عالمی معیشت کا مستقبل


غزہ میں جو قتل و غارتگری کا سلسلہ 7 اکتوبر سے شروع ہوا ہے وہ فی الحال ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ وہاں لوگوں کی جان و مال اور متاع جاں تو تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ جانے کتنے زمانے لگیں گے تو یہ ظلم و ستم کا سلسلہ تھمے گا اور زخم بھرتے بھرتے زمانے لگیں گے۔ البتہ اس کے فوری اثرات تو عالمی معیشت پہ طاری ہونا لازم ہیں جن کا ظہور ہو چکا ہے۔ 26 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں دنیا کی تقسیم واضح طور پہ نظر آئی جب جنگ بندی کے لئے ایک قرارداد پیش کی گئی لیکن اس موقع پر امریکہ نے اسرائیل کی واشگاف الفاظ میں مدد کی اور اس موقع پر یورپی یونین بھی منقسم نظر آئی۔

بھارت نے حسب دستور روایتی تعصب کا مظاہرہ کیا اور اسرائیلی ظلم و ستم کو دوام بخشنے کے لئے قرار داد کے حق میں ووٹ نہ دیا۔ دراصل ہندو راشٹریہ کو یہ خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ آج اسرائیل کے خلاف آواز بلند کی تو کل اس کی کشمیری معاملے میں اپنی باری آ جائے گی لہذا اس نے خاموشی میں ہی اپنی بقا سمجھی۔ وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ جب امریکی خارجہ پالیسی زیر تنقید ہو اور بحث و تمحیص ہو رہی ہو تب بھی وہ اپنی معیشت کو چکنا چور ہونے نہیں دیتا۔

جیسا کہ مشرق وسطیٰ میں لڑی جانے والی بش کے دور کی جنگ تھی جس کے خلاف پوری دنیا میں بڑا شور و غوغا ہوا تھا مگر امریکی معیشت کو اس کے اثرات سے بچا لیا گیا۔ اس کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ ممالک چین کے پلڑے میں اپنا وزن نہ ڈال دیں لہذا وہ ان کے ساتھ ذرا نرم اور آسان شرائط پر بھی معاہدے کر لینے میں تعامل نہیں کرتا۔ عالمی معیشت ابھی تک دھیرے دھیرے کووڈ۔ 19 کے اثرات سے نبردآزما تھی کہ اوپر سے اب یہ مسئلہ فلسطین آیا گیا جس سے جنگ و جدل کے دوررس اثرات مرتب ہوجانا لازم ہے۔

جس سے عالمی کسادبازاری کا آغاز ہونے کے امکانات روشن ہیں۔ اسرائیلی فوجی دستے اگر تو لبنان اور شام میں گھس کر لڑائی کرنا شروع ہو گئے تو پھر اس خطہ کو بڑے امتحان سے گزرنا پڑے گا جو معاشی صورتحال کو خراب کردے گا۔ جس سے تیل کی قیمتوں کو آگ لگ سکتی ہے اور متوقع طور پہ ایک بیرل تیل کی قیمت 150 ڈالر تک پہنچ سکتی ہے جس سے عالمی ترقی رک جا سکتی ہے۔ جس ہر طرف مہنگائی میں ہوشربا اضافہ متوقع ہے جو عالمی امن و سلامتی میں بگاڑ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے مابین ایک حالیہ ملاقات ہوئی ہے جس میں انہیں خدشات کو مدنظر رکھ آئندہ کسی ممکنہ حالات سے نبردآزما ہونے کی تدابیر اختیار کرنے کا کہا گیا۔ آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹیلئنا جارجیوا نے ان سیاہ بادلوں کی جانب توجہ مبذول کرائی جو اس وقت عالمی منظرنامے پہ نمایاں ہو رہے ہیں۔ انہیں یہ خدشہ لاحق ہے کہ عالمی معیشت اس وقت 3 فیصد ہے جو حالات کی گراوٹ کی وجہ سے 2.9 تک بھی 2024 میں گر سکتی ہے۔ عالمی طور پہ ماحولیاتی بقا کی خاطر جو تھوڑا بہت کام شروع کیا گیا تھا اس بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے وہ بھی شدید متاثر ہو سکتا ہے کیونکہ امیر ممالک اس میں دی جانے والی امداد روک سکتے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی سے نبٹنا نسبتاً مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments