حوروں کے بھیس میں
ڈاکٹر غلام مرتضی ملک صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ جنت کی کیا تعریف (ڈیفینیشن) ہے تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا کہ معبود اور عبد کے درمیاں ملاقات کی جگہ کا نام جنت ہے۔ سائل انگشت بدنداں ہوا ہی چاہتا تھا کہ برجستہ اس کے منہ سے نکلا تو حضور حوروغلمان، دودھ اور شہد کی نہریں، عربی گھوڑے کی سالہا مسافت پہ محیط درخت کی چھاؤں، یاقوت و مرجان سے منقش محل، وہ سب کیا ہوئے۔ دودھ، شہد، گھوڑا، قیمتی پتھر ان سب سے تو کسی نہ کسی طور شناسائی بن ہی جاتی ہے۔ لفظ حور ہی اک ایسا اسم ترکیب تھا کہ معلومات کا منبع سوائے تین ذرائع سے آگے نہ بڑھ سکا۔
اول تو انور مسعود کی صاحب کی وہ مزاحیہ نظم تھی:
ڈٹھی میں اک حور، مرے ول پیلاں پاندی آوے
اک نظر مستانی جس دی لکھ بھلیکھے پاوے
(میں نے اک حور دیکھی، جو بڑی فخریہ چال چلتی میری ہی جانب آ رہی تھی۔ اس کی اک مخمور نظر لاکھوں وسوسوں کا باعث تھی)
ایڈی سوہنی چھیل چھبیلی جھاتی پاندے ڈریے
بدل اوہدیاں زلفاں اگے آکھن پانی بھریے
(ایسی خوبصورت نازک اندام کہ اسے دیکھتے ہوئے ڈر لگے، زلفوں کی گھٹا ایسی کہ بادل ان کے آگے پانی بھریں )
کاراں اتے جہازاں والے بھل گئے سب جھوٹے
قوس قزح وچ بہا کے مینوں حوراں دتے ہوٹے
(کاروں اور جہازوں کے سب جھولے بھول گئے، حوروں نے مجھے قوس قزح میں بٹھا کے جھولے دیے )
ہر کوئی مینوں جی جی بولے آکھے راج دلارا
میرے نال پروہنیاں ورگا اوہناں دا ورتارا
(ہر کوئی مجھے جی جی کہہ رہا تھا، مجھے راج دلارا کہہ رہے تھے، میرے ساتھ ان کا برتاؤ مہمانوں جیسا تھا۔ ٹھیٹھ پنجابی خاندانی نظام میں داماد کو بھی ’پروہنا‘ کہتے ہیں، اس نظریے سے بھی یہ مصرع موزوں ہے کہ میرے ساتھ ان کا برتاؤ داماد جیسا تھا)
میں پچھیا نی حورو اڑیو ”کاہنوں کھڑ کھڑ ہسو؟“
میری ایڈی خدمت خاطر، وچلی گل تے دسو۔
(میں نے پوچھا کہ حورو کیوں ایسے قہقہے مار ہنس رہی ہو، میری جو اتنی خاطر مدارت کی جا رہی ہے، مجھے اندر کی بات تو بتاؤ)
آکھن لگیاں ”بیبا، ایڈا پردہ کاہنوں پاناں؟“
جنت وچ الیکشن ہونائے، ووٹ اسانوں پاناں!
(کہنے لگیں اب ایسا بھی کیا پردہ رکھنا، جنت میں الیکشن ہونے والے ہیں، ووٹ ہمیں ڈالنا ہے )
دوم مولوی طارق جمیل صاحب کا بیان، اب تو مولوی صاحب کا سن لد گیا لیکن جوانی میں جو پاٹ ڈار آواز تھی ان کی، کیا ہی زبردست کاٹ تھی اس میں۔ مولوی صاحب اپنے خطاب میں حور کا نقشہ ایسا کھینچتے کہ کئی شوہروں کو یہ طعنے سننے کو ملے کہ اب یہ حوروں کے چکر میں ہے۔
سوم پاکستانیوں کے حصے میں آیا وہ مشہور لطیفہ تھا کہ ایک پاکستانی حاجی عرفات کی گرمی برداشت نہ کر سکے اور بے ہوش ہو گئے۔ عملہ ایمبولینس میں ڈال کے ہسپتال لے آیا۔ وہاں فلپائنی گوری نرسیں، سفید یونیفارم میں۔ حاجی صاحب کی آنکھ کھلی، سمجھے کہ عالم برزخ سدھار چکے ہیں۔ اٹھ بیٹھے۔ ٹھنڈا اے سی والا کمرہ، دائیں بائیں چلتی نرسیں، محترم سمجھے کہ جنت ٹھکانہ نصیب ہوا ہے تو شدت خوشی سے چلائے، واللہ ہذا جنت۔ نرسوں نے دیکھا تو سب ان کی طرف لپکیں، موصوف وہیں بیڈ ہی سے چلائے ایک ایک کر کے آؤ۔
پچھلے کچھ ایام سے تواتر کے ساتھ ہسپتال یاترا جاری رہی تو نرسوں کو دیکھ کے یہی لطیفہ یاد آتا رہا۔ شاید ہسپتال میں کام کا رش زیادہ تھا یا نرسیں ایک سی روٹین سے بیزار ہو چکی تھیں۔ مریض جتنا مرضی سسٹر سسٹر کہتا رہے ان کے اندر بہناپا آ کے نہیں دیتا۔ اسی سخت طریقے سے سوئیاں، ٹیکے لگائیں گی کہ دل کرتا ہے جس نے ان کے لئے یہ لفظ سسٹر نکالا تھا، اسے تو اس جہان سے نکالا جائے۔ اطہر شاہ خان جیدی کا وہ شعر (تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ) کیسا برمحل فٹ ہوا کہ:
آپ ہسپتال میں پڑے ہیں لیٹے رہیں سیدھی طرح
سسٹر کہنا ہو تو گھر سے سسٹر لانی چاہیے
جس دن یہ مضمون لکھ چکا تو اگلے ہی روز سسٹرز کا رویہ یکسر بدلا ہوا پایا۔ کمبل بھی لا کے دیا بلکہ باقاعدہ لپیٹا کہ سردی نہ لگے۔ سوئیاں لگانے سے قبل تسلی دی کہ معمولی سا درد ہو گا اور وہ کوشش کریں گی کہ ایک ہی ہلے میں سوئی مطلوبہ جگہ پہنچ جائے۔ ہر دوائی کی افادیت اور ٹیکے کی اہمیت پہ روشنی ڈالی۔ ایسا اچھا برتاؤ کہ پچھلے خیالات پہ تف بھیجنی پڑی۔ لیکن دماغ میں گرہ لگ گئی تھی کہ ایسی کایا پلٹ کیسے۔ رات کے کسی پچھلے پہر عقدہ کھلا کہ یہ وہ معاملہ ہوا ہے جو انور مسعود صاحب کے ساتھ سی ڈے اے کے عملے نے ان کا قطعہ شائع ہونے کے بعد کیا تھا:
تیری خواہش ہے اے میرے دشمن
عین جنگل میں مجھ کو شام پڑے
لے مری بد دعا بھی سنتا جا
جا تجھے سی۔ ڈی۔ اے سے کام پڑے
اس قطعے کی اشاعت پہ سی ڈی اے والوں نے انور مسعود صاحب کو کہا تھا کہ آپ پہ کیا ظلم ہو رہا ہے، ظلم تو ان پہ ہوا جن کے قطعات چھپ رہے ہیں۔ شکر ہے مضمون پبلش ہونے سے قبل ہی ہسپتال سے رخصت مل گئی، کیا معلوم اشاعت کے بعد وہ ہمیں نئے سرے سے تختہ مشق بناتیں۔ مثل مشہور ہے کہ : جان بچی سو لاکھوں پائے
- کل کا دن کیسا رہے گا - 02/10/2024
- تانا بانا - 02/09/2024
- زندگی کا رنگ - 29/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).