نشیب میں فراز


Loading

صحرا نوردی کی مشقت شوق شروع ہوئی تو ہر وقت کی دستیابی کو یقینی بنائے رکھنا پڑا۔ کسی بھی سمت کے سفر کو چلتے تو پہلے سے ہی معلوم ہوتا کہ جہاں مرضی چلے جائیں، جتنے قوس مرضی طے کر لیں آخر میں کوئی نہ کوئی صحرا ہی ہمارا منتظر ہو گا۔ ایسے ہی ایک سفر میں صحرا کے بیچ و بیچ ’پنگھوڑا‘ نظر آیا۔ ایسی ویرانی میں اس تفریح کی وجہ سمجھ نہ آئی۔ یوں بیچ صحرا کے اس تفریحی مقام نے تو لاشاری صاحب کا بزنس چلانے کا بیانیہ دبڑدوس کر دیا تھا۔ لہذا قریب جا کے دیکھنا تو بنتا تھا کہ یہاں یہ سب بنانے کی افتاد کیونکر آن پڑی ہو گی؟ اور اگر یہ تجارتی مقاصد کے لئے بھی ہوا تو یقیناً اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی تو بہت بڑا منصوبہ ’کامیابی کے لئے کوئی قواعد اور لوگوں کو اس کے لئے راغب کرنے میں ہی کچھ تو خاص حکمت عملی ہو گی۔

جیسے جیسے ’پنگھوڑا‘ قریب آ رہا تھا۔ اس کی وحشت ناک ہیبت اور قوی ہیکل جسامت کا صحیح اندازہ ہو رہا تھا۔ وسیع رقبے پہ پھیلی چاردیواری سے پہلا تاثر تو درست معلوم ہوا کہ یہاں یہ جھولا ہی تفریح کا اکلوتا سامان نہیں ہے بلکہ اندر کچھ اور بھی ہو گا۔ اندر جھانکنے پہ دیکھا کہ وہاں صرف یہ ’پنگھوڑا‘ ہی اکلوتی قابلِ توجہ چیز ہے باقی تو ہر جگہ ویرانی بال کھولے سو رہی تھی۔ جیسے برسوں کسی ذی روح کا یہاں قدم نہیں پڑا۔

دور اکلاپے کا شکار مکان کے چھجے تک پرندوں کے گھونسلوں سے خالی تھے۔ ایک دیوار سے دوسری دیوار تک کوئی آدم، نہ کوئی آدم زاد۔ رات تو درکنار دن کے اجالے میں بھی اس جگہ کی وحشت ناک تنہائی اور ویرانی ڈرانے کو کافی تھی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ رات کو یہاں آدم بو کی صدائیں گونجتی ہیں تو اس بات پہ ایمان لانے میں ذرا بھی شبہ نہ ہو۔

ایسی خوفناک بیاباں جگہ پہ تو اپنی ہی ’باں‘ بول گئی تو ’پنگھوڑے‘ کو چھوڑ اپنی راہ لی لیکن بہت دیر تک ذہن میں اس ’پنگھوڑے‘ اور اس جیسے دوسرے جھولوں کی منطقی سوچیں گردش کرتی رہیں۔ پنجاب کے میلے ٹھیلوں پہ بچوں کے لئے تفریحی جھولے ہوں یا لاہور میں اقبال پارک میں لگے جھولے۔ تہواروں پہ منٹو پارک میں جھولے ہوں یا فورٹریس سٹیڈیم کے برقی جھولے۔ گھومنے والے سبھی جھولے کم و بیش ایک سی کیفیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے جھولا اوپر کی طرف بلندی پکڑتا ہے، ویسے ویسے خوشی بڑھتی ہے۔ مسکراہٹیں گہری ہونے لگتی ہیں۔ کانوں کی لو کے پاس سے گزرتی ہوا بھی خوشگوار محسوس ہوتی ہے جیسے بالوں سے اٹکھیلیاں کر رہی ہو۔ نیچے کا منظر بھی دلفریب لگتا ہے اور دور تک جاتی نظر بھی محصور کیے دیتی ہے۔

کچھ ہی دیر میں جھولا اپنی ممکنہ انتہائی بلندی پہ پہنچ جاتا ہے تو ساتھ میں خوشی کو بھی بامِ عروج بخشتا ہے۔ لیکن یہی جھولا جب اپنی انتہائی بلندی سے نیچے کا سفر شروع کرتا ہے تو بقول شخصے ”ماڑے بندے دا تے دل پھٹ جائے“ ۔ پہلا ہی حملہ حواس پہ ہوتا ہے۔ ہاتھوں کی گرفت مضبوط ہو جاتی ہے، ٹانگوں میں اکڑن سی آ جاتی ہے۔ سرسراتی ہوا جو بالوں سے اٹکھیلیاں کرتی محسوس ہوتی تھی وہی ہوا اب بالوں کو بکھیرنے کا سبب بننے لگتی ہے۔

گہری ہوتی ہوئی مسکراہٹیں یکلخت بھینچ جاتی ہیں۔ دانت دانتوں سے بغلگیر ہونے کو پھرتے ہیں۔ جسم پہ پسینہ آئے نہ آئے دانتوں تلے ضرور آ جاتا ہے۔ اس لمحاتی پستی کے سفر میں دل ہے کہ الگ ڈوبتا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی گہری پاتال میں جا رہا ہو۔ اور یہ کیفیت جھولے کی اگلی گردش تک قائم رہتی ہے جو پھر سے بلندی کی طرف گامزن ہو گی۔

انسانی زندگی میں بلندی اور پستی کی گردش بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ نشیب و فراز اس سفر کا لازمی جز ہیں۔ جیسے دن رات آپس میں بدلتے ہیں یا جیسے موسم اپنی باری پہ آتے جاتے ہیں۔ حضرتِ اقبال کے بقول کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ کبھی حالات و جذبات اپنے انتہائی مقام پہ ہوتے ہیں۔ جہاں سے سب اچھا ہی دکھ رہا ہوتا ہے اور راوی بھی سب چین ہی چین لکھتا محسوس ہوتا ہے۔ خوب سے خوب تر کی جستجو میں انسان غیر متزلزل اعتماد سے آگے بڑھ رہا ہوتا ہے کہ اچانک سے وقت کے پہیے کی گردش پھر گردشِ دوراں کا شکار ہونے لگتی ہے۔ اپنے ہی کیے ہوئے فیصلے زوال پذیری کا باعث بننے لگتے ہیں۔ اپنے حوصلے ٹوٹتے محسوس ہوتے ہیں۔ ذہن ماوَف اور الفاظ ساتھ دینے سے قاصر لگنے لگتے ہیں۔ گردوپیش کی رعنائی وقتی طور پہ زیبائی کی کیفیت پیدا نہیں کر پاتی۔

یہی وہ وقت ہے جب پھر سے بلندی کی گردش ذہن میں رکھتے ہوئے سب سے بلند و ارفعٰ سے اپنا تعلق مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ وہی خالق و مالک تو ہے جو سب بلندیوں، پستیوں اور نشیب و فراز کا مالک ہے۔ وہی واحد لا شریک تو ہے جو سب کی گردش پہ قدرت رکھتا ہے، جو اپنی کائنات میں حالات بدلنے کی طاقت رکھتا ہے، جو انسانوں کے مابین بھی وقت و حالات کی گردش جاری رکھتا ہے۔ نشیب میں رہتے ہوئے بھی فراز کی آس نہیں ٹوٹنے دیتا۔

نشیب میں رہتے ہوئے گوشہ نشینی کی بجائے اپنی محنت و کاوش جاری رکھنا اور خدائے لم یزل کی رحمت پہ یقین کامل رکھنا ہی نہ صرف فراز کی علامت ہے بلکہ گردشِ دوراں کی تبدیلی کا اشارہ بھی۔ انسان اس خدائے ذوالجلال کی رحمت کی آس پہ اپنی مسلسل محنت، انتھک جدوجہد اور صبر آزما کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پھر سے اپنی بلندی اور فراز کی گردش پا سکتا ہے۔

توصیف رحمت
Latest posts by توصیف رحمت (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments