ہیر ہائیکورٹ آ گئی ہے ….


ملکہ ہانس کی مسجد تھی جس کے ایک زیر زمین سے حجرے میں آنکھیں بند کئے لیٹا گیان دھیان کر رہا تھا۔ اس مسجد میں اس حجرے میں بیٹھ کر وارث شاہ نے ہیر لکھی تھی۔ ہماری آمد یہاں یوں ہوئی تھی کہ ہمارے گورے صاحب نے چابی بھر کے مجھے درباروں کی جانب ٹور رکھا تھا۔
مشر نے بولا کہ اب اٹھ جا آگے بھی کہیں جانا ہے کہ نہیں۔ لیٹا یہ سوچ رہا تھا کہ ہیر اس خطے میں اپنی پسند کے حق میں اٹھنے والی پہلی آواز تھی جو آج بھی سب سے طاقتور آواز ہے۔ رانجھن نظم امرتا پریتم نے لکھی تھی لیکن اس عام سے نام کو خاص ہیر نے رانجھا کہہ کر کیا تھا۔
یہ سب سوچ رہا تھا اٹھنے کا اب من ہی نہیں تھا تو مشر کو قصہ سنانا شروع کیا کہ وارث شاہ کو ڈھونڈنے منانے اس کا کوئی یار بیلی جنڈیالا شیر خان سے پاکپتن کی اس بستی آن پہنچا تھا۔ وارث شاہ نے اس کو ہیر سنائی۔ قصہ تو یہ ہیر رانجھے کا تھا لیکن اپنے دوست کو جو حصہ سنایا اس میں ذکر بیلے کی مجھیوں (بھینسوں) کا تھا۔ دوست نے پھر بھی وارث شاہ کو واپس لے جانے پر اصرار کیا کہ چھوڑ بیلے کی بھینسوں کی خیالی باتیں…. واپس چل۔
وارث شاہ ہنس دیا تھا اس نے اپنے دوست کو آرام کرنے کا بولا اور اس کے لئے کھانے کا بندوبست کرنے چلا گیا۔ سادہ زمانے تھے سیدھے لوگ تھے ہیر کے قصے میں تاثیر بھی تھی۔ وارث شاہ کا دوست آرام کرنے کو لیٹا تو اس کے ذہن نے وارث شاہ کے سنائے اشعار سے فلم بنانی شروع کر دی۔ وہ سویا تو اس کو نیند میں بھی بیلے کی منہ زور بھینسوں نے آ کر آگے لگا لیا۔ اپنے خواب سے وہ ڈر کر یوں اٹھا کہ اس نے اپنے دوست کو لے جانے کا ارادہ بھی چھوڑ دیا۔ وارث شاہ آیا تو اسے کہا تمھاری مجھیوں نے مجھے سونے نہ دیا تم یہی کرو جو کر رہے ہو میں جاتا ہوں۔
میں لیٹا رہ کر اس دور کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہا تھا ان صاف دل لوگوں کے زمانے میں رہنا چاہتا تھا لیکن میرا مشر جس کو یہ عہدہ صرف اس کی ڈرائیوری کی وجہ سے دیا تھا وہ کچھ خاص متاثر نہ ہوا بلکہ اس نے یہ کہہ کر کہ اس بیچارے مہمان پیچھے تو بھینسوں کا ریوڑ آیا تھا اس کو ڈرانے تمھارے پیچھے صرف بھینسا آئے گا تمھارے پشوری ہونے کی داد دینے۔
چلنا پڑا تھا کسی بھینسے کو خواب میں دیکھنے سوچنے کو میں تیار نہیں تھا تو ہم نکل پڑے تھے۔ حجرے کے نگران کا شکریہ ادا کیا۔ حجرے شاہ مقیم میں مانگی ہوئی صاحبہ کی بددعائیں یادعائیں کہ حجرے شاہ مقیم دے اک جٹی عرض کرے۔ مشر سے صلاح مشورہ کر رہا تھا کہ اب حجرے شاہ مقیم چلتے ہیں کہ وارث شاہ کی مسجد کا نگران بولا کہ مسافرو جب آ ہی گئے ہو تو ہائیکورٹ چلے جاو¿ ۔ وہاں میلہ لگا ہوا ہے۔ پہلے وہ دیکھ لو۔
ہائیکورٹ نام کا کوئی دربار بھی ہو سکتا ہے، یہ سوچا بھی نہیں تھا۔ وہاں پہنچے تو کیا نظارہ تھا۔ چار سو مردوزن ماتھے پر تین سفید لکیریں لگا کر پوری طرح مست ہو کردھمال ڈالنے میں مشغول تھے۔ ٹاہلی (شیشم) کا اک بڑا درخت اپنی جان گنوا چکا تھا اس درخت کے بہت بڑے تنے کو انگارہ بنا کر دہکایا گیا اس پر دو ڈھائی دیگ چرس ڈال کر بادل سا بنا کر پورا ماحول چرسی ہوا پڑا تھا۔
دربار کے وارث ہمارا سوال کہ یہ کیسی ہائیکورٹ ہے یہ بتا کر پھوٹ لئے کہ یہ ہائیکورٹ یوں ہے کہ سپریم کورٹ لاہور میں راوی کے کنارے کہیں ہے۔ یہاں زیادہ دیر رکا نہ گیا وارث شاہ کا دوست شرمندہ کرتا رہا کہ کیسے صاف دل لوگ تھے کہ بات سن کر تصویر بنا لیا کرتے تھے۔ وارث شاہ نے لفظ جوڑ کر شعر بنائے دوست نے شعر سن کر تصویر بنا لی۔ یہ بھی جان لیا کہ کہ وارث شاہ کی خیالی مجھیاں آنے والے زمانوں کو روندتے ہوئے اسی کا نام باقی رہنے دیں گی۔

ہمارے دور میں وارث شاہ کے حجرے کے پاس ہائیکورٹ دربار بنا جہاں سے اٹھتے کالے دھوئیں نے ہمارے ماضی سے ہمارے تعلق پر پردے ڈال دیے ہیں ۔ہیر ملکہ ہانس میں وارث شاہ کے حجرے سے ہی دو قدم دور ہائی کورٹ دربار آئی کھڑی ہے کہ اس نے تو دل کی کہہ دی تھی، اپنی منوانے نکل پڑی تھی، اس کے لئے جان تک دے دی تھی کئی صدیاں پہلے جب کہ اس کے لوگ زمانوں بعد آج اپنے ذہن میں دھواں بھر بیٹھے ہیں، دل کی کہنا تو کیا آزاد سوچنے سے بھی قاصر ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments