ہیپی نیو ائر
عموماً لوگ نئے سال کا آغاز وغیرہ دعاؤں، نیک تمناؤں سے کرتے ہیں۔ اچھی نیت کسی بھی کام کے آغاز کا ایک اچھا طریقہ ہے۔ ہمارے ہاں لیکن کچھ لوگ اب ہیپی نیو ائر کہتے ہوئے ڈبل مائنڈڈ ہو جاتے ہیں ایک طرف اس مبارکباد کی کوئی منطقی توجیح انہیں سمجھ نہیں آتی۔ پھر دوسری طرف انہیں خلش ہوتی ہے کہ ہجری سال کیا کہے گا۔ جس کے آغاز کا علم تو عموماً نو محرم کو ہی ہوتا ہے اور یہ سال کون سا چل رہا ہے وہ تو چیک کر کے بھی پانچ سات منٹ تک ہی یاد رہتا ہے۔ مگر فکر مت کریں اس کلچرل لمبو میں آپ تنہا نہیں ہیں۔
ویسے باقی لوگوں کے لیے بھی نیک جذبات کا عمومی لینڈ سکیپ اس دفعہ سکوت زدہ ہی تھا۔ بہت سے لوگوں نے سسکتی انسانیت سے یکجہتی ظاہر کرتے ہوئے مختلف قسم کی تقاریب سے احتراز و بائیکاٹ بھی کیا کیونکہ بہرطور سال 2023 میں انسان نے تمام تر اچھی تمناؤں کے باوجود نے سورج کے گرد ایک ناکام اور نامراد چکر پورا کیا ہے۔ صرف سورج ہی کی بات کریں تو پچھلے جولائی میں ایک لاکھ سالوں کا گرم ترین درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا ہے۔ (ناسا۔ جیس ٹیمپ۔ وی فور) GISTEMP v4 کہنے والوں کے بقول یہاں سے گلوبل وارمنگ کا اختتام اور گلوبل بوائیلنگ کا دور شروع ہوتا ہے۔ جس کی ایک نشانی جنگلی آگ کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور سیلابوں کی تباہ کاریاں ہیں۔ جس سے مجھے ڈے آفٹر ٹومارو کا یو این کانفرنس کا سین یاد آ گیا۔ لیکن سائنسدان حقیقتاً مایوس ہیں کہ یو این کے کوپ28 سمٹ میں ان کی تمام تر کوشش کے باوجود کسی خاطر خواہ منصوبہ بندی کی طرف پیش رفت ممکن نہیں ہو سکی۔
ایک طرف ماحولیاتی تبدیلیوں سے آنے والے سیلاب اور زلزلے انسانی جانوں کے زیاں کا باعث بن رہے ہیں۔ تو دوسری طرف سیاسی تنازعات ان سے بھی کہیں زیادہ مہلک ہیں۔ پچاس سے زیادہ علاقوں میں جاری تنازعات اور جنگ و جدل نے لوگوں کی جان مال معاشرت و ماحولیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یو این کے ایک ڈیٹا کے مطابق 2022 تک دس کروڑ کے قریب لوگ ان مسائل کی وجہ سے بے گھر ہوچکے ہیں۔ خصوصاً بچوں کو ان بحرانوں میں دور رس نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کی زندگیاں صحت، تعلیم اور پرامید مستقبل اس کی زد میں آتے ہیں۔
ایسے میں لوگوں کی اعانت کے لیے آئے دن مدد کی اپیلیں اور فنڈ اکٹھے کرنے کی مہمات جاری کی جاتی ہیں۔ عطیہ دہندگان کی مدد بہرحال اہم ہے کیونکہ کرائسس کی صورتحال میں وسائل ہی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ ریلیف ویب ( اکتوبر 2022) پر تین سو چار ملین ضرورت مند لوگ اور پینتالیس اپیلیں ریکارڈ کی گئیں۔ ان کی ضرورت کا تخمینہ قریبا پچپن بلین ڈالر تھا۔ اکتوبر کے آخر تک عطیہ دہندگان کی مدد سے اٹھارہ بلین ڈالر اکٹھے ہوئے۔ جبکہ اس وقت دنیا بھر میں نجی دولت چار سو چون ٹریلین ڈالر کے قریب ہے جس میں سے دو سو ٹریلین کے مالک دنیا کی آبادی کے ایک فیصد پر مشتمل ہیں یعنی قریبا ستر ملین۔ یہاں ایک فیصد آبادی ہزار ڈالر فی کس کے حساب سے حاصل ستر بلین بنتا ہے۔ لیکن اتنے سارے زیروز کی موجودگی میں۔ میں صریحا غلطی پر ہو سکتی ہوں۔
یو این کے انتونیو گوتریس نے دنیا کو نئے سال میں خوشی اور امن کی دعا دیتے ہوئے کہا۔ ”2023 بہت زیادہ مصائب، تشدد اور موسمیاتی افراتفری کا سال رہا ہے۔ انسانیت تکلیف میں ہے۔ ہمارا سیارہ خطرے میں ہے۔ بڑھتی ہوئی غربت اور بھوک سے لوگ پس رہے ہیں۔“ وغیرہ وغیرہ۔ اور ”اقوام متحدہ دنیا میں امن، پائیدار ترقی اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرتا رہے گا“ شاید ایک مختلف زمین پر یو این اور دعائیں اور پیغامات اچھی چیزیں ہو سکتی تھیں۔ یہاں تو زمینی حقائق ہی فرق ہیں۔
سنو گلوب میں تو وقت ٹھہرا ہوا تھا
شادماں خوبصورتی کے ساکت استعارے کا کامل منظر
ہاتھ کی ذرا سی جنبش سے سبک روی سے جھومتا تو
کانچ کے گلوب کی چھوٹی سی پینٹڈ دنیا میں دفن موسیقی بھی جاگ اٹھتی
سفید مٹی کے ذرے۔ برف کے گالے بن کر اڑنے لگتے۔
خواب ہوں گے۔
لیکن استعارہ ہاتھ سے چھوٹ کر گر گیا ہے
گولیوں اور بموں کے پھٹنے کے شور میں
گرتے منبروں کے ملبے سے ملنے والی آنکھوں میں
ہزاروں گلوبوں کی رنگ برنگی کرچیوں کی دمک ٹھہری ہوئی ہے
یا شاید آتش بازی وقت سے پہلے شروع ہو گئی ہے۔
ہمارے ہمدردوں کے دعائیہ پیاموں کی چھایا کے پیچھے
غاصب دہشت گروں کی محفل میں
نئے سال کی خوش گوار آمد کے غلغلے کے عقب میں
لاتعلق سامعین کی اسمبلیوں اور بے معانی کانفرنسوں کے ایوانوں میں بھٹکتا
عدالتوں کی اپیلوں اور انصاف کی قراردادوں کے پلندے کمر پر لادے
پرانا سال خامشی سے مر گیا ہے۔
انہی نعروں۔ دعاؤں اور اپیلوں کے دوران اکتیس دسمبر اسرائیل کی فلسطین پر جارحیت اور بربریت کا چھیاسیواں دن تھا۔ فلسطین کے اعداد و شمار کے مطابق صرف غزہ میں بائیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جن میں بچوں کو خصوصاً ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ جبکہ ابھی ہزاروں لاشیں تلے دبی ہوئی ہیں۔ اور ایک خبر کے مطابق اسرائیل مصر کے ساتھ غزہ کی پٹی کی سرحدی گزر گاہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے تک جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے۔
روئٹرز ہی کے مطابق اسرائیلی دائیں بازو کے اتحاد کے ایک وزیر نے اکتیس دسمبر کو غزہ کے فلسطینی باشندوں سے غزہ چھوڑنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا غزہ کی پٹی میں ہجرت کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ بیس لاکھ کی بجائے لاکھ دو لاکھ عرب رہ جائیں تو بحث ہی مختلف ہو جائے گی۔ اسے فلسطینیوں کے انخلا کے بعد صحرا میں پھول کھلانے کی تمنا ہے۔ یاد رہے کہ یہ ”صحرا“ کسی بھی بڑے امریکی شہر سے زیادہ گنجان آباد ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق یہ چودہ ہزار افراد پر مربع میل ہے۔
بموں کو از خود تو شہری آبادی میں تفریق کرنا نہیں آتا اس لیے ممکن بھی ہے کچھ اور روز میں یہ گنجان آباد علاقہ پہلے ملبے کا ڈھیر پھر ویرانہ اور پھر صحرا بن جائے۔ ٹھیکیدار اور پٹواری تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ اس دوران جنگ کی تباہ کاریوں سے ماحول مزید ابتر ہو جائے گا۔ سائنسدان نئے منصوبے بنانے میں مصروف ہوجائیں گے۔ اس اثنا میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو امداد دینے کے لیے مزید بے گھر افراد مل جائیں گے۔ عورتوں اور بچوں کی بحالی کے پروگرام ترتیب دیے جا رہے ہوں گے ۔ ہم سب مل کر ”اعتماد کی بحالی اور امید کی فراہمی“ کے لیے کام کرتے ہوئے 2024 کو ایک مثالی سال بنانے کے لیے کوشاں رہیں گے۔
بلند برج تعمیر کرنے والے شاید اپنے گوشوارے مسلسل اپڈیٹ کر رہے ہیں
ممکن ہے نئے آسائشی گھروں اور دفتروں کی پری بکنگ کھل چکی ہو۔
لیکن یاد رکھو۔ کچھ دنوں میں کوئی بھی باقی نہ رہا تو ۔
تم یہاں جو ہزاروں کھڑے ہو۔ اس دن یونہی مت ہار جانا۔
غم گرفتہ دل سے گو فنڈ می پر اپیل لکھنا۔
ساتھیو! سارے زندہ درگور لوگو!
تمہیں علم ہے ہمارے اپنے، ہمارے پیارے اس زمیں پر مر چکے ہیں۔
یہاں کے ذرے ذرے پر ان کا لہو بہا ہے۔
پیسے جوڑو۔ ہم خریدیں گے ان کی بے نام قبریں۔
اب یہ واجب ہے ہم پر ۔ ایک طرح سے خوں بہا ہے۔
ان گھروں اور دفتروں میں کچھ کہ شاید بر لب سمندر بنیں گے۔
مغربی بالکنی میں ٹہلتے ممکن ہے تمہیں لگے کہ
بجھتی سی بارود کی بو میں مانوس گھروں کی خوشبوئیں چھپی ہیں۔
ہوا کے دوش پر عورتوں اور بچوں کی چیخیں گونجتی ہیں۔
تم غلط سمجھ رہے ہو یہ ان کے زخموں سے بہتا لہو نہیں ہے۔
نہ آنکھ کی سفیدی میں حسرتیں جمی ہیں۔
پانی پر چاند سوسن ہے۔ غروب آفتاب لالہ۔
فضا میں جنت کے پرندوں کی کھلکھاہٹیں رچی ہیں۔
یہاں مجھے ترک ایم پی حسن بٹمیز کا آخری خطاب یاد آ رہا ہے : ”اگر ہم خاموش بھی رہے تو تاریخ خاموش نہیں رہے گی۔ اگر تاریخ بھی خاموش رہی تو بھی سچ خاموش نہیں رہے گا۔ اگر تم اپنے ضمیر کے عذاب سے بچ گئے تو تاریخ کے عذاب سے نہیں بچو گے۔ اور اگر تاریخ کے عذاب سے بچ نکلے تو اللہ کے غضب سے نہیں بچو گے۔ (سامی العریان ٹویٹر پوسٹ) ۔“
- عزم پاکستان سیل۔ ففٹی پرسنٹ آف - 25/08/2024
- سے نو ٹو لائبریری - 09/08/2024
- جسمانی صحت اور ایل سی ڈی - 06/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).