کیا ہم سب ایک دوسرے کو جلا دیں؟
محمد حنیف - صحافی و تجزیہ کار
ایک تھی رِمشا۔ اسلام آباد میں ایک غریب مسیحی کی بچی۔ عمر تھی 14 سال۔ اس وقت کی خبروں کے مطابق ذہنی طور پر بھی تھوڑی کمزور تھی۔ 12 سال پہلے ایک امام مسجد نے اس پر قرآن کی بےحرمتی کا الزام لگایا۔
ناموس کے رکھوالوں کا خون کھولا، قانون بھی حرکت میں آیا، رِمشا گرفتار ہوئی۔ گھر والے، محلے والے اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنے گھر چھوڑ کر بھاگے کیونکہ اس طرح کے الزام کے بعد غریبوں کی بستی جلانا اب ایک دینی فریضہ سا ہو گیا ہے۔
تفتیش ہوئی تو پتا چلا کہ جس امام مسجد نے الزام لگایا تھا اس نے خود مقدس کتاب کے صفحے بچی کے تھیلے میں ڈالے تھے۔ خالد جدون ان کا نام تھا، گرفتار ہوئے۔ رمشا رہا ہو گئی۔
کچھ ہفتوں بعد خالد جدون کو بھی مقامی مذہبی رہنماؤں کے دباؤ پر رہا کر دیا گیا۔ علم نہیں کہ اس کے بعد ان کے خلاف مزید کوئی کارروائی ہوئی یا نہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ اب وہ کسی مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں یا نہیں۔
یہ خبر سن کر ہر مسلمان کا دل تھوڑا سا تو دہلا ہو گا کہ جس امام کے پیچھے ہم نماز پڑھتے ہیں وہ اپنے محلے میں کسی مسئلے پر اپنا مؤقف ثابت کرنے کے لیے ناصرف خود مقدس کتاب کی توہین کر سکتے ہیں بلکہ سب سے بڑی توہین یعنی توہین کا الزام ایک بے گناہ بچی پر لگا سکتے ہیں اور اس کے بعد بھی ریاست ان کے خلاف اپنے ہی قانون کے مطابق انصاف نہیں کرتی بلکہ لوگوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے رہا کر دیتی ہے۔
یہ قصہ 12 سال پرانا ہے۔ اس کے بعد سے ہم سری لنکا سے پاکستان آ کر مزدوری کرنے والے کو جلا چکے ہیں، حاملہ عورتوں کو جلا چکے ہیں، سرگودھا اور گوجرہ میں بستیوں کی بستیاں جلا چکے ہیں۔
آج تک نہ کسی نے ثبوت مانگا ہے نہ ہم نے دیا ہے کہ توہین کس نے کی اور کیسے۔ کیونکہ ایسے سوال پوچھنا بھی اب توہین کے زمرے میں آتا ہے۔
اگر آپ پاکستان میں گھومتے پھرتے ہیں، پانچ وقت نمازی اور کمزور ایمان والوں سے بھی ملتے ہیں، ان لوگوں سے بھی بات ہوتی ہے جو فجر سے لے کر عشا تک ایک ہی وضو سے نماز پڑھتے ہیں۔ کبھی کسی دہریے سے بھی ملے ہوں گے، آپ نے کبھی اپنی آنکھوں سے توہین ہوتے نہیں دیکھی ہو گی، اپنے کانوں سے کوئی گستاخی نہیں سنی ہو گی۔
مسیحی اور احمدی تو اپنی شناخت چھپاتے پھرتے ہیں، کسی گناہ گار اُمتی سے بھی ایسی بات نہیں سنی ہو گی جس میں گستاخی کا شائبہ ہو۔
لیکن ہر محلے میں ایک خالد جدون موجود ہے جس کے ایک ہاتھ میں قرآن ہے اور دوسرے میں ماچس جس سے وہ ہمارے جذبات کو بھک سے اڑا سکتا ہے۔
ہر ایسے واقعے کے بعد ہم اسلام کی اصلی روح کے بارے میں باتیں کرتے اور سنتے ہیں لیکن کوئی شہباز شریف، کوئی بلاول بھٹو، کوئی فضل الرحمن، کوئی تقی عثمانی یا طارق جمیل مظلوم کے گھر نہیں پہنچتا نہ کسی خالد جدون جیسے لوگوں کو قانون کے شکنجے میں لانے کی بات ہوتی ہے۔
لوگ کبھی کبھی عسکری اداروں کی طرف دیکھتے ہیں، وہ کندھے اچکا دیتے ہیں۔ جب ناموس کے نام پر سیاست کرنے والوں نے عسکری اداروں کی توہین کی تھی تو ایسا ڈنڈا چلا تھا کہ جتھوں میں شامل ڈنڈا برداروں کو پچاس پچاس سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
اب جو دردمند شہری مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر ڈنڈا چلاؤ وہ شاید بھول جاتے ہیں کہ یہ جتھے ہی ریاست کا اصلی ڈنڈا ہیں جو آپ کو مدین جیسی جنت میں چھٹی گزارتے ہوئے جہنم واصل کر سکتے ہیں۔
- جنرل فیض حمید: ولی عہد ہونے کی سزا - 18/08/2024
- ’ایک گناہ اور سہی‘ والا پاکستان - 12/07/2024
- کیا ہم سب ایک دوسرے کو جلا دیں؟ - 24/06/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).