ارسطو کے نظریہِ دو رنگی سے جیمز ویب کی تکثیریت تک


Loading

انسانی شعور نے کرہ ارض پر سب سے پہلے جس مظہر کا مشاہدہ کیا وہ دن اور رات تھے۔ آدھا وقت دن کی روشنی اور آدھے وقت رات کے اندھیرے نے انسانی سوچ کو بھی ثنویت (ڈیولزم) کی طرف راغب کیا۔ روشنی سے وابستہ اچھائی اور اندھیرے سے برائی کے تصور نے بعد میں مختلف اعتقادات کو جنم دیا۔ ابتدائی مذاہب و عقائد خاص طور پر زرتشت عقائد میں نیک و بد کے دوہرے پہلو کی خاص اہمیت نظر آتی ہے جو اس کے بعد کے مذاہب میں بھی راسخ رہی۔

دن اور رات کے مظہر کی تشریح نے سورج اور چاند کی تقدیس کو الوہیت کے درجے پر متمکن کر رکھا تھا۔ بتدریج سورج دیوتا کی پوجا کرنے والے کاہنوں اور پجاریوں کے مشاہدے میں یہ بات آنے لگی کہ رات کی تاریکی اور سورج چاند کی روشنی ایک فطری عمل ہے جس میں سورج اور چاند کا اپنا کوئی عمل دخل نہیں تو ایک اور بالا تر طاقت کا تصور ابھرا۔ چاند اور سورج سے سے بالا تر اس طاقت کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والوں نے زمین پر اپنی حکمرانی کے جواز کے طور پر کرہ ارض کو مرکز کائنات قرار دیا۔ جب معلوم ہوا کہ زمین آسمانوں پر براجمان دیوتاؤں کا مرکز نگاہ نہیں بلکہ خود ایک سیارہ ہے جو اپنے مدار میں سورج کے گرد گھوم کر دن رات اور ماہ سال کی گردان پوری کرتا ہے تو اس انکشاف پر گلیلیو معتوب ہوا۔

سارے رنگوں کا ماخذ سیاہ و سفید دو ہی رنگوں کے ہونے کا نظریہ عہد عتیق میں ارسطو سے منسوب ہے۔ رنگوں کی حد تک یہ بات فی زمانہ غلط بھی نہیں تھی کیونکہ سفید رنگ پر کسی بھی رنگ کو چڑھا یا جا سکتا ہے اور سیاہ رنگ پر کوئی رنگ ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ سب اس میں جذب ہو جاتے ہیں۔ ارسطو کے اس دو رنگی نظریے کو الہامی و غیر الہامی مذاہب میں بہت سراہا گیا ہے۔ بعض مذہبی مدارس میں آج بھی اس ارسطوئی منطق کو بطور نصاب پڑھایا بھی جاتا ہے۔

قدیم تصورات میں کائنات کی تخلیق سے لے کر اس کے اختتام تک نیکی اور بدی کی حامل دو قوتوں کا کردار نظر آتا ہے۔ نیکی اور بدی کے تصور کے شواہد تقریباً عہد رفتہ کی ہر تہذیب میں نظر آتے ہیں۔ ابراہیمی مذاہب کے علاوہ وحدانیت کے اولین تصورات رکھنے والے زرتشتیوں، وحدت الوجود کے ماننے والوں اور مشرکین سب کے ہاں نیکی و بدی کے تصورات یکساں طور پر پائے جاتے ہیں۔

نیک و بد کی تقسیم نے جہاں انسانوں کو انفرادی طور پر نیکی کی ترغیب اور برائی سے اجتناب میں مدد دی ہے وہاں اجتماعی زندگی میں گروہ بندی کا شکار بھی کر دیا ہے۔ ایک جیسے خیالات، تصورات اور عقائد نہ رکھنے والوں کو بدی کے خانے میں رکھ کر ان سے نفرت کا شعار بھی اسی تقسیم کا دین ہے۔

سیاہ و سپید میں منقسم انسانی سوچ نے ایک ایسے سماج کو تشکیل دیا جہاں لوگ اپنے ہوتے ہیں یا پرائے۔ لوگ صرف اچھے یا برے ہوتے ہیں۔ کچھ جانور حرام اور کچھ حلال ہوتے ہیں۔ کچھ اشیا خوش بختی اور کچھ بد نصیبی کا استعارہ ہوتی ہیں۔ یہ تقسیم خالق کے تصور میں بھی تقسیم کا موجب ہوتی ہے۔ گناہ اور ثواب کے خالق بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ اس دوہری سوچ کو علما فلسفہ ڈیولزم یا ثنویت کہتے ہیں۔

دور بین ایجاد کر کے معبدوں میں معتوب ٹھرا گلیلیو گلیلی 1642 میں وفات پا چکا تو اگلے سال 1643 میں آئزک نیوٹن پیدا ہوا جس نے انکشاف کیا کہ بظاہر سفید نظر آنے والی روشنی دراصل کئی رنگوں کا مجموعہ ہے۔ روشنی کے مختلف رنگوں کے تجزیے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ہر رنگ ایک مخصوص کیمیائی مادے کا مظہر ہوتا جس سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی یا گزرتی ہیں۔

نیوٹن کے روشنی کا مختلف رنگوں کا مجموعہ ہونے کے انکشاف کے بعد قوس و قزح یا دھنک جو اس پہلے صرف تخیلاتی اہمیت کی حامل تھی جس کو آسمان اور زمین کے درمیان پل سے بھی تعبیر کیا جاتا تھا اب محض فضا میں موجود بارش کے قطرات کا عکس ثابت ہوئی۔

کچھ سال پہلے جیمز ویب کے نام کی ایک بہت ہی طاقتور دوربین خلا میں بھیج دی گئی ہے جو بظاہر سفید نظر آنے والی روشنی میں دیگر رنگوں کو الگ الگ پہچاننے اور ان رنگوں کے تجزیے کی صلاحیت کی حامل ہے۔ اس دور بین کے ستاروں، کہکشاؤں اور ان میں موجود نظام ہائے شمسی سے نکلنے والی روشنی کی ہیئت کے تجزیے نے خلائی سائنس میں ایک نئے دور کا آغاز کر دیا ہے۔

خلا کے بارے میں ایک اور نئی بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ خلا کا 27 فیصد سیاہ مادہ پر مشتمل ہے جہاں 68 فیصد منفی توانائی موجود ہے جن کے بارے میں انسان کچھ نہیں جانتا ماسوائے پانچ فیصد ستاروں سے نکلنے والی روشنی کے۔ با الفاظ دیگر پچانوے فیصد کائنات اب بھی انسانی نظروں سے اوجھل ہے جس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاتا۔ ایک ایسی دریافت کا انتظار ہے جو پچانوے فیصد کائنات پر پڑے پردے کے پیچھے سربستہ راز انسانی شعور پر افشا کردے۔

کائنات میں موجود 68 فیصد منفی توانائی کے بارے میں ابھی تک جو کچھ معلوم ہوا ہے وہ نہایت ہی قلیل مگر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ چاند پر بھیجے انسانی مشن نے وہاں امریکی پرچم کے ساتھ شعاعوں کو منعکس کرنے والا ایک آئینہ (ریفلیکٹر) بھی رکھا ہے جو زمین سے ایک طاقتور لیزر گن سے بھیجی شعاؤں کو منعکس کرتا ہے۔ زمین سے چاند پر رکھے آئینہ کو شعائیں بھیجنے والوں نے بتایا کہ ان ساٹھ سالوں میں چاند اور زمین کے درمیاں فاصلہ کچھ انچ بڑھ گیا ہے۔ اس انکشاف اور دیگر معلومات کی بنیاد پر یہ اخذ کیا گیا ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے جس کا سبب یہاں موجود 68 فیصد منفی توانائی ہے۔

ابھی تک آئین سٹائن کی کشش ثقل کی بنیاد دریافت ہوئی مثبت توانائی کا ہی تصور ہے جس کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ مگر جب کائنات کے پھیلاؤ کا موجب بننے والی منفی توانائی کی حقیقت معلوم ہوگی تو کیا کچھ ہونے والا ہے اس کا تصور بھی ابھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں مگر ایک بات یقینی ہے کہ نئے حقائق انسانی تصورات اور کائنات کے بارے میں پہلے سے موجود نظریات و عقائد ضرور بدل دیں گے۔

دو خون ریز عالمی جنگوں اور خونی انقلابات کے بعد بیسویں صدی میں ہی پرامن بقائے باہم کا کلمہ گونج اٹھا۔ کرہ ارض کی بقا کے لئے یہاں دریاؤں، بدی نالوں، میدانوں، صحراؤں، پربتوں، ساحلوں کی موجود گی لازمی ہے تاکہ خوراک کی زنجیر میں بندھے تمام جانداروں کی بقا ممکن ہو سکے اسی طرح تمام رنگ نسل، عقائد، نظریات اور اعتقادات کی موجودگی ہی یہاں انسانوں کی بقا کی ضامن ہے۔

جس طرح ہم کائنات میں موجود 68 فیصد منفی توانائی اور 26 فیصد سیاہ مادے کے بارے میں لاعلم ہیں اسی طرح ہر سماج میں رہنے والے دیگر دنیا کے بارے میں لاعلم رہے ہیں۔ جیمز ویب نام کی دوربین جیسے روشنی کا تجزیہ کر کے کائنات کے بارے میں انسانی تصورات بدل ہی ہے اسی طرح انٹرنیٹ بھی معلومات تک رسائی کو ممکن بنا کر دنیا کے بارے میں انسانی سوچ پر پڑے دبیز پردے ہٹا رہا ہے۔ معلومات تک رسائی کے بجائے معلومات کی فراہمی کی تک و دو نے فی الحال فضائی کو گنجلک بنا رکھا ہے مگر بہت جلد اس میدان میں بھی کوئی جیمز ویب نظریات، خیالات اور تشریحات کا استنباط کر کے انسانی سماعتوں اور بصارتوں سے مخفی علمی و عقلی خزائن کو آشکار کردے گا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 286 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments