کلرکہار میں لائے گئے کرائے کے قاتل


تحصیل کلرکہار آج کل مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔ ان بے زبانوں کا مقتل گاہ جو اپنے قتل کو روکنے اور نہ ہی بولنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ یہ سرزمین معصوم پرندوں کے خون سے رنگین ہوئی پڑی ہے۔ کرائے کے قاتل دھڑا دھڑ کلرکہار اور اس کے ملحقہ علاقوں میں لائے جا رہے ہیں۔ مگر دکھ تو یہ ہے کہ اپنے محافظ نے ہی قاتلوں کو دعوت عام دے رکھی ہے۔ پاکستانی پبلک جس رفتار سے اپنی آبادی بڑھا رہی ہے، بالکل اسی رفتار سے ہی جنگلی حیاتیات کے خاتمے پر صبح و شام ایک کیے ہوئے ہے۔ چند سو روپے کا لائسنس دے کر کئی سو پرندوں کا قتل کروانے والے کاش کوئی ڈھنگ کا قانون بھی بنا پاتے۔ اگر آپ کو بھی چند مخصوص لوگوں کی طرح تحصیل کلرکہار میں جو کچھ ہو رہا ہے، شکار لگ رہا تو کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ مگر یہ شکار نہیں ہے، قتل ہے پرندوں کا! سراسر ظلم ہے۔

اتنی جلدی اب کرائے کا مکان نہیں ملتا، جتنی جلدی ہمارے ہاں کرائے کے انسانی قاتل مل جاتے ہیں۔ ہم انسانوں کے قتل ہونے پر زبان نہیں کھولتے، یہ تو پھر پرندے ہیں۔ ہم نے کیوں بولنا ہے۔ چند سو روپے کے جس لائسنس پر چند پرندے شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اسی چند سو روپے کے لائسنس پر ہزاروں پرندوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جب قانون نے چپ سادھ رکھی ہے تو پھر کہنے کو کچھ نہیں بچتا:

جہاں قانون بکتا ہو!
جہاں محافظ مارنے پہ تلا ہو!
جہاں نقاب پوش بندوق برداروں کی بھرمار ہو!
جہاں سیاہ رات کی مانند گاڑیوں کے سیاہ شیشے ہوں!
جہاں سوال اٹھانے والوں کو اٹھا لیا جاتا ہو!
جہاں عبادت گاہ مقتل گاہ بن جائے!
جب یہ سب کسی دیس میں عام ہو!
تو پھر کہنے کو کچھ بچتا ہی نہیں!

یہ چند سو روپے کی مالیت کے لائسنس یافتہ شکاری نہ صرف پرندوں کا قتل بلکہ غریبوں کسانوں کی فصلوں کا بھی ستیاناس کر رہے ہیں۔ بیچارہ کسان پہلے ہی بڑی مشکل سے بیج اور ٹریکٹر کے اخراجات پورے کر رہا ہے۔ مگر ان امیر زادوں کو کیا اس کی کیا خبر۔ پورا سال محکمہ انھی پرندوں کی حفاظت کے (صرف) نام پر ہمارے ٹیکس پر عیاشی کرتا ہے۔ اور سال کے آخر میں پھر دیہاڑیاں لگنا شروع کر دیتا ہے۔ گزشتہ روز ایک دوست نے پوچھا کہ یہ محکمہ وائلڈ لائف کیا ہوتا ہے۔

میں نے کہا، اسے اپنے علاقے میں ان کے دفتر کا پتہ بتایا تو کہنے لگا، وہ تو محکمہ شکار کا دفتر ہے۔ اس کی یہ بات دل کو لگی، اور موجودہ صورتحال دیکھ کر سمجھ بھی لگی کہ لوگ اسے محکمہ شکار کیوں کہتے ہیں۔ پہلے ہی ہمارے اس علاقے میں پرندوں کی نایاب نسلیں ختم ہوتی جا رہی ہے۔ بجائے ان نایاب پرندوں کی حفاظت کے آپ قتل کے لائسنس بانٹ رہے ہیں۔ تو پھر حضور والا سوال تو اٹھیں گے۔ آوازیں تو آئیں گی۔ مگر افسوس کہ ان آوازیں سے یہاں کچھ ہوتا نہیں ہے۔

بہت سارے مائیگریٹری برڈز سردیوں میں ہمارے ہاں ہجرت کر کے آتے ہیں۔ ہماری جھیلوں، ندیوں اور آسمانوں کو رونق بخشتے ہیں۔ مگر ہم نے ہمیشہ شکار کے نام پر ان کا بے رحمانہ قتل عام کیا ہے۔ سردی کا آغاز ہوتے ہی سائبیریا، یورپ اور کئی ایسے علاقوں سے خوبصورت پرندے ہجرت کر کے پاکستان جیسے ملکوں میں آتے ہیں۔ جہاں ٹھنڈ کم پڑتی ہے۔ تاکہ انھیں پینے کو پانی اور کھانے کو خوراک مل جاتی ہو۔ مگر انھیں کیا خبر ان کے آنے سے پہلے یہاں بندوقیں صاف کی جاتی ہیں۔ تحفظ اور خوراک کے لیے ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کر کے آنے والے پرندوں کو کیا پتہ یہاں تحفظ اور خوراک انسانوں کی نہیں مل رہ، ان پرندوں کو تو اپنی خوراک بنانے کے لیے ہم لوگ اجازت نامے بھی جاری کرتے ہیں۔

پلیز! کوئی تو دنیا کے تمام پرندوں کو بتا دو کہ پاکستان میں بولنے کے ساتھ ساتھ اڑنے کی بھی آزادی نہیں ہے۔ یہ فری فلائی ایریا نہیں بلکہ قتل گاہ ہے۔ یہاں سے نہ گزرا کریں۔ ہم نے جنگلات کاٹ ڈالے، پرندوں کو قتل کرتے جا رہے ہیں۔ مگر سوچیے کہ درختوں کے بغیر اور ہماری جھیلوں پر رقص کرتے ان پرندوں کے بغیر یہ دنیا کسی بے رنگ و بے رونق بن جائے گی۔ یہ درخت اور پرندے تو بول نہیں پاتے، اور اپنا قتل سہ بھی لیں گے۔ مگر اب جو سموگ اور گرد آلود فضاؤں کی شکل میں اس دیس میں جو تباہی آ رہی ہے، اس کو ہم کیسے سہ پائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments