جمہوریت غلاموں کے لئے نہیں ہوتی
انتخابات ہوئے اور اب کچھ ہی دیر میں نتائج مکمل ہو جائیں گے۔ پہلے تیزی سے نتائج آ رہے تھے اور آزاد امیدوار (یعنی وہ امیدوار جنہیں زبردستی آزاد امید وار بنایا گیا تھا۔ ) حاوی نظر آ رہے تھے۔ جوں جوں رات کی تاریکی بڑھنی شروع ہوئی نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سب حیران پریشان کہ کیا ہو رہا ہے؟ نتائج کے فارم سلیمانی ٹوپی اوڑھ کر کہاں چلے گئے۔ پھر پتہ چلا کہ فرض شناسی کے جذبہ سے مجبور ہو کر مرکزی الیکشن کمیشن نے نتائج منگوانے شروع کر دیے ہیں کہ اب وہ نتائج کا اعلان کریں گے۔
بہر کیف کسی کی دعائے نیم شبی کا اثر تھا کہ امداد غیبی کا کہ نتائج کا رخ کچھ تبدیل ہونا شروع ہوا۔ اور پولنگ بند ہوئے چوبیس گھنٹے سے بھی زیادہ گزر گئے ہیں اور ابھی بھی کچھ نتائج آنا باقی ہیں۔ یہ بھی مکمل ہو جائیں گے۔ آخر جلدی کیا ہے؟ پہلے بھی تو ہم نے کئی مرتبہ ’مثبت نتائج‘ کے انتظار میں لمبا انتظار کیا ہے۔
کچھ جلد باز نوجوان اور تجزیہ نگار تلملا رہے ہیں کہ اس تاخیر نے ان انتخابات کو متنازع کر دیا ہے۔ اصل میں ان معترضین نے جمہوریت کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ’جمہوریت‘ نام کی چڑیا کا آغاز ایتھنز سے ہوا تھا۔ یہ ریپبلک اتنی جمہوری تھی کہ ہر اہم فیصلہ کے لئے تمام شہری ایک مقام پر جمع ہوتے اور ووٹ ڈال کر فیصلہ کرتے۔ لیکن ذرا ٹھہر جائیں کیا اس عظیم جمہوریت میں تمام شہری ووٹ ڈالتے تھے؟ ایسا نہیں تھا۔ اس شہر میں غلاموں کی اتنی ہی تعداد موجود تھی جتنی تعداد میں ایتھنز کے آزاد شہری موجود تھے۔ لیکن انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت تو نہیں تھی۔ یہ غلام گھر میں ان آقاؤں کے گھروں کو صاف کرتے، کھانے تیار کرتے اور جب یہ جمہوریت کے علمبردار آقا گھر آتے تو ان کی خدمت کرتے۔
یہ سوچ کہ غلاموں کے جمہوری حقوق نہیں ہیں صرف چند ظالموں تک محدود نہیں تھی بلکہ دنیائے علم کہ وہ بڑے نام جن کو دنیا آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے انہی خیالات کا پرچار کر رہے تھے۔ ارسطو نے اپنی کتاب ’سیاست‘ میں لکھا کہ یہ غلام قدرتی طور پر غلام ہیں اور انہیں اسی حالت میں رہنا چاہیے۔ اور ان کے آقا قدرتی طور پر آقا پیدا کیے گئے ہیں اور انہیں آقا ہی رہنا چاہیے۔ ان غلاموں میں اتنا شعور نہیں ہوتا جتنا ان کے مالکوں میں ہوتا ہے۔ اس لئے ان کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ غلام ہی رہیں۔ اس طرح معاشرے میں تعاون قائم رہے گا۔
یہ تو قبل مسیح دور کی بات ہے۔ اٹھارہویں صدی کی بات کرتے ہیں۔ 1789 میں انقلاب فرانس کا ہنگامہ برپا ہوا۔ بادشاہ اور ملکہ کی گردنیں اڑا دی گئیں۔ بادشاہت ختم کر دی گئی۔ انسانی حقوق کے اعلامیہ کا اعلان ہوا۔ یہ اعلامیہ ان الفاظ سے شروع ہوتا تھا کہ تمام انسان برابر پیدا ہوئے ہیں اور ان کے مساوی حقوق ہیں۔ یہ خیال کیا جائے گا کہ کم از کم فرانس کے لوگوں کو یہ نقطہ سمجھ آ گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد بھی ڈیڑھ صدی سے زائد عرصہ تک جمہوری فرانس نے ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک کو اپنا غلام بنائے رکھا گیا۔ بادشاہوں کی گردن اڑانا آسان کام تھا لیکن اپنی غلام اقوام کو آزاد کرنے اور انہیں اپنے برابر کا انسان سمجھنے کو جمہوری فرانس تیار نہیں تھا۔ جمہوریت فرانس کے لوگوں کے لئے تھی ہم جیسے کالے لوگوں کے لئے نہیں تھی۔
میگنا کارٹا کے بعد انگلستان میں تو جمہوریت قائم ہو گئی۔ لیکن یہ خوبصورت باتیں انگریزوں کے لئے تھی۔ اسی جمہوری انگلستان نے برصغیر سمیت آدھی دنیا کو اپنا غلام بنائے رکھا لیکن جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو یہ نعرے لگائے کہ ہم جمہوری اقدار کی حفاظت کے لئے یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے جمہوریت انگریزوں کے لئے تھی برصغیر اور افریقہ کے غلاموں کے لئے نہیں۔
جس وقت خاکسار یہ کالم لکھ رہا ہے۔ ٹی وی پر تجزیہ نگار یہ بحث کر رہے تحریک انصاف کے جو ممبران آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے ہیں وہ اپنی پارٹی سے وابستہ رہیں گے یا دائیں بائیں ہو جائیں گے۔ آج اکانومسٹ کی خبر کی سرخی یہ تھی
Confusion reigns in Pakistan ’s rigged election
یعنی ’پاکستان کے دھاندلی زدہ انتخابات میں الجھاؤ کا راج‘ اور اس کے نیچے لکھا ہے
Despite their strenuous efforts, the generals appear much less in control than they thought
یعنی اپنی پوری کوششوں کے باوجود جرنیلوں کی گرفت اس سے بہت کم نظر آ رہی ہے جتنا ان وہ گمان کیے بیٹھے تھے۔
اور اس وقت صافی صاحب جیو نیوز پر کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون بھی اتنا آزاد نہیں ہیں جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔ اب آپ سوچیں گے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پاکستان میں کون سی جمہوریت ہے؟ تو عرض ہے کہ تاریخ کی گواہی ہے کہ جمہوریت غلاموں کے لئے نہیں ہوتی۔ اس کو حاصل کرنے کے لئے پہلے ذہنی آزادی حاصل کرنی پڑتی ہے۔ اور آزادی بھیک میں نہیں ملتی۔ پہلے اپنے ذہنوں کو اس سوچ سے آزاد کرنا پڑتا ہے کہ یہی غلامی ہمارا مقدر ہے۔
- ٹرمپ صاحب کی ’میں‘ اور غزہ کا گالف کورس - 07/02/2025
- علمائے دیوبند اور مسلم لیگ: ایک موازنہ اور پورا سچ - 31/01/2025
- کیا زندگی میں روح جسم سے علیحدہ ہو سکتی ہے؟ - 19/01/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).