کلون مارکیٹ اور 150 روپے کی تھالی


یہ اس زمانے کے جاڑے کی بات ہے جب وقت تیزی سے نہیں گزرتا تھا۔ شام ہوتی تھی تو پورے اہتمام سے ہوتی تھی اور جب رات آتی تھی تو گلیوں تک سناٹا چھا جاتا تھا۔ اسی سناٹے بھری سردی میں کسی گھر کے عقبی دروازے کی چٹخنی کھلتی اور چادر اوڑھے کوئی جسم اس بازار کا رخ کرتا جو مردار مچھلیوں کے لیے مشہور تھا۔ لوگ ان مچھلیوں کو معجون سمجھ کر کھاتے اور تن کی سردی بھگاتے لیکن اسی مچھلی مارکیٹ کے نواح میں گول تھالیوں والی وہ دکان تھی جہاں تمام تر ممنوعہ اشیا کا کاروبار ہوتا تھا اور یہاں کے بیوپاری صرف رات کو اکٹھے ہوتے تھے۔

کہنے کو مچھلی مارکیٹ لیکن دراصل یہ لذتوں کے کلون تیار کرنے والی فیکٹری تھی۔ یہاں داخل ہوتے ہی زمین پر بیٹھے کاریگر ایک ماسٹر پرنٹ ڈی وی ڈی کے چھتیس کلون پرنٹ تیار کرتے اور ان کے ٹائٹل اس دور کے مہنگے کلر پرنٹر پر نکال کے ان ڈی وی ڈی کے سینوں پر چھاپ دیتے۔ جو کلون زیادہ بکتا، اس کی شامت زیادہ آتی اور ڈی وی ڈی کی ان رنگین تھالیوں کی ایسی سیل لگ جاتی کہ ہر سستا خریدار بھی مہنگے دام دینے کو تیار ہو جاتا۔

اس دنوں ڈی وی ڈیز کے بڑے چرچے تھے۔ عام تفریح کی 20 والی چیز پہلے ہی 40 کی مل رہی تھی لیکن خاص مشقوں کے مناظر والی تھالی کی قیمت 150 روپے تھی اور یہ 150 کتنا ہوتا ہے یہ صرف وہی جان سکتا ہے جس کو جیب خرچ میں صرف 5 روپے ملتے ہوں۔ لہذا اسے مہینوں لگ گئے یہ 150 جوڑنے میں کیوں کہ اب اسے اصل مشقوں کی جانب آنا تھا۔

مال ہاتھ میں آیا تو وہ بھی اسے اپنے اسی لحاف میں لپیٹ کر کہر برساتی، خالی گلیوں کے شارٹ کٹ راستوں سے ہوتا گھر پہنچنے لگا لیکن اس سے پہلے کہ راستے میں کوئی اس جیسا سر پھرا اسے دیکھتا اور سفید سردی میں پیلے پڑتے اس کے چہرے کا سبب پوچھتا۔ اس نے موقع ڈھونڈتے ہوئے ٹوٹی ہوئی سٹریٹ لائٹ کے کھمبے کا سہارا لیتے ہوئے ڈی وی ڈی کے ٹائٹل پرنٹ وہیں پھاڑ کر نالی میں بہا دیے کیونکہ وہ قابل اعتراض تھے۔

گھر پہنچا تو گھر کے عقبی حصے کا وہی دروازہ کھولا جسے وہ چور رستہ کہتا تھا لیکن آج اسے خود اس چور رستے کی ضرورت تھی۔ کمرے میں پہنچ کر اس نے سب سے پہلے خود پے اوڑھی وہ گرم چادر اتار پھینکی جو اب اس کی برداشت سے باہر تھی کیونکہ تسکینِ خواہش کے خوف نے اس کے جسم کو اتنا گرما دیا تھا کہ اب اسے فی الوقت اس چادر کی ضرورت نہیں تھی۔ اس نے کمرے کے ٹوٹے دروازے کی اوٹ سے صحن میں دیکھا تو اندرون حصے کی ٹھنڈک کو بھگانے کے لیے جلائی انگیٹھی صحن میں کوئلوں کی راکھ بنی اپنی آخری سانسیں گن رہی تھی۔ یہ اک اور نشانی تھی کہ گھر والے سو گئے ہیں۔

مطمئن ہو کر اس نے اِس مشین کو جنبش دی جو محض خریدی ہی اس لیے گئی تھی کہ اسے ذاتی کاموں کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ اسپیکروں کا والیم کم کیا، کی بورڈ پر انگلیاں گھمائی اور پھر اندھیرے کمرے میں نیلی روشنی کے ابھرنے کا انتظار کیا۔

کمپیوٹر کی خالی سکرین اس کے سامنے تھی اور ان رنگین تھالیوں کو نگلنے والے خانے کا منہ کُھلا تھا۔ اس نے خریدا گیا مال اس خانے کے سپرد کیا اور مناظر کے کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔

یوں منظر کھلا تھا تو پتا چلا کہ بات ساری جُوڑوں میں بَٹے اجسام کی تھی جو لبوں کی حلاوٹ سے تنہائی کے آسیب کو دُور کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ جو پانی کی تشفی سے آتش کدے بنانا جانتے تھے اور جنہیں معلوم تھا کہ فطری ذائقوں کے سوا قدرت نے مٹھاس اور کن چیزوں میں رکھی ہے۔

یہ سب مناظر اس قدر حیرت انگیز تھے کہ اسے دسمبر کی ٹھٹھرتی راتوں میں بھی جون یاد آنے لگا تھا اور وہ حیران تھا کہ ڈھائی گھنٹوں میں بھی یہ زہر، زہر ہونے کے باوجود منہ سے کیوں نہیں اتر رہا۔

اس رات اسے لگا کہ جیسے خود اسے کسی آسیب نے آ گھیرا ہے اور اس کی بینائی کو کمزور کر دیا ہے کیونکہ اب اسے سب دھندلا دکھائی دے رہا تھا۔ آخرکار اُسے دور کہیں سے سنائی دیتی کسی سسکیوں کی آواز نے منتشر کیا اور اس نے آنکھیں بند کرلی۔

اس رات اس نے تہیہ کیا کہ وہ آئندہ سردیوں کی راتوں میں یہ حماقت دوبارہ کبھی نہیں کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments