آرمی چیف بھارت سے تصادم کی بات بند کریں
عید الاضحیٰ کے موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کےبیان سے ایک بار پھر یہ اندیشہ پیدا ہؤا ہے کہ پاکستانی اسٹبلشمنٹ بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ پاک فوج کے ترجمان کو فوری طور سے اس بیان کی وضاحت کرنی چاہئے جس سے یہ تاثر قوی ہؤا ہے کہ پاکستان ، ہمسایہ ملک کے ساتھ مواصلت کی بجائے تصادم کی حکمت عملی جاری رکھنا چاہتا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کی تاریخ طویل ہے اور متعدد بار کوشش کے باوجود مفاہمت کی کوئی صورت سامنے نہیں آئی۔ گزشتہ ایک دہائی سے بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت رہی ہے جس نے خاص طور سے گزشتہ دور حکومت میں پاکستان کے ساتھ بات چیت اور مواصلت و تعاون کا ہر راستہ بند کیا ہؤا تھا۔ البتہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ متعدد مواقع پر یہ اعلان کرتے رہے تھے کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ تصادم کی بجائے امن چاہتا ہے تاکہ دونوں ملکوں کے عوام کو موجودہ معاشی مشکلات سے باہر نکالا جاسکے۔
اگرچہ پاکستان میں بعض انتہا پسند حلقوں نے ایسے بیانات کو فوج کی کمزوری اور پاکستان کی ’عزت‘ پر داغ قرار دیاتھا لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ کی موجودہ صورت حال میں سابق آرمی چیف کے بیانات خوش آئیند تھے ۔ کیوں کہ پاکستان کے ایک ایسے ادارے کے سربراہ کی جانب سے ہمسایہ ملک کے ساتھ امن کی بات کی جارہی تھی، جس کے بارے میں عام طور سے یہ قیاس کیاجاتا رہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ کو فروغ دینے میں پاک فوج کی قیادت کا ہاتھ رہا ہے۔ یہ بھی مانا جاتا رہا ہے کہ ملکی سیاست دانوں کے برعکس پاک فوج ، بھارت کے بارے میں سخت گیر رویہ اختیار کرتی ہے جس کے سبب معاملات معمول پر لانے میں دشواری ہوتی ہے۔
اس پس منظر میں بھارت کے ساتھ امن کے بارے میں جنرل باجوہ کے پے درپے بیانات سے امن پسندوں کو حوصلہ ہؤا تھا۔ اپنی خواہش کو سچ ثابت کرنے کے لیے جنرل باجوہ نے عمران خان کی بطور وزیر اعظم تقریب حلف برداری کے موقع پر کرتار پور راہداری کھولنے کا اعلان بھی کیا۔ بعد میں عمران خان کی حکومت نے تندہی سے اس منصوبہ پر کام کیا اور بھارتی حکومت کی نیم دلی و نیم رضامندی کے باوجود اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ یہ راہداری 2019 کے آخر سے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان خیرسگالی کے لئے پل کا کردار ادا کررہی ہے۔ بھارت سے سکھ زائرین گرودوارہ دربار صاحب کی زیارت کے لیے ذوق شوق سے کسی پابندی کے بغیر سرحد پار کرکے آتے ہیں اور اہل پاکستان کی مہمان نوازی اور فراخدلی کا بہتر تاثر لے کر واپس اپنے وطن جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد پاکستانی اور بھارتی شہری بھی ا س راہداری کے ذریعے ایک دوسرے سے ملنے اور کچھ وقت اکٹھے گزارنے کے قابل ہوگئے ہیں۔ اس طرح یہ جگہ ایک ایسامیٹنگ پوائینٹ بن چکی ہے جو تمام تر پابندیوں اور نفرتوں کے باوجود دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان خیر سگالی اور دوستی کے فروغ کا سبب بن رہی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے لئے اس جذبہ کو ابھارنے اور اسے دونوں ملکوں کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ دونوں طرف کی قیادت اس حوالے سے کوئی مثبت اور ٹھوس اقدام کرنے میں ناکام رہی۔ نریندر مودی کی حکومت نے اپنے انتہا پسند ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے کشمیر کو بھرپور طریقے سے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا۔ ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں جہادی گروپوں کی طرف سے آزادی کے لیے مسلح جد و جہد کو مسلسل ’پاکستان کی دہشت گردی‘ کا نام دے کر اشتعال دلایا جاتا رہااور دوسری طرف 5 اگست2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرکے اور اسے بھارتی وفاق کی انتظامی اکائی میں تبدیل کرکے واضح کیا کہ وہ کشمیر کے سوال پر سنجیدہ بات چیت کے دروازے بند کررہا ہے۔ اسی حکمت عملی کی وجہ سے مودی حکومت نے پاکستان کی خواہش کے باوجود مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے اور علاقے میں امن کی راہ ہموار کرنے کی ہر کوشش کو مسترد کیا۔ اسی سخت گیر بھارتی رویہ کے جواب میں پاکستان کی سیاسی حکومتوں کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی 5 اگست2019 سے پہلے والی حیثیت بحال کرنے سے پہلے مذاکرات سے انکار کیا جانے لگا۔ تاہم اس دو طرفہ سخت گیر پالیسی سے عوام کا نقصان ہؤا اور برصغیر میں ہر وقت جنگ کا اندیشہ موجود رہنے لگا۔ حالانکہ ہر ہوشمند شخص اس خطرے کو ٹالنے کی خواہش رکھتا ہے۔
بھارت میں حالیہ انتخابات میں اگرچہ نریندر مودی انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی ماضی کے برعکس اپنے طور پر لوک سبھا میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ انہیں اپنی چھوٹی اتحادی پارٹیوں کے ساتھ مل کر کمزور مخلوط حکومت کی قیادت کرنا پڑی ہے۔ انتخابی نتائج سے یہ حقیقت بھی واضح ہوئی ہے کہ عوام نے بی جے پی اور نریندر مودی کےسخت گیر ہندو راج کے منصوبے کو مسترد کردیا ہے۔ اسی طرح مودی کی طرف سے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف مسلسل سخت بیان بازی کو بھی قبول نہیں کیا گیا۔ بھارتی ووٹروں کا یہ پیغام بہت واضح ہے کہ نہ تو ملک کا سیکولر آئین تبدیل کیا جائے گا اور نہ ہی بھارتی عوام پاکستان کے ساتھ کسی تصادم یا تنازعہ کو فروغ دینے کے خواہش مند ہیں۔ عام طور سے قیاس کیا جارہا ہے کہ بھارت کے انتخابی نتائج کی روشنی میں نریندر مودی کو اپنی سخت گیر پالیسیاں تبدیل کرنا پڑیں گی اور علاقے میں تصادم کی صورت حال کم کرنا ان کی سیاسی ترجیحات میں شامل ہوگا۔
اس خیال کو پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ایکس پر پیغامات کے تبادلے سے تقویت ملی تھی۔ ایکس پر ایک پیغام میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے نریندر مودی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا تھا کہ’ بھارت کے عوام نے آپ کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ دونوں ملکوں کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنوبی ایشیا کے مستقبل کو سنوارنا چاہئے۔ آئیے نفرت کو امید سے بدلیں اور برصغیر کے دو ارب عوام کی تقدیر تبدیل کرنے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں‘۔ ایکس پر اس پیغام کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے غیر متوقع طور سے خیرسگالی کا مظاہرہ کیا۔ نواز شریف کے پیغام کا جواب دیتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایکس پر ایک پیغام میں کہا کہ بھارتی عوام ہمیشہ امن، سلامتی اور ترقی کے خواہاں رہے ہیں۔ نواز شریف کی طرف سے مبارک باد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’دونوں ملکوں کے عوام کی بہبود اور سلامتی کے لیے کام کرنا مسلسل ہماری ترجیح رہے گی‘۔
واضح رہے کہ نریندر مودی نے دسمبر 2015 کے آخر میں ماسکو سے نئی دہلی جاتے ہوئے لاہور میں اچانک قیام کیا تھا اور نواز شریف سے ملاقات کی تھی۔اس ملاقات سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں جمی ہوئی برف پگھلنے کا امکان پیدا ہؤا تھا۔ تاہم بدقسمتی سے 2 جنوری 2016 کو کشمیری انتہا پسندوں نے پٹھان کوٹ میں انڈین ائرفورس کے اڈے پر حملہ کردی اجس میں بارہ افراد ہلاک ہوگئے۔ ان انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ہی دونوںملکوں کے درمیان امن کی امید بھی دم توڑنے لگی۔ اس کے بعد سے بھارت نے پاکستان سے قطع تعلق کے لیے ہرممکن اقدام کرنے کی کوشش کی ۔حتی کہ دونوں ملکوں کے دمیان کھیلوں کے مقابلے اور ثقافتی تبادلے بھی اس سیاسی کشمکش کی نذر ہوگئے۔
تبدیل شدہ حالات میں نواز شریف کے پیغام اور مودی کے جواب کو برصغیر میں امن کا خواب دیکھنے والوں نے خوش آمدید کہا تھا اور امید کی جارہی تھی کہ آہستہ آہستہ دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں دور ہوسکیں گی۔ اس دوران میں مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کے واقعات بھی ہوئے ہیں جن کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا تھا کہ وہ سرحد پار دہشت گردی ختم کرنے کے لیے پاکستان سے بات چیت کریں گے۔ گزشتہ ایک دہائی میں کسی اعلیٰ بھارتی اہلکار کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مکالمہ کا آغاز کرنے کا یہ واضح اور مثبت اشارہ تھا۔
تاہم عید الاضحیٰ کے موقع پر لائن آف کنٹرول پر فوجیوں کے ساتھ عید منانے کے بعد تقریر کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے سرحد پار دہشت گردی کے تاثرکو مسترد کیا بلکہ یہ اشارہ دیا کہ مقبوضہ کشمیر میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ’جعلی‘ ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ کا لب و لہجہ تند و تیز تھا۔ انہوں نے انتخاب کے بعد بھارتی حکومت کے رویہ کو منفی اور جھوٹے پروپیگنڈے پر مبنی قرار دیا۔ آرمی چیف نے کہا کہ ’انتخابات کے بعد ایک بار پھر بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی قابل مذمت سرگرمیوں کو چھپانے کے لیے پروپیگنڈے کا آغاز کردیا ہے۔ اس طرح اپنے ظلم پر پردہ ڈالنے کے علاوہ پاکستان کو اشتعال دلانے کی کوشش کی جاتی ہے‘۔ جنرل عاصم منیر نے دعویٰ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے واقعات فالس فلیگ آپریشن ہیں اور بھارت ماضی میں بھی ایسے ہتھکنڈے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ سے امن و استحکام چاہتا ہے لیکن کسی قسم کی اشتعال انگیزی یا ہماری سرحدی خود مختاری کی خلاف ورزی کی صورت میں پوری قوم سخت اور فوری جواب دے گی۔
کسی بھی ملک کو حملہ کی صورت میں اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے لیکن جب امن اور خیر سگالی کی بات ہورہی ہو اور امن کا امکان دیکھا جارہا ہو تو ماضی کی تلخیوں کی بجائے مستقبل کے امکانات پر نگاہ رکھنی چاہئے۔ پاک فوج کے سربراہ کو اپنے پیشرو کی طرف سے بھارت کے ساتھ مذاکرات اور امن بحال کرنے کی فراخدلانہ حکمت عملی جاری رکھنی چاہئے ۔ نواز شریف اور مودی کے درمیان پیغامات سے امید کی جو کرن روشن ہوئی ہے کسی وقتی سنسنی خیزی سے اسے ضائع کرنا دانشمندی نہیں ہوگا۔ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ان اختلافات کو مل جل کر حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسی میں برصغیر کے عوام کا فائدہ ہے۔
- جنگ جوئی میں سیاسی اقدامات نظر انداز کرنے کا رویہ - 20/03/2025
- ملکی افق پر آمریت کے منڈلاتے بادل - 19/03/2025
- لاپتہ افراد کا معاملہ دہشت گردی سے منسلک نہ کیا جائے! - 18/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).