وینکوور میں پنجاب نہیں ہے (مکمل کالم)


ہائے وہ بھی کیا زمانہ تھا جب نہ کوئی ’ٹرپ ایڈوائزر‘ قسم کی ایپ ہوتی تھی اور نہ آن لائن ٹکٹ لینے کے لیے ’اسکائی اسکینر‘۔ تب سفر کرنا کسی ایڈونچر سے کم نہیں تھا، لوگ میزبان کے گھر کا پتہ جیب میں ڈال کر جب منزل مقصود پر پہنچتے تھے تو یہ جان کراُن کے پیروں تلے سے زمین نکل جاتی تھی کہ ’مقصود‘ صاحب تو اب اُس منزل میں نہیں رہتے۔ اُس وقت تک نہ کوئی انٹرنیٹ ہوتا تھا اور نہ فون، سو انسان آپس میں بات چیت کر کے کام چلا لیتے تھے۔ اب انسان کچھ نہیں کرتے، سب کچھ سسٹم کے تابع ہو گیا ہے، ہوٹل کے کمرے، جہاز کی ٹکٹ اور تفریحی مقامات کی سیر، یہ سب باتیں گوگل پر دستیاب ہیں، لہذا کسی انسان سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ہے، سو آدھا ایڈونچر تو یہیں ختم ہوجاتا ہے۔ کیلگری میں ہم نے ہوٹل میں کام کرنے والی خاتون سے پوچھا، جو ریٹائرڈ بھارتی کرنل کی بیگم تھی اور بقول اُن کے شوقیہ ملازمت کرتی تھی، کہ وینکوور میں دیکھنے کی جگہیں کون سی ہیں تو کہنے لگی کہ ویسے تو ہم کئی مرتبہ وینکوور گئے ہیں مگر بہتر ہو گا کہ آپ گوگل کر لیں۔ اور ہم نے گوگل ہی کیا، مگر گوگل نہیں بتا سکا کہ کرنل کی بیوی کو odd job کرنے کی کیا ضرورت!

اصولاً ہمیں کیلگری سے وینکوور بذریعہ سڑک سفر کرنا چاہیے تھا مگر مسافت کچھ زیادہ تھی اس لیے ارادہ ترک کر کے فلائٹ لے لی۔ برٹش کولمبیا کے بارے میں بچپن سے سن رکھا تھا کہ کینیڈا کا بے حد خوبصورت علاقہ ہے سو وینکوور آنے کی وجہ اس مشہوری کو چیک کرنا تھا۔ کیلگری کے مقابلے میں وینکوور بڑا شہر ہے، اِس قسم کے بڑے شہر پر اچٹتی سی نظر ڈالنے کا بہترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ آپ Hop on Hop off بس میں شہر کا چکر لگا لیں، اور ہم نے یہی کیا۔ لندن میں اگر بندہ اِس بس میں بیٹھے تو چکرا کر رہ جاتا ہے کہ وہاں چپے چپے پہ تاریخ بکھری ہے۔ وینکوور میں معاملہ اس کے برعکس تھا، ایک تو بس کی نشستیں بہت تنگ تھیں، دس منٹ بعد ہی ہم بیزار ہو گئے اور دوسرے وینکوور کے پاس بیچنے کو بھی کچھ نہیں۔ بیچاری گائیڈ نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح وینکوور کو ایک تاریخی شہر ثابت کرے مگر بے سود۔ وہ کسی بھی عمارت کی اہمیت کے بارے میں بتاتی تو پتا چلتا کہ زیادہ سے زیادہ پندرہ سال پرانی ہے۔ راستے میں کوئی کافی شاپ، دکان اور ریستوران ایسا نہیں تھا جس کو اس نے وینکوور کی شان نہ قرار دیا ہو۔ اصل میں گائیڈ کا بھی کوئی قصور نہیں، کینیڈا کے شہر ایسے ہی ہیں، نہ ان کی کوئی تاریخ ہے اور نہ ثقافت، تمام حسن اطراف میں بکھرا ہوا ہے۔ وینکوور چونکہ سمندر کے کنارے آباد ہے تو یہاں کے ساحلوں پر کافی رونق ہوتی ہے، لوگ نزدیک کے جزیرے وکٹوریا پارک جانا بھی پسند کرتے ہیں جہاں فیری کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے۔ فیری کے سفر سے ہمارا دل بھر چکا تھا اس لئے ہم نے وینکوور کے مضافات دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں Sea to Sky Gondola کمال کی جگہ ہے جو وینکوور سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ روزانہ درجنوں بسیں سیاحوں کو اس جگہ لے جاتی ہیں، اس سے ذرا آگے ایک قصبہ Whistler بھی ہے جو سکینگ کے شوقین افراد کے لیے آئیڈیل ہے لیکن ہم صرف گنڈولا تک ہی جا سکے۔ یہ ایک قسم کی چئیر لفٹ ہے جو سمندر کے کنارے سے آپ کو پہاڑ کی چوٹی تک لے جاتی ہے، اسے آپ انجینئرنگ کا شاہکار کہہ سکتے ہیں، گویا ’تو شب آفریدی چراغ آفریدم‘ کے مصداق یہاں خدا نے پہاڑ بنایا تو انسان نے چئیر لفٹ بنا دی۔ چئیر لفٹ جب اونچائی پر پہنچتی ہے تو نیچے سمندر کے کنارے کھڑی گاڑیاں بالکل ”ڈنکیاں“ دکھائی دیتی ہیں۔ پہاڑ کی چوٹی پر ایک ریستوران اور سووینیئر شاپ تھی مگر اصل دلکشی وہاں سے سمندر کا نظارہ تھا۔ پہاڑ کے ساتھ ہی ایک جھولتا ہوا پل بھی تھا جسے پار کر کے آپ پہاڑ کے دوسری جانب جا سکتے ہیں۔ اس قسم کی جگہوں پر چونکہ ایک ہی ریستوران ہوتا ہے جس کی اجارہ داری ہوتی ہے سو ہمارا خیال تھا کہ یہ خاصا مہنگا ہو گا مگر ان ممالک میں کمپنیاں قیمتوں کا تعین کچھ اس طرح کرتی ہیں کہ عام آدمی بھی سیاحت کا متحمل ہو سکتا ہے۔ جتنے پیسوں میں ہم نے یہاں کھانا کھایا اتنے پیسے اسکردو کے مضافات میں ایک ڈھابے والے نے ٹراؤٹ مچھلی کھلانے کے نام پر ہم سے لیے تھے۔

وینکوور کا ڈاؤن ٹاؤن کیکگری سے قدرے بہتر لگا، یہاں سمندر کے کنارے کھانے پینے کی بے شمار جگہیں ہیں جہاں بیٹھ کر آپ سورج ڈوبنے کا منظر دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ساحل کے کنارے ہم نے کھانا کھایا اور اپنے سامنے سورج غروب ہوتے دیکھا۔ یہ ایک ناقابل فراموش نظارہ تھا، پہلے سورج کی روشنی سمندر پر اپنی شعاؤں کو سمیٹتی ہے جسے دیکھ کر لگتا ہے جیسے سمندر کے بیچوں بیچ آگ لگی ہو اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ آگ معدوم ہوتی چلی جاتی ہے اور چند ہی منٹوں میں سرخ لکیر بن جاتی ہے اور جیسے ہی سورج پہاڑیوں کے پیچھے چھُپتا ہے، سمندر پر بنی وہ سرخ لکیر یک دم غائب ہوجاتی ہے۔ یہ سب کچھ چند لمحوں میں ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا اور ہم دیکھتے رہ گئے۔ شام کے سائے ڈھلنے لگے اور لوگ ساحل سے واپس اپنے گھروں کو جانے لگے۔ ’تابش اپنے بسیرے کی جانب چلو، اِس سے کیا تم کو سورج جہاں بھی گیا۔‘

ہر شہر کے کئی روپ ہوتے ہیں، وینکوور کے بھی ہیں۔ ایک روپ وہ ہے جو سیاحوں کے لیے ہے، اِس روپ میں وینکوور اپنے اندر کشش رکھتا ہے، شہر میں بے شمار ٹور کمپنیاں کام کر رہی ہیں جو سیاحوں کو انواع و اقسام کے سیاحتی پیکج پیش کرتی ہیں، تاہم دانشمندی اور پیسے بچانے کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ٹور کمپنی کی بجائے مقامی بس یا ٹرین کے ذریعے تفریحی مقامات تک جائیں اور خود اُن جگہوں کی ٹکٹ خریدیں، اِس سے تقریباً پچاس فیصد کی بچت ہوتی ہے، آزمودہ نسخہ ہے۔ وینکوور کا دوسرا روپ شہر کے نشئی لوگ ہیں، مشرقی ہیسٹنگز کے علاقے میں یہ لوگ سڑک کے کنارے پڑے رہتے ہیں، وہاں کے کاروبار اِن لوگوں کی وجہ سے اِس قدر متاثر ہوئے کہ بعض تو بند ہی ہو گئے۔ اِن کا کوئی گھر بار نہیں، حکومت انہیں رہنے کے لیے پیسے دیتی ہے مگر یہ نشے میں اڑا دیتے ہیں۔ اگر کوئی سیاح وینکوور آئے اور مشرقی ہیسٹنگز دیکھ کر واپس چلا جائے تو اسے یہی لگے گا جیسے وینکوور میں فقط بے گھر نشئی ہی رہتے ہیں۔ اسکولوں کالجوں میں بھی نشہ آور ادویات کا استعمال عروج پر ہے اور یہ کینیڈا کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں نشے کے عادی بنتے جا رہے ہیں اور حکومت اِس معاملے میں کچھ بے بس ہی نظر آتی ہے۔

کیلگری کی طرح وینکوور میں بھی سکھوں کی بڑی تعداد آباد ہے، ہم جس کو بھی بتاتے کہ لاہور سے تعلق ہے تو وہ جواب میں کہتا کہ پھر تو اپنے ہی ہوئے، اسی وی پنجاب تو آں۔ لاہور، امرتسر، ننکانہ صاحب، لدھیانہ، قصور، چندی گڑھ۔ اور اب وینکوور۔ دیکھا جائے تو انسان کبھی مطمئن نہیں ہو سکتا۔ ایک سردار نے بتایا کہ ہم پنجاب چھوڑ کر وینکوور آئے، یہاں کا موسم اچھا ہے، آب و ہوا صاف ہے، قانون کی عملداری ہے، دودھ خالص ملتا، ٹریفک ٹھیک چلتی ہے، انصاف کا بول بالا ہے، وہ سب کچھ ہے جو ہم چاہتے تھے، اگر کچھ نہیں ہے تو پنجاب نہیں ہے، ہمارے میلے ٹھیلے، ویاہ شادیاں نہیں ہیں، اپنی گلیاں، اپنے کوچے نہیں ہیں۔ انگریزی کا محاورہ ہے You cannot have best of both the worlds، یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم وینکوور آ جائیں اور اپنا پنجاب بھی ساتھ لے آئیں۔ یہ تومن چلے کا سودا ہے، چاہے کٹھا لے چاہے مٹھا۔ ایسا بھی نہیں کہ باہر سیٹل ہونے والا ہر شخص ہی واپس آنا چاہتا ہے، بے شمار لوگ وہاں اپنی زندگیوں میں خوش اور مطمئن ہیں، خاص طور سے اپنے پاکستانی، اور اِس کی وجہ ملک کی وہ خبریں ہیں جو وہ روزانہ ٹی وی پر دیکھتے ہیں اور دل ہی دل میں شکر ادا کرتے ہیں کہ اچھا ہوا ہم یہاں کینیڈا آ گئے۔ یہ اور بات ہے کہ کینیڈا میں انہیں اک اور دریا کا سامنا ہے!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 582 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments