کیا ہمارے معاشرے کا مسئلہ صرف معاشی ہے؟


ان سے میرا پرانا تعلق کافی پرانا تھا۔ بچے میرے شاگرد رہے تھے۔ بہت اچھی زمیندار فیملی تھی۔ مالی، سماجی، مذہبی اور مروج کسی پیمانے کے لحاظ سے بھی بہترین اور کامیاب۔ بس ایک ہی کمی تھی کہ پانچ بچیاں تھیں اور اولاد نرینہ نہیں تھی۔ بالآخر اللہ نے وہ بھی حسرت پوری کی اور چاند سا بیٹا عطا کیا۔ شریف لوگ تھے کام سے کام رکھنے والے، محنت کرنے والے اور غیر ضروری بکھیڑوں سے دور رہنے والے۔ بچے پڑھے، بڑے ہوئے شادیاں ہوئیں۔ مالی اور سماجی پوزیشن بھی پہلے سے مستحکم ہوتی گئی۔

کچھ عرصہ پہلے خاتون خانہ سے اتفاقی ملاقات ہوئی۔ بچوں کے حوالے سے پوچھا تو چہک چہک کر بتانے لگیں کی فلاں بیٹی کی ادھر شادی کی فلاں کی ادھر۔ سب بہت خوش ہیں۔ اللہ کے کرم گنواتے ہوئے ان کا چہرہ تشکر کے جذبات کی آماجگاہ دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے ان سے جب اکلوتے بیٹے کے حوالے سے سوال کیا تو ایک اداسی کی لہر ان کے چہرے پر گزر گئی۔ وہ جذبات جو چہرے پر دمک رہے تھے ماند پڑ گئے اور لہجہ خود بخود دھیما ہو گیا۔

نظریں چراتے ہوئے بتانے لگیں کہ اس نے میٹرک کر لیا ہے اور اب کچھ ماہ میں باہر جانے والا ہے۔ چونکہ چہرے پر دکھ کے تاثرات میں دیکھ چکا تھا اس لئے مزید کریدنا مناسب نہ سمجھا۔ ملکی حالات کے پیش نظر میں نے خود ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ معاشی مسائل ہی ہوں گے جو اکلوتے بیٹے کو یوں باہر بھیجنے پر آمادہ ہیں اور یہ بھی کہ ایسا والدہ کی خواہش تو ہو نہیں سکتی تو یقیناً ان کے والد ہی بیٹے کو بھیجنا چاہ رہے ہوں گے۔

اسی الجھن میں ایک روز اتفاقاً ان کے والد سے ملاقات ہوئی تو میرے سے رہا نہیں گیا۔ باتوں باتوں میں میں نے ان کے اکلوتے بیٹے کا ذکر چھیڑ دیا۔ تھوڑا بے تکلفی کا سہارا لے کر اپنے تئیں بچے کی والدہ کی تکلیف اور معاشی معاملات کا موازنہ کرنا شروع کر دیا۔ پہلے وہ بے یقینی اور حیرانی سے میری طرف دیکھنے لگے۔ پھر جیسے ہی انہیں میرا اشارہ سمجھ میں آیا تو بولے کہ پروفیسر صاحب نہ تو ہمارے معاشی حالات کا کوئی مسئلہ ہے اور نہ ہی میں بیٹے کے باہر جانے کے حق میں ہوں۔ دراصل یہ فیصلہ اس کی والدہ کا ہے۔

اب حیران ہونے کی باری میری تھی کہ والدہ کیونکر اکلوتے بیٹے کو باہر بھیجنا چاہیں گی جب کہ معاشی مسائل بھی نہ ہوں۔ میری اس حیرانی کو بھانپتے ہوئے انہوں نے خود ہی وضاحت کرنا شروع کر دی۔ دیکھیں پروفیسر صاحب جس سے وہ جوان ہوا ہے تب سے ہی اس کی والدہ اپنے بیٹے کو یہاں بہت غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں اور پریشان رہتی ہیں۔ شروع شروع میں میں ان کی مخالفت کرتا تھا مگر اب میں نے بھی ان سے خاموش اتفاق کر لیا ہے۔

ہمارے دیہات میں جیسے ہی بچہ جوان ہوتا ہے، بیروزگار اور آوارہ جوانوں کی ایک کثیر تعداد سگریٹ، چرس افیون اور ہیروئن لئے اس کی منتظر ہوتی ہے۔ منشیات، باہر کے پیسہ کے ساتھ ناجائز اسلحہ، ٹک ٹاک اور ایڈونچر کا شوق نوخیز جوانوں کو تیزی سے جرم کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ساتھ میں تعلیم اور پڑھے لکھے باشعور طبقے کی بے توقیری نے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے سے بھی بدظن کر رکھا ہے۔ بے پناہ دولت کے خواب دیکھتے یہ نوجوان اپنے آبائی پیشہ اختیار کرنے میں بھی ذلت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس پر یہ بھی خدشہ کہ کل کلاں کوئی حاسد ہمارے بچے کو کسی جھوٹے سچے مقدمے میں ڈال دے اور ہم ساری عمر عدالتوں کے دھکے کھاتے پھریں۔

ایسے میں ان کی والدہ کی ضد کے ساتھ میری عقل نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے کہ بچے کو باہر ہی بھیج دیا جائے۔ بھلے وہ ہماری انکھوں سے دور رہے گا مگر ہمارے دل میں اس بات کا سکون ہو گا کہ ہمارا بچہ نہ صرف وہاں محفوظ ہے بلکہ منہ دھیان اپنا کام بھی کرتا ہے اور اچھے شہری کی طرح ذمہ داری بھی سیکھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا معاشی مستقبل بھی محفوظ ہو گا۔ ہمارا کیا ہے ہم اب بوڑھے ہو گئے ہیں اور اپنی ذاتی غرض سے بالا ہو کر دیکھیں تو ہم اپنے بچوں کے لئے اس سے بہتر سوچ بھی کیا سکتے ہیں۔ وہ خاموش ہو کر میری طرف دیکھنے لگے۔

مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ واقعی جس دیس میں انسانی فلاح، انصاف، عدل، تعلیم اور روشن خیالی اپنی جگہ نہیں بنا پاتی وہاں عدم تحفظ کا احساس اپنے پنجے گاڑ لیتا ہے۔ اس دیس کی دھرتی اپنے ہی جوانوں کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیتی ہے۔ جہاں کی مائیں غیر ملکوں میں اپنے بچوں کو محفوظ سمجھتی ہوں وہاں کا مسئلہ معاشی نہیں معاشرتی ہوتا ہے اور اس معاشرت کی اصلاح کے لئے کوئی عالمی ادارہ، کوئی آئی ایم ایف مدد نہیں کر سکتا۔ یہاں اپنی مدد کو آپ ہی آنا پڑتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments