”متنازعہ“ انتخابات۔ خلاف توقع نتائج


بالآخر عام انتخابات کا عمل مکمل ہو گیا انتخابی عمل کی تکمیل کی بڑی مشکلات حائل تھیں ممکنہ دہشت گردی کے واقعات نے سیاسی ماحول کو بے رونق بنا دیا تھا۔ رہی سہی کسر پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ کی عدم موجودگی نے نکال لی انتخابی گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آئی جو عام انتخابات کا لازمی جزو ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کا پورے انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا رونا دھونا بھی رہا۔ بلے کا نشان نہ ملنے کے باوجود اپنے کھلاڑی میدان اتار دیے یہ جانتے ہوئے کہ پی ٹی آئی کو اقتدار نہیں ملے گا۔

عمران خان نے مسلم لیگ (ن) سے بھی زائد امیدواروں کی حمایت یافتہ کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیے جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے لئے خوف کی علامت بنے رہے۔ پی ٹی آئی نے حمایت یافتہ امیدواروں کی واضح کامیابی کے باوجود عام انتخابات میں نتائج تبدیل کرنے الزامات عائد کیے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار انتخابات کے متنازعہ ہونے کا فتویٰ جاری کر کے اپنی سیاسی سوچ کو تسکین پہنچاتے رہے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی واضح کامیابی نے جہاں پی ٹی آئی کی سیاسی دھاک بٹھا دی ہے وہاں اتنی بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی کامیابی انتخابی عمل کی شفافیت کی توثیق کر دی ہے۔ انتخابات میں پی ٹی آئی کے بیشتر حمایت یافتہ امیدواروں کو انتخابی مہم نہ چلانے کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ بعض آزاد امیدوار اپنے پولنگ ایجنٹوں کا انتظام نہیں کر سکے لیکن ان کے بیلٹ بکس بھرے نکلے 8 فروری 2024 کو پی ٹی آئی کا ووٹر نکلا اس نے بڑے بڑے برج الٹ دیے عام انتخابات میں خلاف توقع نتائج پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سر پکڑ کر بیٹھ گئی ہے۔

پی ٹی آئی کی قیادت کے پچھلے دو سال سے زیر عتاب بیشتر رہنما پارٹی کو داغ مفارقت دے گئے ہیں۔ آزاد امیدواروں کی رہائش گاہوں پر آئے روز چھاپے مارنے کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو قیادت اور بلے سے محروم کے باوجود پی ٹی آئی کو کوئی فرق نہیں پڑا اس کے ووٹ بینک میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کے ناراض کارکن اپنے گھروں سے ایسے نکلے کہ کھمبوں کو کامیاب کر نے کی روایت زندہ کر دی اتنی بڑی تعداد میں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آزاد امیدواروں کو اتنی کامیابی حاصل نہیں ہوئی جتنی 8 فروری 2024 ء کے انتخابات میں حاصل ہوئی تمام سیاسی تجزیہ کار انتخابی نتائج پر حیران و ششدر رہ گئے ہیں۔

اکثر و بیشتر سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) واحد اکثریتی جماعت نہیں بن کر ابھرے گی۔ تاہم وہ وفاق میں آسانی سے 100، 115 نشستیں حاصل کر لے گی لیکن سر دست وہ آزاد امیدواروں کے مقابلے میں دوسرے نمبر ہے۔ سب سے زیادہ اپ سیٹ پنجاب میں ہوا جو مسلم لیگ (ن) کا پاور بیس تصور کیا جاتا تھا۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے مسلم لیگ (ن) سے متعدد نشستیں چھین لیں جب کہ پیپلز پارٹی بھی پنجاب میں بری طرح پٹ گئی تاہم اس نے سندھ کی حد تک اپنے آپ کو محفوظ کر لیا ہے۔

سندھ میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے اپنی کچھ نشستوں کو برقرار رکھا ہے۔ مجموعی طور پورے ملک میں ووٹر ٹرن آؤٹ بہت زیادہ رہا اس کی بھی پاکستان کی انتخابی تاریخ میں خال خال مثال ملتی ہے۔ کہا جاتا تھا۔ پی ٹی آئی کا کارکن اپنے قائد کو اوپر تلے 31 سال سزا ہو جانے پر احتجاج کے لئے نہیں نکلا عمران خان کے جیل میں سرکاری مہمان بنائے جانے کے بعد پی ٹی آئی کا کارکن دلبرداشتہ ہو گیا ہے۔ اس لئے باہر نہیں نکلے گا۔

جیل ہو جانے پر عمران خان ایک مظلوم لیڈر کے طور پر سیاسی افق پر نمودار ہوا لیکن پی ٹی آئی کے ناراض کارکن نے الیکشن ڈے پر نکل کر ووٹ کے ذریعے اپنے غصے کا اظہار کر دیا عام انتخابات میں دو کروڑ سے زائد نوجوان ووٹر شامل ہوئے ہیں جس نے انتخابی نتائج کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ پی ٹی نے 2018 ء کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر کامیابی حاصل کی جب کہ 2024 ء کے انتخابات میں اس کے پاس کارکردگی نام کی کوئی چیز نہیں تھا۔

کل تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا جو نعرہ نواز شریف کے پاس تھا۔ اسے پی ٹی آئی نے اپنا لیا لاہور مسلم لیگ (ن) کا لینن گراڈ تھا۔ اس میں شگاف ڈال دیے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کا حلقہ این اے 130 جو انتہائی محفوظ حلقہ تصور کیا جاتا ہے۔ نواز شریف ایک خاتون قیدی کے مقابلے میں بمشکل کامیاب ہوئے جن علاقوں میں کے پی سے نقل مکانی کر کے آنے والے ووٹر آباد ہیں۔ نے بھی پی ٹی آئی کے امیدواروں کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا یہ بات قابل ذکر ہے۔

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی کامیابی کا جشن منانے والوں میں بھی یہی ووٹر پیش پیش تھے۔ تاحال جمعیت علما اسلام کو عام انتخابات میں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمنٰ انتخاب ہار گئے ہیں۔ عام انتخابات میں جماعت اسلامی کا کوئی امیدوار قومی اسمبلی کا رکن منتخب نہیں ہوا تاہم جماعت اسلامی کے ووٹ بینک میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ شاید اس انتخاب میں بھرپور حصہ لے کر جماعت اسلامی اپنے ووٹ بینک بارے میں جاننا چاہتی تھی۔

اس الیکشن میں آزاد امیدواروں کی بہت بڑی تعداد میں کامیابی سے ان کا ملکی سیاست میں کردار بڑھ گیا ہے۔ یہ کامیاب امیدوار اپنی نئی جماعت بھی بنا سکتے ہیں۔ ان کو مسلم لیگ (ن) میں شامل کرانے کی کو شش کی جائے گی۔ وہ پیپلز پارٹی کی پارلیمانی قوت میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کتنے حمایت یافتہ منتخب ارکان قومی اسمبلی اپنے حلف پر قائم رہتے ہیں۔ ارکان کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے ایک دو روز بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔

بہر حال پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو کر اس کی خصوصی نشستوں میں تو اضافہ کر سکتے ہیں لیکن خود پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتی نشستوں سے ایک بھی نشست حصہ نہیں لے سکے گی۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی خواتین اور اقلیتوں کی کم و بیش تمام حاصل کر لے گی۔ انتخابی نتائج کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی مل کر پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کے کردار کو محدود بھی کر سکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں دوریاں ہونے باوجود اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے مخلوط حکومت بنا سکتی ہیں۔

اگر مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر سیاسی بحران پیدا کر سکتی ہیں۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے۔ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے لئے نیشنل یونٹی کی حکومت کی داغ بیل رکھ دی جائے نواز شریف اور آصف علی زرداری کیا سوچ رہے ہیں۔ فی الحال ان کے آئندہ لائحہ عمل بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں چند دن انتظار کرنا پڑے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments