صدا کر چلے


Loading

”اوم بائی!
چڑیا آئی ی ی! ”

فجر کی نماز کے بعد جب مسجدوں سے تہلیل کی آوازیں آنا ختم ہو جاتیں اور گلیوں میں صبح کا ہلکا ہلکا اجالا پھیلنا شروع ہو جاتا تو ایسے میں کہیں سے ایک زور دار آواز گونجتی۔

”اوم بائی!
چڑیا آئی! ”

یہ ایک خاصے عمر رسیدہ فقیر بابا تھے جو معلوم نہیں کیا کیا کہتے ہوئے گلی سے گزر جاتے تھے۔ سر پہ سفید لٹھے کی لکھنوئی ٹوپی پہنے ہوئے ہوتے۔ ان کے ہاتھ میں ایک کشکول ہوتا تھا اور کندھے پہ ایک تھیلا نما چادر باندھ کے لٹکائی ہوتی تھی جس کی مختلف تہوں میں خیرات میں ملنے والا آٹا اور روٹیاں جمع کی ہوتی تھیں۔ ان کے الفاظ کبھی سمجھ نہیں آئے بس شروع کے یہ چار لفظ سمجھ آتے لیکن ان کا کیا مطلب بنتا ہے کبھی سمجھ نہیں سکا۔ میں بس کبھی کبھی گیلری سے ان کو نیچے گلی میں سے جاتے ہوئے دیکھا کرتا تھا۔

کچھ ہی دیر بعد دو بھائی (غالباً بھائی ہی ہوں گے ) آ جاتے۔ ایک کے ہاتھ میں دف ہوتی اور دوسرے نے ہارمونیم اٹھایا ہوتا۔ اور یہ نعت پڑھتے ہوئے گلی میں چکر لگا کر آگے چلے جاتے۔

”تیری خیر ہووے پہریدارا، روضے دی جالی چُم لین دے!“

دف اور ہارمونیم کی تال میل میں دونوں آہستہ آہستہ یہ نعت گاتے ہوئے چلتے جاتے۔ کبھی کبھی ایک اور بوڑھے سے بابا جی ہاتھ میں سارنگی پکڑے کسی انڈین گانے کی دھن بجاتے ہوئے گزرتے۔ وہ اسی دھن پہ مبنی کوئی نعت گا رہے ہوتے۔ یہ فقیر کچھ دیر کے لیے ہر گھر کے دروازے کے سامنے ضرور رکتے تھے۔

ہمارا گھر تین طرف سے کھلتا تھا۔ درمیان میں مین گلی تھی جس میں سے ہمارے گھر کے دائیں اور بائیں جانب دو گلیاں نکلتی تھیں۔ ایک طرف گھر کے نیچے سے ایک راستہ اندر ایک احاطہ کو جاتا تھا اسے بڑا احاطہ (وڈا ہاتا) کہتے تھے جس کے بیچوں بیچ ایک کنواں تھا۔ گھر کی دوسری طرف ایک نسبتاً تنگ گلی تھی جو آگے جا کے ایک اور احاطے میں کھلتی تھی اسے چھوٹا احاطہ کہتے تھے۔ اب تو دونوں احاطے قبضائے گئے ہیں اور وہ احاطے والی بات نہیں رہی۔ عرصہ ہوا کنواں بھی بند کر کے اس کے اوپر بھی کمرہ بن چکا ہے۔

کسی کسی دن صرف ایک بھائی دف بجاتے ہوئے یہی نعت پڑھتے ہوئے آتا تھا۔ کبھی کبھار ایک اور بابا جی سارنگی بجاتے ہوئے گزرتے تھے۔ ٹھیک سے یاد نہیں رہا کہ وہ کچھ گاتے بھی تھے یا نہیں۔ غالب گمان یہی ہے کہ وہ سارنگی پہ کوئی دھن بجاتے ہوئے آتے تھے۔ یہ سب فقیر علٰی الصبح اپنا اپنا چکر لگا جاتے تھے۔ اسی دوران ہم بہن بھائی یونیفارم پہن کر تیار ہو جاتے اور ناشتہ کر کے اپنے اپنے سکول کے لئے نکل جاتے۔

ہفتے میں ایک آدھ دفعہ دن کے پچھلے پہر ایک پٹھانی ہمارے گھر کے پچھلے دروازے یعنی چھوٹی گلی والے دروازے پہ دستک دے کر امی کو پکارتی تھی۔ اس نے رنگین پھولدار بڑا سا فراک اور خوب گھیرے دار شلوار پہنی ہوتی تھی۔ دوپٹہ نہیں لیتی تھی اور سر پہ خوب کس کے دو چوٹیاں باندھے رکھتی تھی۔ کبھی وہ وہیں سیڑھیوں پہ بیٹھ کے آٹا لینے کے بعد امی سے حال احوال پوچھ لیتی تھی اور ہلکی پھلکی گپ شپ بھی کر لیتی تھی۔

رمضان میں جگانے والی بہت سی میوزیکل ٹولیاں آیا کرتی تھیں۔ سب سے پہلے ایک اشرف ڈھولکی والا آتا۔ وہ زور زور سے ڈھولکی بجاتا اور اپنا نام پکارتا ہوا تیزی سے نکل جاتا۔ کچھ ہی دیر بعد ایک اور شخص گھی والا کنستر کھڑکاتا ہوا گزرتا۔ پھر ایک اور شخص آ جاتا جو یہ کلام پڑھتا ہوا گلی سے نکل جاتا۔

”نامِ محمد اساں مل کے پکاریا،
رکھ لئیں وئی لاج ساڈی کالی کملی والیا ”

پھر ایک یا کبھی کبھی دو دو ٹولیوں والے آ جاتے جو ہارمونیم، ڈھولکی، گھڑا جیسے سازوں سے لیس ہوتے اور کسی نا کسی فلمی گیت کی دھن پہ بنائی گئی نعت گاتے تھے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ گلی کی ایک طرف سے ایک ٹولی نمودار ہوتی اور دوسری طرف سے ایک دوسری ٹولی آجاتی ایسے میں کسی ممکنہ تصادم کو روکتے ہوئے ایک ٹولی چھوٹے احاطے میں چلی جاتی اور دوسری ٹولی بڑے احاطے کا رخ کر لیتی۔ اور ہمیں دونوں کی آوازیں ایک سمجھ میں نا آنے والا ملغوبہ بن کر سنائی دیتا۔ دوچار منٹ دونوں طرف گھمسان کا رن پڑتا اور پھر یکایک خاموشی چھا جاتی۔ یہ سب اپنا اپنا نام ضرور پکارتے تھے تاُکہ عید والے دن اپنی محنت کا معاوضہ لیتے وقت انہیں اپنے شناخت کا کوئی مسئلہ نہ ہو۔

ہاں اس دوران مختلف مسجدوں سے سحری کے وقت کے بارے میں ہونے والا اعلان ضرور سنائی دے جاتا تھا۔ رمضان کے دوران فجر کے وقت چونکہ سب نے ایک ہی وقت میں اذان دینی ہوتی تھی تو اس وقت ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ دور کی مسجد سے آنے والی اذان، قریب کی مسجد سے آنے والی اذان کے مقابلے میں کانوں کو بہت بھلی لگتی تھی۔ چونکہ سب کے سب ایک ساتھ اذان نہیں دیتے اور سب کی طرزیں بھی مختلف ہوتی ہیں تو ایک عجیب سے مجموعی لے بن کے سامنے آتی ہے۔ جو ایک مخصوص گونج نما آواز سے مشابہ ہوتی ہے۔

خیر اذان کا ذکر تو بر سبیلِ تذکرہ آ گیا۔ میں بیان کر رہا تھا اپنے بچپن کی یادوں سے وابستہ چند فقیروں کا ۔ سب سے عجیب و غریب فقیر جو ہمارے گھر آتا اور باقاعدہ اپنا حصہ لے کے جاتا تھا وہ کوئی انسان نہیں تھا۔ یہ ایک بوڑھی گائے تھی جسے اس کے مالک نے لاوارث چھوڑ دیا تھا۔

وہ گائے باقاعدگی سے سہ پہر چار اور پانچ کے درمیان ہمارے باورچی خانے والی سائیڈ کا جالی والا دروازہ اپنے منہ سے پکڑ کے کھولتی اور پھر اسے کھینچ کر زور سے چھوڑ دیتی اس طرح لوہے کا یہ دروازہ دوسرے پٹ سے جا کے ٹکراتا اور ہمیں اوپر آواز آجاتی کہ گائے آ گئی ہے۔ کوئی نا کوئی نیچے جا کر اسے دوپہر کے کھانے میں اس کے لئے پکی روٹی نکال کے اس کو پکڑا دیتا اور وہ وہاں کھڑے ہو کے اس روٹی کو کھانے کے بعد اگلے گھر کی طرف چل دیتی۔ عجیب بات یہ تھی کہ گائے نے کبھی ایک سے دوسری روٹی کا سوال نہیں کیا۔ سب سے زیادہ مزہ تب آتا تھا جب میرے بہن بھائیوں کے بچے ہمارے گھر آئے ہوتے تھے۔ ہر کوئی بچہ گائے کو روٹی دینے کے لئے بھاگتا تھا۔

فقیر ہوں پہ عادتِ سوال نہیں مجھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).