عہد ساز لوگ: پروفیسر ڈاکٹر خواجہ صادق حسین


muhammad salim gujranwala

کسی شخص میں ایک دو خوبیاں یا ایک دو نظریات ہوتے ہیں، لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو خوبیوں کا مرقع اور سراپا نظریہ ہوتی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ صادق حسین سابق پرنسپل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کا شمار بھی انہیں شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ جہاں ایک قابل اور درد دل رکھنے والے معالج تھے وہاں ایک پکے سچے مسلمان اور پاکستانی بھی تھے جن میں خدمت خلق انسانیت، اسلام اور پاکستانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

وہ امرتسر کے مردم خیز خطہ میں 1927 میں پیدا ہوئے اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے بہترین طالب علم کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ بائیس برس تک شعبہ میڈیسن کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پروفیسر اور چھ برس تک اس عظیم طبی ادارے کے پرنسپل بھی رہے۔ ان کے تربیت یافتہ شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو پاکستان سمیت برطانیہ، امریکہ اور دوسرے ممالک میں اپنی اعلیٰ طبی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے بڑے بڑے ڈاکٹر تیار کیئے جن میں پروفیسر محمود علی ملک، ڈاکٹر شہر یار احمد، پروفیسر جاوید اکرم، پروفیسر خالدہ ترین، پروفیسر خالد مسعود گوندل، کیمکانا امریکہ، برطانیہ کے ہونہار ڈاکٹرز اور جماعت 83۔88 کے ساڑھے چار سو ڈاکٹرز شامل ہیں۔

انہوں نے 1942 میں لیاقت علی خان کو اور 1950 میں محترمہ فاطمہ جناح کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں مدعو کیا تھا۔ 1952 میں انہوں نے رائل کالج آف ایڈنبرا سے میڈیسن میں ایم آر سی پی کی ڈگری حاصل کی۔

پروفیسر خواجہ صادق حسین کو قائد اعظم سے ملنے کا شرف بھی حاصل ہے اور وہ قائد کے حفاظتی دستے میں بھی شامل رہے۔ انہوں نے کرنل الہٰی بخش کی لکھی ہوئی کتاب قائد اعظم کے آخری ایام کا مسودہ بھی پڑھا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی ان کی ملاقات رہی۔ ڈاکٹر ابوبکر غزنوی اور ڈاکٹر اسرار احمد کے دروس قرآن سے مستفید ہوئے اور پھر ساری عمر قرآن مجید اور اس کی تعلیمات سے جڑ گئے۔ وہ کہتے تھے جو اچھا مسلمان نہیں وہ اچھا معالج بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ انہوں نے لاہور کے حجاز ہسپتال میں پندرہ برس تک اپنی طبی خدمات مفت فراہم کیں۔ پشاور کے ہسپتالوں میں افغانستان کے زخمیوں کا علاج معالجہ کیا۔ مریض کی دوائیاں لکھتے ہوئے اس کی جیب کو ضرور مد نظر رکھتے۔ ان کے آدھے سے زیادہ مریض مفت کے ہوتے تھے۔ وہ غیر ضروری اور مہنگے طبی جانچ پڑتال اور ٹیسٹوں کے خلاف تھے۔ وہ کہتے تھے مرض کی تشخیص ان غیر ضروری ٹیسٹوں کے بغیر بھی ممکن ہے۔

ان کی خود نوشت ریفلکیش پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے جس کی تقریب رونمائی ان کے شاگرد ڈاکٹرز اور دوستوں نے منعقد کی۔ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ بطور انڈین کے ای میں داخل ہوئے اور بطور پاکستانی اس میں سے ڈاکٹر بن کر نکلے۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ میڈیکل پروفیشن پہلے ایک مشن ہوتا تھا جو بد قسمتی سے اب کمیشن بن گیا ہے۔ ہر ڈاکٹر کی نظر مریض کے بجائے اس کی جیب اور دوا ساز کمپنیوں کے کمیشن پر ہوتی ہے۔ انہوں نے مسلم ہیلپنگ ہینڈز کے نام سے ایک خدمت خلق تنظیم بھی بنائی تھی جو ملک اور بیرون ملک ناگہانی حالات میں دکھی انسانیت کو طبی خدمات فراہم کرتی ہے۔

پروفیسر خواجہ صادق حسین 97 برس تک چاق و چوبند اور فعال رہے۔ ان کے شاگرد بوڑھے ہو گئے لیکن وہ اور ان کا جذبہ خدمت خلق جواں رہا۔ ان کے تربیت یافتہ ہزاروں ڈاکٹرز اور ان سے شفایاب ہزاروں مریض ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔ 9 جون 2024 ء کو پاکستان کے شعبہ طب کا کرنیں بکھیرنے والا یہ عہد ساز ستارہ اپنے خالق حقیقی کے خضور پیش ہو گیا۔ رب کریم ان کی کامل بخشش کرے اور درجات بلند کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments