ماحول اور رویے
برطانوی سفیر کی رہائش گاہ پر شاہ چارلس کی سالگرہ کے سلسلے میں عشائیہ میں شرکت کی جبکہ لاہور میں کچھ مغربی سفارت کار دوستوں سے چند ایام قبل ایک طویل نشست ہوئی تھی۔ مرکز گفتگو دیگر موضوعات جیسے کہ سیکورٹی، معیشت، غزہ کی صورت حال کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مستقبل کی سیاسی حالت ہی تھا۔ ایک تصور پر ہر جگہ بات ہو رہی تھی کہ پاکستان کو درکار ہے کہ سیاسی رہنماؤں کے مابین افہام و تفہیم کی کوئی کیفیت قائم ہو جائے، معاف کر دیا جائے اور سیاست کو دشمنی کی شکل دھارنے سے مزید روک دیا جائے۔
کہنے کی حد تک تو یہ تصور بہت خوش کن ہے مگر خوابوں کا تعاقب تب ہی مناسب اقدام ہوتا ہے کہ جب اس کی تعبیر کا حصول حقیقی معنوں میں عالم امکانات میں موجود ہو۔ تجزیہ اس کا کرنا چاہیے کہ کیا پاکستان میں اس وقت ایسی مثالی سیاسی کیفیت کو وجود بخشا بھی جا سکتا ہے یا یہ نری کہانیاں ہی کہانیاں ثابت ہوں گی ۔ ماضی سے حال کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گیارہ جنوری انیس سو ستر کو مارشل لا پابندیاں ہٹنے کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے پلٹن میدان ڈھاکہ میں ایک بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا، جلسہ کامیاب رہا۔
شیخ مجیب الرحمن کی مخالف جماعتوں میں جماعت اسلامی کو ایک علیحدہ اہمیت حاصل تھی۔ مولانا مودودی کی شخصیت، ان کا تصور دین بہت سارے اذہان کو اپنا گرویدہ کر چکا تھا اس لئے جماعت اسلامی نے یہ فیصلہ کیا کہ مولانا مودودی کو خود ( سابقہ ) مشرقی پاکستان، ڈھاکہ تشریف لے کر جانا چاہیے اور وہاں کی عوام کے سامنے اپنا موقف پیش کرنا چاہیے۔ 18 جنوری انیس سو ستر کو پلٹن میدان میں ہی مولانا مودودی کا جلسہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اور اس جلسہ کے اعلان کے ساتھ ہی شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے علی الاعلان یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ مولانا مودودی کو جلسہ منعقد کرنے نہیں دیں گے۔ ایک کشیدگی کی فضا قائم کردی گئی بہرحال ان حالات میں بھی مولانا مودودی نے ڈھاکہ جانے کا اپنا فیصلہ برقرار رکھا اور وہ سترہ جنوری کو تیج گاؤں ائر پورٹ پر اتر گئے ان کی آمد سے قبل ایسا تاثر قائم کیا گیا کہ مولانا مودودی کو ائر پورٹ پر اترنے ہی نہیں دیا جائے گا مگر مولانا مودودی اتر گئے۔
اگلے روز جلسہ گاہ میں آمد سے روکنے کی غرض سے مولانا مودودی کی قیام گاہ سے جلسہ گاہ تک جانے والے ہر راستہ کو عوامی لیگ نے بند کر دیا وہ تو جلسہ گاہ پہنچ ہی نہ سکے۔ پروفیسر غلام اعظم جو برسوں بعد حسینہ واجد کے انتقام کا نشانہ بنے جلسہ گاہ میں موجود تھے، جلسہ شروع ہوا اور اس جلسہ پر عوامی لیگ نے حملہ کر دیا، کم و بیش پانچ سو افراد زخمی ہوئے، تین راہی ملک عدم ہو گئے جگہ جگہ دنگا فساد ہوا، پروفیسر غلام اعظم اپنے دیگر کچھ ساتھیوں سمیت مغلیہ دور کی ایک مسجد میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے اسٹیج پر عوامی لیگ کے حامیوں نے قبضہ کر لیا اور عوامی لیگ کی حزب اختلاف کی جماعت کو اپنا موقف بھی پیش کرنے سے محروم کر دیا گیا، یکم فروری کو پلٹن میدان میں دوبارہ سے اسی نوعیت کی کارروائی ڈالی گئی اور علانیہ نور الامین اور غلام فرید کے سر چاہیے کہ نعرے مارے گئے۔
نور الامین کا ذکر آیا ہے تو ذرا مزید ماضی میں لے چلتا ہوں۔ وہ مسلم لیگ کی طرف سے (سابقہ ) مشرقی پاکستان، مشرقی بنگال کے وزیر اعلی رہے تھے ان کے خلاف انیس سو چون کے انتخابات میں وہ وہ جھوٹ بولا گیا کہ گوئیبلز بھی داد دینے پر مجبور ہو گیا، پروپیگنڈا یہ کیا گیا کہ انہوں نے میمن سنگھ میں ایک نیا مکان بنایا ہے اور اس مکان کے بیت الخلا کی ٹائلیں تک سونے کی ہیں۔
ان دو مثالوں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جھوٹ اور اس کی بنیاد پر نفرت کس قدر معاشرے کو زہر آلود کر چکی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اگر تنہا کوئی سیاست دان اس وقت سب گلے شکوے بھلا کر آگے بڑھنے کا اعلان کرتا تو اس کو شیخ مجیب الرحمن کی جانب سے مثبت جواب موصول ہوتا یا اس کو اپنی مزید کامیابی سے جوڑ لیا جاتا۔ اب حال میں قدم رکھ دیتے ہیں۔ معاشرہ اس حد تک زہر آلود کر دیا گیا ہے کہ سیاست دانوں کے گھروں پر چڑھائی کرنے کی باتیں کی گئی، لندن میں تو یہ کریہہ مناظر روز دیکھنے کو ملتے تھے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے ایسے اشتعال انگیز بیانات دیے گئے کہ مسلم لیگ نون کے رہنما کسی عوامی مقام پر بیٹھ کر کھانا کھا کر دکھائے، مطلب صاف تھا کہ ہر جگہ پر شریر عناصر ہر اخلاقیات کو روند ڈالیں گے اور یہ بد صورت مناظر دیکھنے میں بھی آئے۔ جو کیفیت پیدا کردی گئی ہے اس میں اس کی سرے سے گنجائش ہی موجود نہیں ہے کہ کوئی سیاسی مفاہمت ممکن ہو سکے کیوں کہ ایک فریق صرف سب کچھ روند ڈالنے پر یقین رکھتا ہے۔ جنوبی افریقہ کی مثال دی جاتی ہے ادھر یہ سب اس وقت ممکن ہوا جب نیلسن منڈیلا فتح حاصل کر چکے تھے اور ان کے مخالفین اپنی غلطیاں تسلیم کر چکے تھے مگر ہمارے ہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
نواز شریف کے حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کو چاہیے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو معاف کر دے، شخصی زخم قومی مفاد کی خاطر بھلائے جا سکتے ہیں مگر کسی کی قوم کے ساتھ خیانت کو کوئی بھی کیسے معاف کر سکتا ہے؟ نواز شریف سے ایسی کسی سیاسی مفاہمت کی بجائے اس بات کی بجا طور پر توقع رکھنی چاہیے کہ وہ پاکستان کو درپیش سب سے بڑے مسئلہ کہ وطن عزیز کے اداروں کے حوالے سے یہ تصور بہت مضبوط ہے کہ وہ پولیٹیکل انجینئرنگ کے لئے استعمال ہوتے ہیں کا خاتمہ کریں گے اور ریاست کے اداروں کو صرف آئین کا تابع فرمان بنا دیں پھر قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے اگر کوئی قصور وار ہو تو اس کی حیثیت کو مد نظر رکھ کر اس کو معاف نہ کر دیا جائے اور اگر کوئی بے گناہ ہو تو اس سے جتنی مرضی سیاسی مخالفت ہو اس کو سزا نہ دی جائے یہ ہی قومی ترقی کا واضح راستہ ہے۔
- جمہوریت کو لاحق اندرونی خطرات - 07/12/2023
- امکانی معاشی راستے۔ - 29/11/2023
- سیاسی سموگ پھیلانے والے - 24/11/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).