرح اپنے قلم کا نشتر چلاتے ہوئے معاشرے کے اس بڑے ناسور کے حوالے سے بات کی ہے لیکن کچھ فرق نہیں پڑا ہے۔ بلکہ یہ مسئلہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواء کی والے محاورے کی طرح گمبھیر ہی ہوتا جا رہا ہے۔
ہم نے سوچا ہے کہ ایسے معاشرتی مسائل کہ جن پر کوئی اور بات نہیں کرتا، کو زیر بحث لانے والے کالموں کا مستقل عنوان ”چقو ہے میرے پاس“ ہو گا۔ کیونکہ اپنے چقو نما قلم سے معاشرے کے ان ناسوروں پر سرجری کر رہے ہیں۔
- کیلوِن باؤری۔ بے گناہ قید کاٹنے سے کامیاب کاروباری شخصیت بننے تک کا سفر - 30/10/2024
- ایتھوپیا میں برقی کاروں کی حکمرانی - 29/08/2024
- مصنوعی قحط سالی - 11/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).