اجتماعی خود کشی کا سفر


Loading

عمران خان نے ایک برطانوی اخبار سے انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ ’انہیں دہشت گردوں کے لیے مختص چھوٹے سے سیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا‘۔ البتہ وہ سنڈے ٹائمز کو انٹرویو دینے کی پوزیشن میں ہیں اور ان کی قید تنہائی کا یہ عالم ہے کہ اخبارات روزانہ کی بنیاد پر ان کے بیانات، مطالبوں اور تقاضوں سے بھرے ہوتے ہیں۔

ملک کی صورت حال اور خود اپنے آپ پر بیتنے والے حالات کے بارے میں یہ مبالغہ آرائی صرف عمران خان تک محدود نہیں ہے۔ اس میں ہر سیاسی لیڈر اپنے جثے اور نقطہ نظر کے مطابق حصہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حتی کہ اب وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی عدلیہ کے خلاف مہم جوئی کا براہ راست حصہ بن کر ایک ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر یہ کہنا ضروری سمجھا کہ ’نام نہاد منصف نے سازش کر کے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کو تباہ کرنے کی کوشش کی‘ ۔ ان کا یہ اشارہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ایک فیصلہ کے بارے میں تھا۔ لیکن اس کا اصل نشانہ اس وقت اعلیٰ عدلیہ میں بیٹھے ایسے جج حضرات تھے جو حکومت کے لیے ناپسندیدہ فیصلوں میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ خاص طور سے حال ہی میں تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے بارے میں سپریم کورٹ کے فل بنچ کا فیصلہ حکومت کو بھاری پڑا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی اس فیصلہ پر چیں بجیں ہیں۔ کبھی وہ اس فیصلہ کے خلاف ’حکمت عملی‘ بنانے کے لیے مشاورت کا اعلان کرواتے ہیں اور کبھی اس کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کرنے اور اس پر عمل درآمد روکنے کے طریقوں کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ اب پنجاب حکومت کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے اعلیٰ عدلیہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ’عوامی مفاد‘ میں فیصلے کرے۔ ابھی تک تو یہی سنتے آئے تھے کہ سیاست دان عوامی مفاد میں فیصلے کرتے ہیں اور ایسی قانون سازی کی جاتی ہے جس سے کمزور طبقات کی حفاظت ہو اور سب شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھا جائے۔ عدالتیں ان قوانین کی روشنی میں حکم جاری کر کے صورت حال کی درستی میں کردار ادا کرتی ہیں۔ البتہ اب نواز شریف نے بتایا ہے کہ عدالتوں کو آئین و قانون کی بجائے ’عوامی مفاد‘ کا خیال رکھنا چاہیے۔

لیکن انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ اگر عدالتیں ہی عوامی مفادات کی حفاظت پر مامور ہوں گی تو سیاست دان کیا کریں گے۔ ملک میں جمہوریت کے نام پر حکومتیں لانے اور عوام کی ضرورتیں پوری کرنے کے دعوؤں کا کیا ہو گا یا ان کی کیا ضرورت باقی رہے گی۔ سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ، ملک میں امن و امان، سیلاب یا تباہ کاری کی صورت حال سے نمٹنے اور دیگر اہم معاملات سنبھالنے کی ذمہ داری عوام کے ’منتخب نمائندے‘ پہلے ہی فوج کے حوالے کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی فیصلوں میں فوج کو اہم شراکت دار مان کر آرمی چیف کو بالواسطہ طور سے ’وزیر خارجہ‘ کا اضافی منصب بھی عطا کیا جا چکا ہے تاکہ وہ ملک ملک جا کر اپنے سیاست دانوں کی بے اعتباری پر پردہ ڈالیں اور مالی امداد پر آمادہ دینے پر کریں۔ اگرچہ یہ بدعت سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں شروع ہوئی تھی جب اچھے وقتوں میں سابق آرمی چیف جنرل باجوہ عمران حکمت کا ہر کام کرنے میں پیش پیش رہتے تھے اور خود وزیر اعظم ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیرونی لیڈروں پر پاکستانی ’خود مختاری اور خودداری‘ کی دھاک بٹھانے میں مصروف تھے۔ البتہ مسلم لیگ (ن) نے بھی اس بری روایت کی ’خوبی‘ سمجھتے ہوئے اب آرمی چیف کی معاشی استعداد اور خارجہ امور پر دسترس سے پورا فائدہ اٹھانے کا عزم کیا ہوا ہے۔

عدلیہ نے اگر نواز شریف نے عدلیہ کو عوامی مفادات کے مطابق فیصلے کرنے کی درخواست قبول کرلی تو پھر حکومت کے کرنے کو کیا رہ جائے گا۔ پھر ملک میں سیاسی پارٹیاں بنانے کی بھی کیا ضرورت ہوگی اور انتخابات کا بکھیڑا بھی غیر ضروری ہو جائے گا۔ یوں بھی ہر انتخاب کے بعد دھاندلی اور چوری کے الزامات سے اور کسی کا کوئی نقصان ہو یا نہ ہو لیکن عوام کے مفادات ضرور متاثر ہوتے ہیں۔ جیتنے والے یوں کام نہیں کرتے یا کر نہیں سکتے کہ نہ جانے انہیں کب گھر جانا پڑے اور ہارنے والے خود کو جیتا ہوا سمجھ کر اقتدار سنبھالنے والوں کو کام کرنے نہیں دیتے کہ یہ حق تو ہمارا ہے۔ اب نواز شریف عدلیہ پر انگلی اٹھاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’سڑک پر پھرتے شخص کو کہا گیا آؤ ہم تمہیں انصاف دیں گے۔ میں پوچھتا ہوں اس ملک کے ساتھ ظلم کرنے کی ضرورت کیا ہے‘۔ کاش نواز شریف صرف کسی ایک واقعہ کو ظلم سے تشبیہ دینے کی بجائے ملک کی عمومی صورت حال میں سیاسی لیڈروں کے کردار کی بات کرتے یا عدلیہ کو اس کے دائرہ کار میں کام کرنے کا مشورہ دیتے۔

عوامی مفادات کا تحفظ منتخب لیڈروں کا کام ہے۔ ملک میں پارلیمنٹ کو موثر و فعال بنانے کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے لیکن نواز شریف سمیت متعدد لیڈر منتخب ہونے کا شوق تو رکھتے ہیں لیکن قومی اسمبلی میں باقاعدہ حاضر ہو کر وہ فرض ادا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے جس کے لیے انہوں نے عوام سے ووٹ مانگا تھا یا جس وجہ سے کسی حلقے کے عوام نے انہیں ووٹ دے کر اسمبلی میں بھیجا تھا۔ عدلیہ کا ایک فیصلہ تو نواز شریف اور وزیر اعظم شہباز شریف کے لیے ہضم کرنا مشکل ہو رہا ہے لیکن کیا ووٹ لے کر اسمبلی میں اپنے کام سے کوتاہی کا طریقہ عوامی مفادات و خواہشات کے برعکس طرز عمل نہیں ہے؟ ہو سکتا ہے سپریم کورٹ کی طرف سے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ کسی تفہیم کے مطابق ’ماورائے آئین‘ ہو لیکن کیا یہ بنیادی جمہوری اصول اور عوامی خواہشات کے بھی خلاف ہے؟

عوامی مفاد کو اگر سیاسی تعصبات سے آلودہ کیے بغیر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ عام انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کو جو نشستیں قومی اسمبلی یا دیگر اسمبلیوں میں حاصل ہوتی ہیں، انہیں اسی حساب سے مخصوص نشستوں کا کوٹہ تفویض کیا جائے۔ ایک لمحہ کے لیے اس کی قانونی پیچیدگیوں اور سیاسی غلطیوں کو بھلا کر اگر دیانت داری سے سوچا جائے تو انتخاب میں تحریک انصاف کے حامی امیدواروں کو جس شرح سے کامیابی حاصل ہوئی ہے، انہیں اسی حساب سے مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلہ میں یہی سادہ بات کی گئی ہے۔ نواز شریف نے ساری زندگی سیاست کے ذریعے ’عوامی خدمت‘ میں بسر کی ہے۔ وہ دیانتداری سے خود ہی سوچ لیں کہ یہ فیصلہ عوامی مفادات کے عین مطابق ہے یا اس کے خلاف؟ یہ کام اصل میں تو سیاسی پارٹیوں کو کرنا چاہیے تھا اور تحریک انصاف کا جائز حق اسے دینے پر صاد کہنا چاہیے تھا لیکن آئینی و قانونی موشگافیوں کی آڑ میں وہ اس بنیادی جمہوری اصول کو مسترد کر رہے ہیں۔

یہ وہی اصول و طریقہ ہے جس کے تحت 8 فروری کے عام انتخابات کے بعد جب تحریک انصاف کے امیدواروں کو قومی اسمبلی میں اکثریت ملی تھی تو اسے ہی مرکزی حکومت بنانے کا موقع ملنا چاہیے تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے اکثریت نہ ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے اس جمہوری و پارلیمانی استحقاق کو قبول نہیں کیا۔ اس معاملہ کا یہ ایک علیحدہ پہلو یہ ہے کہ تحریک انصاف اور متعدد دیگر پارٹیاں ان انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر ان کے نتائج قبول نہیں کرتیں لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف نے اسمبلیوں میں جانے اور حلف اٹھا کر ارکان کے طور پر کام کرنے سے انکار نہیں کیا۔ گزشتہ روز جمعیت علمائے اسلام (ف) نے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ تحریک انصاف خیبر پختون خوا اسمبلی توڑنے اور اسمبلیوں سے استعفے دینے پر تیار ہے۔ مولانا کی یہ وہی خواہش ہے جس کی تکمیل وہ تحریک انصاف کے خلاف مہم چلاتے ہوئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے بھی کروانا چاہتے تھے۔ تحریک انصاف نے البتہ مولانا فضل الرحمان کی اس خام خیالی کو مسترد کیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں اسمبلیوں سے تحریک انصاف کے استعفوں ہی کا انکشاف نہیں کیا بلکہ ملک کی تباہی کا مکمل منظر نامہ بھی پیش کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہمیں اس وقت سقوط ڈھاکہ جیسے حالات درپیش ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ مولانا انتخابات میں اپنی ناکامی سے اس حد تک مایوس ہیں کہ وہ عمران خان کے ساتھ طویل اور تلخ سیاسی و ذاتی چپقلش کے باوجود اب پی ٹی آئی کا ہاتھ تھام کر ہی سہی کسی بھی طرح ملکی سیاست میں اپنی شناخت قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کی کل سیاست مدرسوں کو قوت دلانے تک محدود ہے کیوں کہ انہی مدرسوں کے طالب علموں کے سہارے پر وہ ہر دور میں حکومتوں کو زیر دام لانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ مولانا، فوج اور دوسری سیاسی پارٹیوں کو آئینہ دکھانے کے علاوہ اگر خود بھی کبھی اپنے گریبان میں جھانک سکیں تو دیکھ سکتے ہیں کہ اگر انہیں خیبر پختون خوا سے قومی اسمبلی کی چند اور صوبائی اسمبلی کی اتنی سیٹیں مل جاتیں کہ وہ کے پی کے حکومت قائم کرنے میں ’بادشاہ گر‘ بن سکتے تو انہیں نہ تو دھاندلی دکھائی دیتی اور نہ ہی وہ تحریک انصاف کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہوتے۔

تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کا اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی سے اقتدار کی خواہش کے علاوہ کسی بھی سیاسی بنیاد پر کوئی مشترکہ ایجنڈا نہیں ہے۔ مولانا کی لڑائی خیبر پختون خوا کی انتخابی سیاست میں حصہ کے لیے ہے جبکہ عمران خان پنجاب میں اکثریت نہ ملنے پر فوج سے ناراض ہیں۔ لیکن اب دونوں مل کر اسی کشتی میں سوراخ کرنے کی کوشش میں ہیں جس پر سوار ہو کر وہ اقتدار کی منزل حاصل کر لیں۔ یہ منزل مل بھی گئی تو ڈوبتے جہاز کو سنبھالنے کی صلاحیت ان دونوں میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔

سنڈے ٹائمز میں عمران خان کا انٹرویو عالمی سطح پر توجہ حاصل کرنے اور پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی شدید خواہش کا المناک اظہار ہے۔ سنسنی خیزی کے اس دور میں سنڈے ٹائمز جیسا معتبر اخبار بھی سیاسی پروپیگنڈا شائع کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ پاکستانی سیاست کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ سیاسی فائدے کے لیے جھوٹ بولنے میں عمران خان، ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے سنڈے ٹائمز کو انہوں نے بتایا ہے کہ ’میں 7 ضرب 8 فٹ کی کوٹھری میں بند ہوں جو دہشت گردوں کے لیے ہوتی ہے۔ مجھے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور کسی سے میرا کوئی رابطہ نہیں۔ ہر وقت میری نگرانی کی جاتی ہے۔ مجھے قیدیوں اور انسانوں کو میسر بنیادی حقوق دینے سے انکار کیا جا رہا ہے‘ ۔ اس بیان پر حامی دھاڑیں مار کر رو سکتے ہیں اور مخالف اسے ہنس کر ٹال سکتے ہیں لیکن جیسے کسی قومی لیڈر کو قید کرنے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا، ویسے ہی اس لیڈر کی طرف سے جھوٹ پھیلانے کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ البتہ پاکستان کو اس کا شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

ایسے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر سعد رفیق نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ’سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مایوسی، جھوٹ، تشدد، کنفیوژن اور انتشار کا زہر پھیلایا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس صورت حال کا حصہ بن رہے ہیں۔ آئینی پامالی، زرد جمہوریت، معاشی بدحالی اور غربت جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہے۔ توڑنا آسان جب کہ جوڑنا بہت مشکل کام ہے۔ ایک دوسرے کے گریبان پھاڑنے اور دامن تار تار کرنے سے فرصت ملے تو سوچئے کہ ہم اجتماعی خود کشی پر کیوں تلے ہوئے ہیں‘۔ یہ بات مختلف الفاظ میں تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر اطلاعات کے منصب پر فائز فواد چوہدری بھی کہی تھی۔

اس گمبھیرتا پر غور کرنے کی نوبت تو تب آئے گی جب الزام تراشی، جھوٹ بولنے اور اپنی بجائے دوسروں کو خرابیوں کا ذمہ دار سمجھنے سے فرصت ملے گی۔ یا عوام میں سنسنی خیز اور ہیجان پیدا کرنے والی خبروں کی بجائے شعور و آگہی پیدا کرنے کی کوئی کوشش دکھائی دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 3124 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments