خان صاحب، پھٹیچر اور ریلو کٹا کون ہے؟


آج ہر قسم کا کہا سنا معاف  کیجئے  گا کہ بقول شخصے ہم بیٹھے ہیں تہیہ طوفان کئے ہوئے۔ اپنے مختصر صحافتی سفر میں کئی ممنوع موضوعات پر لکھا۔ ان پر بھی لکھ ڈالا جن کے بارے میں سوچنا بھی جرم ٹھہرایا جاتا ہے، لکھ ڈالنا تو گناہ کبیرہ جانئے۔ آپ سب سے جتنا پیار  ملا اتفاق  نہ کرنے والوں سے اتنی ہی پھٹکار بھی نصیب میں ٹھہری۔ کئی دفعہ ایسے ‘شیریں’ پیغامات موصول ہوئے جن میں ہمیں نہ صرف ہمارا عورت ہونا یاد دلایا گیا بلکہ بڑے ہی پیار سے پاکستان آنے کی ‘دعوت’ بھی دی گئی۔ کئی بار جی میں یہ بھی آئی کہ لکھنے لکھنے جیسا بے کار کام چھوڑ کر روٹی کو گول کرنے کی مشق میں سرگرداں ہو جائیں۔ مجازی خدا کی پوجا میں جیون بتائیں، دنیا اور آخرت دونوں سنوار لیں۔ مگر وہ کیا ہے کہ ہماری دم ذرا ٹیڑھی ہے۔ آتش نمرود میں بے خطر کود پڑنے کی کچھ عادت سی ہے۔ ڈھٹائی کہیے یا سرکشی آپ کی مرضی۔ زمانہ  قدیم سے ہماری صنف  کو جو سکھایا گیا ہے اس سے ہمارا بچپن سے ہی اختلاف رہا ہے۔ آپ ہمارا سر نیزے پر رکھیے یا زبان، ہم تو بولیں گے۔ دل میں جو آئے گا اسے رقم کرتے ہی رہیں گے۔ پتھر پر لکیر جانئے۔

قصہ مختصر بہت کچھ لکھا۔ ایسا ایسا لکھا کہ یار دوست قسمیں دینے پر تیار ہو جاتے تھے کہ اپنی جان کو مقدم جانو۔ جان کی پروا کیسے ٹھہری؟ لیکن صاحب عزت جان سے بہت پیاری ہے۔ اس لئے ممنوعات کے عرش معلیٰ کو چھونے کی جسارت نہیں کی۔ ایمان کے کمزور ترین درجے پر ہی رہے۔ چھپ چھپ کے دل میں برا جانتے رہے۔ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے سے احتزاز  ہی برتا۔ یہاں ایک لفظ کہو تو ان کے جان نثار پہلے تو تاویلوں پر اترتے ہیں اور پھر عزت کی دھجیوں پر۔ شائستہ کلامی پر اپنے قائد سے بھی آگے نکل جاتے ہیں وہ بھی 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے۔ جان نہ سہی لیکن عزت بہت پیاری تھی۔ اس لئے سر بازار اپنے پوسٹر لگوانے کا چانس مس کرنا ہی دانشمندی جانا۔

جی صحیح پہنچے۔ ہمارا اشارہ قائد اعظم ثانی یعنی خان صاحب عمران خان صاحب کی جانب ہی ہے۔

صبر کا پیمانہ چھلکنے کو یوں بیتاب ہے جیسے کھچا کھچ  بھری ہوئی پرانی  بس سے مسافر۔  جی میں تو آ رہا ہے کہ آج کے دن خان صاحب کو انہی کی زبان میں جواب دیا جائے لیکن وہ کیا ہے کہ کچھ تو تربیت کا قصور کہئے اور کچھ لاج، عزت کا خیال۔ خیر اب تو لگ چکا سب داؤ پر۔ الفاظ تیر نہ سہی لیکن چھلنی کرنے کی طاقت خوب رکھتے ہیں۔ یہ بات ہمیں تو معلوم ہے لیکن غالباً قبلہ کو نہیں۔ خیر ابھی ان کی عمر ہی کیا ہے۔ کھیلنے کودنے کھانے  پینے کے دن ہیں۔ اٹھکیلیاں کرنے دیجئے۔

آج صبح  سویرے حضور کی ایک ویڈیو نظر سے گزری۔ شومئی قسمت کہ کھول کر دیکھ بھی لی۔ اس کے بعد کی حالت نہ ہی پوچھیے تو تہذیب کے حق میں مناسب ہو گا۔ خان صاحب  نے PSL کے لیے ان کی راجدھانی یعنی  پاکستان میں آنے والے تم غیر ملکی پلیئرز کو نہ صرف  پیار  سے ‘پھٹیچر’ اور ‘ریلو کٹا ‘ جیسے القابات سے نوازا بلکہ ان کے علاقوں تک کو نہ بخشا۔

‘کسی کو افریقہ سے پکڑا کسی کو کہیں سے۔۔۔’

آج تک خاکسار نے حساس موضوعات پر لکھنے کے لئے طنز و مزاح کا سہارا لیا کہ کونین کی گولی کو شہد میں لپیٹنا مناسب ہے۔ لیکن آج تو سب دو ٹوک ہو گا صاحب۔

خان صاحب! آپ نے PSL کا فائنل میچ پاکستان میں کرانے کو دیوانگی کہا۔ باوجود اس کے کہ ایک ہفتہ پہلے ہی آپ کا بیان کچھ اور تھا ہم نے آپ کے نئے مدعے سے اتفاق کیا۔ آپ نے پورے شہر کو بند کرا کے ایک دن  میچ کرانے کو غلط جانا۔ ہم نے بھی ہفتوں کے  دھرنے بھلا ڈالے۔ یہی نہیں آپ نے اپنی ’سرخوشی‘ میں یہ بھی کہا کہ آپ نے آج تک PSL کا کوئی میچ نہیں دیکھا۔ بلکل صحیح کیا جناب۔ کہاں آپ جیسے نامی گرامی کپتان اور کہاں یہ آج کل کے لونڈے لپاڑے۔ ملکی حالات ایسے تھے کہ ہم نے آپ کی ہاں میں ہاں ملائی اور سر تسلیم خم کیا۔ لیکن خدا بھلا کرے ان دیوانوں کا جنہوں نے ہمیں غلط ثابت کیا اور پاکستان کے قذافی اسٹیڈیم کو دس سال بعد نہ صرف بقعہ نور بنایا بلکہ پورے ملک کو وہ خوشی بھی فراہم کی جو دن رات لاشیں اٹھانے کے غم میں کہیں کھو سی گئی تھی۔  صوبائی تعصب کی فضا کے باوجود پورا پاکستان ایک کھڑا ہو گیا۔ لاہور کے دیوانوں نے ہر قسم کی سیکورٹی کی رکاوٹوں کے باوجود کوئٹہ اور پشاور کا میچ اسی جذبے سے دیکھا جیسے لاہور کا دیکھتے۔ لاہور قلندر ٹیم کے ملک رانا صاحب اپنی ٹیم کے ہارنے کے باوجود پاکستان اپنا خوشی سے تمتماتا ہوا چہرہ لے کر میچ دیکھنے آئے۔ کوئی بندا ٹھہرا نہ بندہ نواز۔ کسی کو غرض نہ تھی کہ کون جیتا یا کون ہارا۔ سب کو یہی علم تھا کہ فتح پاکستان کا مقدر ٹھہر چکی تھی۔ دہشتگردی کی ہار سب پاکستانیوں کی آنکھوں میں صاف دکھ رہی تھی۔ ہم نے دبئی میں بیٹھ کر یہی میچ نم آنکھوں اور بھرے دل سے دیکھا۔ دیکھا کم اور خدا کا شکر زیادہ ادا کیا کہ خیر و عافیت سے سب کچھ بخوبی ہو گیا۔

یقین جانئے  کہ آج سے پہلے اپنے غلط ثابت ہونے کی کبھی اتنی خوشی نہیں ہوئی۔ جی چاہا کہ سب مہمان کھلاڑیوں کے سامنے سر جھکا دیں جنہوں نے سب خطرات بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان آ کر میچ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔

یوں تو اب عادت ہو جانی چاہے لیکن خان صاحب آپ نے ایک بار پھر مایوس کرنے کا ذمہ نہ صرف اٹھایا بلکہ بخوبی  نبھایا۔ کاش ایک سیاستدان نہیں، ایک کرکٹر نہیں بلکہ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے ہی آپ کا پتھر دل کچھ پسیجتا۔ کاش آپ نے یہ میچ بھلے ٹی وی پر ہی دیکھا ہوتا۔ کچھ تو آپ کی چشم بھی تر ہوتی۔ اسٹیڈیم میں جانا تو آپ کی شان کے خلاف تھا لیکن ٹیموں کی حوصلہ افزائی کے چند بول بولنے میں کیا مضائقہ تھا؟ خیر آپ ٹھہرے بڑے لوگ اور یہ پھٹیچر، ریلو کٹے، افریقہ سے پکڑے ہوئے حقیر لونڈے۔۔۔ آپ کو جچتا ہے۔ اقبال بلند رہے ہمیشہ کی طرح۔

ہمارے دل سے پوچھئے تو یہ افریقہ سے پکڑ کر لائے گئے پھٹیچر کھلاڑی فی الوقت آپ سے تو بہت اجلے دکھ رہے ہیں۔ خدا جانے حقیر آپ کی سوچ کو جانا جائے یا ان جانبازوں کو؟

ہر دفعہ جاتے ہوئے سلام صاحب کہ کر نکلتے ہیں۔ اس مرتبہ ہماری خاموشی کو کلام اور کم کہے کو زیادہ جانیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).