ٹیڑھا لگا ہے قط، قلم سرنوشت کو


(نوٹ : ادارہ تالیف و ترجمہ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور میں پروفیسر زاہد منیر عامر کی طرف سے میرے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا، اس تقریب میں پڑھی گئی تحریر پیش کر رہا ہوں۔)

میرے لیے یہ ایک خاص الخاص لمحہ، بلکہ نادر و نایاب لمحہ ہے۔ میری سبک دوشی پر منعقد کی گئی یہ تقریب کئی لحاظ سے نادر و نایاب ہے۔ یہ کسی اور زمان و مکان میں بھی ہو سکتی تھی مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ اور اس لیے بھی نادر و نایاب ہے کہ الوداعی تقریب میں صاحب تقریب کو جس توجہ اور انہماک سے سنا جاتا ہے، وہ کسی اور موقع پر نہیں۔ اس نادر موقع پر میں کچھ دل کی باتیں آپ سب کے سامنے کرنا چاہتا ہوں۔
مجھے حادثات، اتفاقات اور تقدیر نے استاد اور نقاد بنایا۔ مجھ میں مصنف بننے کے کچھ جراثیم اور آثار سولہ سترہ سال کی عمر میں ظاہر ہونے لگے تھے ؛ مجھ پر تنہائی اور افسردگی کا غلبہ رہنے لگا تھا ؛ میں تصورات کی دنیا کی سیر پر چل پڑا تھا اور اس سب کو ظاہر کرنے کی سعی کرنے لگا تھا مگر یہ کہ میں ایم اے اردو کروں گا، زبان و ادبیات کی تدریس کروں گا اور تنقید لکھوں گا، یہ دونوں باتیں میرے وہم و گمان میں کبھی نہ آئی تھیں۔
میں سائنس کا طالب علم تھا اور اس کے کسی ڈسپلن ہی میں جانا چاہتا تھا۔ مجھے ریاضی سے از حد لگاؤ تھا۔ لیکن مجھے تقدیر ایم اے اردو میں لے آئی۔ جب میں نے ایم اے کا مقالہ وزیر آغا بہ طور نثر نگا ر مکمل کر لیا تو میرے نگران ڈاکٹر احسن زیدی مرحوم نے مجھے کہا کہ اگر میں نے تنقید نہ لکھی تو خود پر ظلم کروں گا۔
انھی دنوں میرے کچھ افسانے کچھ ڈائجسٹوں میں شائع ہوئے۔ ایک افسانہ میرے ایک استاد کی نظر سے گزرا تو انھوں نے میری فہمائش کی :کیا فضول چیزیں لکھتے ہو، کچھ سنجیدہ لکھو۔ یوں ایک استاد کے اصرار اور دوسرے کی فہمائش نے مجھے تنقید لکھنے پر مائل کیا۔ مقالہ لکھنے کے دوران وزیر آغا سے ملاقاتیں شروع ہوئیں تو انھوں نے بھی مجھے تنقید لکھنے کی ترغیب دی۔
ہمارے دل اپنے بڑوں اور پیش رووں کی باتوں میں ضرور آ جایا کرتے ہیں، مگر کچھ دیر کے لیے۔
ہمارے دلوں میں جس جگہ بڑوں کے لیے احترام کے جذبات ہوا کرتے ہیں، اس کے آس پاس ہی کہیں ہماری وحشت کا خطہ واقع ہے۔
ہماری زندگیوں کے ڈھب کے آخری فیصلے، وحشت کے اسی خطے میں ہوا کرتے ہیں۔
جس کام کو ہم عمر بھر پوری دیانت داری سے اور اپنی ساری بساط کے ساتھ انجام دیے چلے جاتے ہیں، وہ صرف وہی ہوتا ہے، جس کی تائید ہمیں اپنی وحشت، اپنی روح اور ان دونوں کی اپنی منطق سے ملتی ہے۔
یہ الگ بات کہ آدمی پر آس پاس کی دنیا کا غلبہ جلد ہو جایا کرتا ہے مگر اس کی اپنی ہی وحشت و روح کی منطق، اس پر جلد نہیں کھلتی۔
لیکن جب آدمی ان کی منطق سمجھ لیتا ہے اور اس کے مطابق جینے لگتا ہے تو بے خوف، بے پروا اور پر اعتماد ہو جایا کرتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ ہر دل کی اپنی وحشت ہے اور ہر روح کی اپنی منطق ہے، جسے وہ اپنے انتخاب، اپنے فیصلوں اور اپنے مستقل مشاغل و مصروفیات میں ظاہر کرتی ہیں۔
اگر آدمی کے فیصلوں میں پیش رووں اور بڑوں کا محض خوف آمیز احترام موجود ہے، اور آدمی کی اپنی وحشت و روح کی منطق و تائید شامل نہیں تو وہ ایک سطحی اور کئی بار جعلی زندگی بسر کرتا ہے۔
ایک مختصر و فانی زندگی کا ایک لمحہ بھی جعلی گزرے تو یہ بڑے خسارے کی بات ہے!
میرے دل میں ایک ٹیڑھ، ایک کجی، ایک عجب قسم کی ضد اور ایک ناقابل بیان وحشت تھی۔ اب بھی ہے۔ ان چاروں اور ان کی اپنی اپنی منطق نے مجھے استاد اور نقاد کے طور پر عمر بسر کرنے کے قابل بنایا۔ میں پلٹ کر افسانے کی طرف آیا تو اس کا محرک بھی یہی وحشت تھی۔
اپنا تو یہ حال رہا ہے :
ہوں منحرف نہ کیوں رہ و رسم ثواب سے
ٹیڑھا لگا ہے قط، قلم سرنوشت کو
میری ساری کہانی ٹیڑھے قط کے قلم سے لکھی گئی ہے۔ اس کہانی کا یہ ایپی سوڈ۔ قبل از وقت ریٹائر منٹ۔ بھی اسی ٹیڑھے قط سے لکھا گیا ہے۔
تقدیر اور اتفاقات کے جبر کے باوجود دنیا کو اپنی نظر سے دیکھنے، اپنی منشا کے مطابق برتنے اور اپنے طریقے اور سوالات تشکیل دینے کی مجھے ضد رہی ہے۔
میں جس ادارے سے دو دہائیوں تک وابستہ رہا ہوں، وہاں اس کجی، ٹیڑھ، ضد اور وحشت کے اظہار کی گنجائش کم تھی، لیکن میں نے یہ گنجائش پیدا کی۔ اس ادارے کی واقعی ایک قابل فخر، عالمی معیار کی علمی روایت ہے۔ اس روایت کا بڑا حصہ کلاسیکیت و مشرقیات ہے۔ میں نے علمی روایت کے وقار اور رسمیات پر کوئی حرف نہیں آنے دیا مگر موضوعات و مسائل و سوالات خود منتخب کیے۔ میں نے جس گنجائش کا ذکر کیا ہے، وہ انھی موضوعات و مسائل و سوالات سے متعلق ہے۔
میں نے کئی باتوں میں سیکڑوں لوگوں سے زندگی میں اتفاق کیا، مگر ہزاروں باتوں میں دوسروں سے اختلاف کیا۔ تاہم دلیل اور شائستگی کو عمر بھر مقدم رکھا۔
رمز و آئرنی تو میری تنقید میں جابجا ہے، طعن و طنزو تڑاق پڑاق قسم کی تردید تردید شاید ہی کہیں ہو۔
میں نے روایت، کینن، مقبول بیانیوں کو تاریخی سیاق میں کھنگالا۔ اس بات کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی کہ روایت اور کینن تاریخ کے چاک پر بنتے ہیں ؛ وہ ابدی، آفاقی نہیں ہوتے، مگر انھیں ابدی و آفاقی ہی نہیں مقدس بھی سمجھا جانے لگتا ہے۔
تاریخی طور پر وجود میں آنے والی کسی ادبی روایت یا کینن کو جب مقدس بھی سمجھا جانے لگے تو سمجھیں اس میں خوف، جبر، سیاست، طاقت بہت کچھ شامل ہو گیا ہے۔
انسانی ارادوں اور انسانی ذہن و تخیل کی مدد سے وجود میں آنے والی کوئی بھی شے، انسانی تفہیم و سوالات پر اپنے دروازے کیسے بند کر سکتی ہے؟
میں نے اپنی تحریروں میں یہ واضح کرنے کی کوشش جاری رکھی کہ کوئی خیال ہو یا روایت، کوئی کینن ہو یا تنقیدی تصور اس میں کئی سماجی ساختیں، سیاسی و ثقافتی قوتیں شامل ہو جایا کرتی ہیں۔
میرے ایم فل کے مقالے ”اردو میں جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے مباحث“ کے ممتحن ڈاکٹر تحسین فراقی تھے۔ جن دنوں میں نے یہ مقالہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے لیے لکھا، ان دنوں صدر شعبہ اردو ڈاکٹر نثار احمد قریشی تھے۔ اس موضوع کے انتخاب میں کلی طور پر میری اپنی منشا اور مشکل موضوع پر کام کرنے کی ضد شامل تھی۔ اس مقالے کے زبانی امتحان کے فوراً بعد مجھے ڈاکٹر نثار قریشی نے ڈیپوٹیشن پر اوپن یونیورسٹی بلا لیا، مگر ڈاکٹر تحسین فراقی نے مجھے جھنگ فون کر کے پوچھا : کیا میں اورینٹل کالج آنا چاہتا ہوں؟ یہ 2003ء ۔ 2004ء کی بات ہے۔
مجھے اسلام آباد شہر پسند نہیں تھا، اس لیے میں نے نثار صاحب مرحوم سے دلی معذرت کی۔ وہ آخر دم تک افسوس کرتے رہے کہ میں نے ان کی بات کیوں نہیں مانی۔
مجھے اپنے فیصلے پر کبھی افسوس نہیں ہوا۔
پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ اس وقت کے تازہ ترین تنقیدی مباحث پر میرے مقالے نے میرے لیے دو بڑی جامعات کے دروازے کھولے۔
وہ واقعی اچھا زمانہ تھا۔ آدمی کا تعارف اس کا کام تھا، کچھ اور نہیں۔ اس وقت جامعات کے صاحبان اختیار بھی علم دوست، کشادہ نظر، بے ریا لوگ تھے۔
وہ آدمی کو اس کی کسی نسبت سے نہیں، اس کے کام کی بنیاد پر پہچاننے میں یقین رکھنے والے لوگ تھے۔
کیسی حیرت کی بات ہے کہ ڈاکٹر تحسین فراقی ان مباحث کے ناقد تھے، اس کے باوجود، جب اورینٹل کالج کے شعبہ اردو میں باقاعدہ پی یچ۔ ڈی کی کلاسوں کا آغاز ہوا۔ نیا نصاب بنا تو اس کی مجوزہ کتب میں میرا غیر مطبوعہ مقالہ شامل کیا۔ یہ کورس ورک کو تیار کرنے والوں کی علم دوستی، بے غرضی اور قدر شناسی کا اظہار تھا۔
وہ طالب علموں پر کتابوں کے دروازے بند کرنے والے لوگ نہیں تھے، خواہ یہ کتابیں ان کے مخالف نقطہ نظر رکھنے والے ادیبوں ہی کی کیوں نہ ہوں۔
کیسی انوکھی بات ہے کہ خود ڈاکٹر تحسین فراقی ان مباحث کے ناقد رہے ہیں اور آج بھی ہیں، مگر انھوں نے ’نظریاتی اختلاف‘ کو علمی وسعت نظری کے طور پر قبول کیا ہے۔
میرے دل میں ان کی قدر پہلے کی طرح آج بھی برقرار ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اورینٹل کالج آنے کے بعد میری تنقیدی تحریروں کا رخ، بدل جائے گا۔ میں اپنے محسن و مربی کی فکر پر چلوں گا۔ مگر میں اپنی ڈھب، اپنی ضد پر اڑا رہا۔ اس ادارے میں چلنے والی ہواؤں کے مخالف چلتا رہا۔
اپنے محسنوں کی عزت میرے دل میں برابر رہی ہے۔
اپنے محسن کی عزت کا مطلب، اس کے تصورات کے آگے اپنے تصورات کو اطاعت پر مجبور کرنا ہرگز نہیں۔
جو لوگ اپنے محسن، کرم فرما، بزرگ پیش رو کے احترام (جو اکثر حقیقی نہیں، خوف آمیز یا مصلحت آمیز ہوا کرتا ہے ) کے نام پر، اپنے دلی تصورات کو ہار دیتے ہیں، وہ کسی ازلی بے ہمتی اور خود غرضی کا شکار ہوتے ہیں اور اپنی تنہائی سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔ وہ رد کیے جانے سے ڈرتے ہیں۔
رد کیے جانے کا ڈر ہماری تنقیدی و تخلیقی صلاحیت کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
میں نے ان نئے، صدمہ انگیز قسم کے موضوعات پر مسلسل لکھا۔ کلاسوں میں ان کا ذکر کیا۔ کانفرنسوں میں ان موضوعات پر مقالات پڑھے۔ ان موضوعات پر تھیسس کروائے۔
میں اپنے دل کی یہ بات بھی یہاں کرنا چاہتا ہوں کہ میرے تنقیدی کام کو پاکستان و ہندوستان میں سراہا گیا۔ صف اول کے اشاعتی اداروں نے میری کتابیں شائع کیں۔ بزرگ وہم عصر ادیبوں میں سے اکثر نے میرے بارے میں کلمات تحسین لکھے، مجھے ممتاز ترین علمی و ادبی اداروں کی کانفرنسوں میں کلیدی خطبے پیش کرنے کی دعوت دی گئی، مگر میں یہ آج بات کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے جس احمریں عمارت میں دو دہائیاں گزاریں، اس کی فضاؤں نے میری طرف نگاہ التفات کم کم کی۔ اس میں دو ایک استثنا تھے۔
یہ ایک امر واقعہ ہے کہ میری تنقید پر کئی تیر و خنجر چلے۔ کچھ برملا، سر عام اور کچھ ڈھکے چھپے انداز میں۔
اکثر کا مورچہ اسی احمریں عمارت ہی میں کہیں رہا۔ میں اس احمریں عمارت کے ان در و بام ہی کو نہیں، ان کمروں، ہالوں، کونوں، کاریڈروں، سبزہ زاروں کو پہچانتا ہوں، جہاں سے تیر و خنجر اچھالے گئے، کبھی فلک شگاف قہقہوں میں، کبھی سرگوشیوں میں، کبھی غصے میں، کبھی متکبرانہ، خدائی لہجے میں، کبھی طنزیہ انداز میں۔ کبھی نام لے کر، کبھی رمز و ایما کے ساتھ۔
میں جب بھی اس احمریں عمارت، اس کی مجموعی فضا کا تصور کرتا ہوں تو مجھے بیدل کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
ہمہ عمر با تو قدح زدیم و نرفت رنج خمار ما
چہ قیامتی کہ نمی رسی ز کنار مابہ کنار ما
ساری عمر تیرے ساتھ ہم نے قدح نوشی کی مگر خمار کا رنج نہ گیا۔ کیا قیامت ہے کہ تو ہمارے پہلو سے ہمارے ہی پہلو تک نہیں پہنچتا۔
اے میری پیاری احمریں عمارت! کیا ستم ہے!
میرا مجموعی تجربہ ایک آؤٹ سائیڈر کا رہا۔
میں نے اکثر اس کے اسباب پر بھی غور کیا ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ ان اسباب کا تعلق مجھ ہی سے ہے۔
میری ٹیڑھ سے ہے۔ میں نے اپنے کام سے کام رکھا۔ میں نے شعبے، ادارے اور جامعہ کی باقاعدہ و بے قاعدہ سیاست میں کبھی حصہ نہ لیا۔ اے ایس اے کے انتخابات میں ہر بار ووٹ ضرور ڈالا مگر کسی گروپ کے ساتھ بیٹھ کر آج تک چائے نہ پی۔ شاہ زیب صاحب نے علم کو دیسی بنانے کے فورم کا آغاز کیا تو اس کے اجلاسوں میں ضرور شریک ہوا۔ اپنے پورے کیریر میں کبھی کسی ڈین، پرنسپل، رجسٹرار، وی سی کے دفتر میں طلب کیے بغیر قدم نہ رکھا۔ میری زبان سے یہ کلمہ کبھی نہیں ادا ہوا کہ ”سر، میں بس آپ کی خیریت معلوم کرنے اور سلام کرنے حاضر ہوا تھا“ ۔
میری کوئی خصوصی تصویر کسی صاحب حیثیت کے ساتھ نہیں ہے۔
اپنی کتابوں کو ہمیشہ عزیز رکھا۔ کسی صاحب مسند کو کتاب پیش کرنے اور تصویر کھنچوانے، اس کے دفتر حاضر نہ ہوا۔ مجھے معلوم ہے، وہ کتابیں ایک ہاتھ سے وصول کر کے دوسرے ہاتھ سے پھینک دیا کرتے ہیں۔ کوئی مصنف اپنی کتاب کے اس طور پھینکے جانے سے اٹھنے والی دردناک آواز، جو کتاب ہی کے اندر سے پیدا ہوتی ہے، اس کی تاب کیسے لا سکتا ہے؟
میں نے اردو اور انگریزی میں بہت لکھا ہے مگر کسی صاحب حیثیت کی کتاب پر تبصرہ کبھی نہ کیا۔
عزیزوں، قرابت داروں، ضرورت مندوں، عام لوگوں کو خوش کرنا چاہیے مگر کسی صاحب اختیار کو خوش کرنے کی کوشش، اپنے ساتھ۔ تمام مشکلات میں آدمی کی سب سے بڑی مدد گار روح، جو واقعی خدا کو محسوس کرنے کا متعدد بار احساس دلاتی ہے، ۔ اس سے سب سے بڑی بد دیانتی ہے۔
ان سب اسباب کے بعد مجھے یہ شکایت نہیں ہونی چاہیے کہ احمریں عمارت کے در و بام مجھ سے کیوں فاصلے پر رہے۔
تاہم مجھے اعتراف ہے کہ مجھے اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی نے بہت کچھ دیا۔ میں جب یہاں آیا تو میرے پاس دو تین کتب تھیں۔ آج جب یہاں رخصت ہو رہا ہوں تو تیس کے قریب کتب ہیں۔ میری شناخت میں اس ادارے کا ایک بڑا حصہ بلاشبہ ہے۔ مجھے لیکچرر سے پروفیسر بننے میں دیر ہوئی نہ دقت۔ سچ یہ ہے کہ میں نے ایک دن بھی اپنی ترقی کی فکر نہ کی۔ یہاں میرے کئی دوست بنے، مگر کسی سے، اپنی ذات کے لیے ایک لفظ تک نہ کہا۔ سب کچھ وقت کے ساتھ ہموار طریقے سے ہوا۔
مجھے پڑھنے، پڑھانے اور لکھنے سے دل چسپی رہی ہے۔ باقی سب ثانوی رہا ہے۔ یہ تینوں اب بھی جاری رہیں گے۔ بس جگہ اور لوگ بدل جائیں گے۔
ایک بار پھر آپ سب کا بہت شکریہ!
اگر کہیں خود ستائی کا انداز پیدا ہوا ہے تو اس سے درگزر کیجے! اپنی کہانی لکھتے وقت، اپنی ہی ستائش کے پہلو نکل ہی آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments