سودائے جنوں
سودائے جنوں حنا خراسانی کی افسانوں کا مجموعہ ہے۔ انھوں نے ان کہانیوں کو جاسوسی کہانیوں کے زمرے میں لکھا ہے۔ سودائے جنوں میں کل سات افسانے ہیں۔ ابتدا کے دو افسانے کافی طویل ہیں۔ جبکہ بقیہ نارمل افسانے بلکہ ایک آدھ بہت مختصر افسانہ بھی ہے۔
در اصل یہ افسانے تفتیش پر مبنی افسانے ہیں۔ اس کتاب میں موجود ہر افسانہ ایک کیس سٹڈی ہے۔ ان افسانوں میں ابتدائی اطلاعاتی رپورٹ کی طرح، رپٹ نمبر، وقت اندراج رپورٹ، وقت وقوعہ، مدعی، وقت اندراج رپورٹ، مال مقدماتی، فاصلہ جائے وقوعہ، اور حوالگی تفتیش۔ جبکہ بڑی حیرت سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ان افسانوں میں کہیں پر بھی عدالتی ٹرائل موجود نہیں اور کیس میں عمر قید کی سزا اور قید مشقت بھی ہوجاتی ہے۔
دراصل عام قاری کے لئے یہ بہت پرکشش کہانیاں ہو سکتی ہیں بلکہ بلا شبہ ہیں بھی لیکن ان افسانوں میں تیکنیکی تقصیر ہے جب تک وہ تیکنیکی تقصیر دور نہ کی جائے وہ کیس سٹڈی درست سمت جا ہی نہیں سکتی ہے۔
بطور ادیب یا پھر عام قاری کے حیثیت سے تو میں نے یہ ساری کہانیاں بڑے مزے سے پڑھ لی ہیں۔ مزہ بھی آیا، سسپنس کو بھی انجوائے کیا۔ کہانیوں کے سحر سے بھی مسحور ہوا۔ کرائم کی دنیاں کے چھپے ہوئے گوشوں کی تاریکی میں چھپے ہوئے کالے کرتوت سے بھی شناسائی ہوئی۔ کہانی میں کہانی در کہانی، کردار در کردار، مکالمے در مکالمے کی ہنرکاری سے بھی بلد ہوا۔ کہانی اور پلاٹ کا باہمی ربط اور آغاز تا انجام ایک مسلسل بہاؤ اور روانی کا سلیقہ اور طریقہ بھی ازبر ہوا۔
بہت ہی انہماک سے ہر کہانی کو پڑھنا جاری رکھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ حنا خراسانی کے مشاہدے اور تجربے کو بھی مشاہدہ اور تجربہ کیا۔ ہر کہانی میں کسی نہ کسی مستعمل انگریزی لفظ کو بڑی شستگی سے اردو لہجے میں سلیقے سے جوڑ کر بروئے کار لایا گیا ہے۔ کہانی کس طرح تخلیق کی جاتی ہے اور پھر اس کہانی کو کس طرح فنش یا ایگزیکیوٹ کیا جاتا ہے وہ حنا خراسانی خوب کیا بلکہ بہت خوب جانتی ہیں۔ کہانی کو سراپا کہانی بنانا اور پھر اس کہانی کو تراشنا خراشنا اور قاری کے مزاج کے عین مطابق بنانا حنا خراسانی کی ادبی ریاضت پر دلالت کرتی ہے۔ بے ساختہ، برجستہ، بروقت اور برمحل تخلیقی جملے ان کہانیوں کو مزید جلا بخشتے ہے۔
کتاب کی ہر کہانی سبق آموز، ابلاغ سے بھرپور، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ حنا خراسانی ان کہانیوں میں پہیلیاں نہیں بھجواتی بلکہ ایک سیدھی سادھی مبلغہ ہیں تو بے جا نہیں ہو گا۔ حنا خراسانی مقامیت سے اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ ان کے ہر افسانے میں سخی حسن، سہراب گوٹھ، قلندریہ گوٹھ، پیپلز چورنگی، لائنز ایریا، کیفے پیالا، کیفے نفیس، ٹنڈو الہ یار اور دیگر جگہوں کا ذکر خیر بہت اپنائیت کے ساتھ پایا جاتا ہے۔
آخر میں اب آتے ہیں کہ جب میں یا کوئی بھی وکیل یہ کہانیاں پڑھے گا تو وہ ان تیکنیکی اور قانونی تقصیرات سے کس طرح دو بدو ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ تفتیش کے وقت یا ملزم کے انٹیروگیشن کے وقت وکیل کا موجود ہونا۔ کیونکہ تفتیش کے وقت عدالت کو بھی مداخلت کا اختیار نہیں چہ جائے کہ ادھر وکیل موجود ہو اور انٹیروگیشن کا جواب دیں۔
جیوری کا عمر قید یا دوسری سخت قسم کی سزائیں سنانا کیونکہ جیوری کوئسچن آف فیکٹ پر اپنی فائنڈنگ دیتی ہے نہ کہ کوئسچن آف لا پر، سزا دینا ٹرائل کے بعد کورٹ کا کام ہے۔ جیسے کہ حالیہ امریکن سابق صدر ٹرمپ کے لئے کوئسچن آف فیکٹ پر جیوری نے جرائم کے ثبوتوں پر فائنڈنگ دی ہے اب اس پر جولائی کے آنے والی چودہ تاریخ کو عدالت سزا دینے یا نہ دینے کا فیصلہ دے گی۔ جیوری کا کوئسچن اف لا سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے۔
تفتیشی افسر کسی بھی کیس میں مدعی نہیں ہوتا ہے۔ اور یہ کسی بھی قانون میں بہت برا سمجھا جاتا ہے کہ کسی کیس میں مدعی ہی تفتیشی افسر ہو کیونکہ تفتیش ایک آزادانہ اور امپارشل پروسس ہوتا ہے اگر مدعی ہی تفتیش کرے تو یہ تفتیش تفتیش نہیں پارشل پروسس رہ جاتا ہے۔ اس لئے ابتدائی اطلاعاتی رپورٹ کے بعد تفتیش کسی آئی او یا انویسٹیگیشن افسر کو مارک کر دی جاتی ہے۔
تفتیش کے بعد جب کیس عدالت میں چلا جائے تو تفتیشی افسر اپنے اور دیگر گواہان کو پروڈیوس کرنے کی حد تک پابند ہوتا ہے سزا کے بعد کورٹ پولیس ان ڈیوٹی سزا یافتہ مجرم کو جیل لے جاتی ہے اس وقت تفتیشی افسر موجود نہیں ہوتا ہے۔
اور یہ مغالطے ہم آئے دن ڈراموں اور فلموں میں بھی دیکھتے ہیں جو عام لوگوں کے لئے تو پر کشش ہوتے پیں لیکن تکنیکی اعتبار اور پروسیجرلی غلط ہوتے ہیں جیسے کہ کیس چلنے کے دوران دھڑام سے عدالت کا دروازہ کھلنا اور کسی فرد کا چیخنا جج صاحب اصل ثبوت میرے پاس ہے۔
عین فیصلے کے وقت کسی کا وارد ہونا اور گواہی پیش کرنا۔
تفتیش :
اس کا مقصد کسی واقعے یا جرم کے بارے میں حقائق سے پردہ اٹھانا ہے جسے پولیس، جاسوس، ریگولیٹری ادارے قانونی تکنیکوں جیسے انٹرویوز اور فرانزک تجزیہ کے ذریعے انجام دیتے ہیں۔
یہ قانونی فریم ورک کے اندر کام کرتے ہیں، اور ثبوت دستاویزی اور اکثر عوامی ہوتے ہیں۔
جاسوس :
اس کا مقصد سٹریٹجک فائدے کے لیے خفیہ معلومات اکٹھا کرنا ہے۔
یہ انٹیلی جنس ایجنسیوں، فوج، کارپوریٹ جاسوسوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
خفیہ تکنیکوں کو چھپانے کے طریقوں سے جیسے دراندازی، چھپنے، سائبر جاسوسی۔
اس کی قانونی حیثیت میں اکثر غیر قانونی سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں، نتائج کو درجہ بند اور خفیہ رکھا جاتا ہے۔
تو ان میں فرق ہے :۔
تفتیش یا تحقیقات قانونی اور شفاف ہیں، حقائق کی وضاحت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، جب کہ جاسوسی میں رازداری شامل ہوتی ہے اور اس میں انٹیلی جنس اکٹھا کرنے کے لیے غیر قانونی اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔
میرے خیال میں اگر ہم دیگر شعبوں میں ہر چیز میں ایکوریسی دکھاتے ہیں یا اس کے بارے میں فل فلیج نالج گین کرتے ہیں تو ایک لکھاری کا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ جس شعبے سے متعلق کوئی تحریر ثبت کرنے جا رہے ہوتے ہیں خاص کر عدالت سے متعلق تو کسی لیگل کنسلٹنٹ کو ضرور کنسلٹ کیا کریں تاکہ کسی بھی افسانے ڈرامے یا فلم میں کھلی حقیقت نگاری تک پہنچا جا سکیں۔
بطور ادیب میں یہ بھی مانتا ہوں کہ فکشن رئیلیٹی کے ڈسٹرکشن کا نام ہے۔ لیکن یہ ڈسٹرکشن بنیادوں کو ملیامیٹ نہیں کرتیں بلکہ بنیادوں ہی سے (از سر نو) اپنی تعمیر نو کی جانب بلند ہوتی ہیں۔
- حیات روغانی کے پشتو ناول ’نیم زاد‘کا اردو ترجمہ - 22/06/2024
- سودائے جنوں - 11/06/2024
- حیرت اور دریافت کا کھیل (وجیہہ وارثی کا شعری مجموعہ ) - 07/06/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).