تجدید نو۔ 14 اگست


 

برطانوی مملکت سے 77 سال پہلے 15 اگست 1947 کو ہمیں آزادی کا سورج دیکھنا نصیب ہوا۔ اس دن اقوام عالم میں ایک نیا ملک معرض وجود میں آیا جس کو پاکستان کا نام دیا گیا۔ آج شاعر مشرق علامہ اقبال کے اس خواب کو تعبیر مل رہی تھی۔ جس میں انہوں نے مملکت پاکستان کو متحدہ انڈیا میں مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ ریاست دیکھا تھا۔ بعد میں 14 اگست کو یوم آزادی قرار دے دیا گیا۔

جنگ پلاسی 1757 ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فتح سے انڈیا کی تاریخ کا دھارا یکسر موڑ دیا گیا۔ اب انگریز انڈیا پر بلا غیر شرکت قابض ہو چکے تھے اور تمام مملکت انڈیا کو سرنگوں کر چکنے کے بعد برطانوی تاج کے قوانین جاری کر دیے۔ 1858 ء میں غدر کی ناکامی کی وجہ سے مسلمانوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ انہیں پاپند سلاسل کر دیا گیا لیکن ان کے پائے استقلال میں کوئی فرق نہ پڑا۔

مغل بادشاہت کا خاتمہ بہادر شاہ ظفر کی رنگون برما موجودہ میانمار جلا وطنی کے ساتھ ہوا۔ اسی کے ساتھ انگریز وائسرائے کی عملداری میں انڈیا آ گیا جو برطانوی پارلیمان کو جواب دہ تھا۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہوئے اور مسلمان قیادت نے 1906 ء میں اپنی علیحدہ سیاسی پارٹی مسلم لیگ قائم کر دی۔ مارچ 1940 ء میں مسلم لیگ نے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں قرار داد منظور کرتے ہوئے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ ریاست ”پاکستان“ کا مطالبہ کر دیا۔ اس قرار داد کو بعد ازاں قرار داد پاکستان کا نام دے دیا گیا۔ انگریز سرکار نے آخر کار 15 اگست 1947 ء کو پاکستان کی آزادی کا پروانہ جاری کر دیا۔ اور اس دن کی ابتدائی گھڑی میں پاکستان آزاد ہونے کی نوید نے جشن کا سماں باندھ دیا۔ لیکن اس آزادی کی مسلمانوں کو خونی قیمت ادا کرنا پڑی۔ ایک ایسی ریاست معرض وجود میں آئی جس کے دو صوبوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ پاکستان اور ہندوستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد متحدہ انڈیا کے تمام اثاثے انڈیا کی نئی حکومت کے پاس چلے گئے۔ جس نے پاکستان کو اس کے حصے کے اثاثے دینے میں حیل و حجت سے کام لینا شروع کر دیا اور اسی کے ساتھ کشمیر میں غیر قانونی طور پر اپنی فوجیں اتار دیں۔ جو دونوں نئے ممالک کے درمیان وجہ تنازعہ بنا اور آج تک اس کا کوئی پائیدار حل ممکن نہ ہو سکا۔ آج پاکستان کو آزاد ہوئے 77 سال ہو چکے اور ہم منزل سے بھٹکتے جا رہے ہیں۔ ہر سال 14 اگست کا دن تمام پاکستانیوں کو تجدید نو کی نوید سناتا ہے لیکن شومئی قسمت ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ آئیے! اس دن ہم پاکستان کی تجدید نو کیسے کی جائے، اس کے بارے سوچتے ہیں۔ اس میں سب سے پہلے ایک جامع حکمت عملی درکار ہے جس میں مختلف پہلوؤں پر توجہ دی جائے۔ مندرجہ ذیل چند اہم اقدامات ہیں جو پاکستان کی تجدید نو میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں :

تعلیم: تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے نصاب میں اصلاحات ہوں۔ تا کہ ہر بچے کو معیاری تعلیم تک رسائی فراہم ہو سکے۔ تعلیمی اداروں کے انفراسٹرکچر کو بہتر کرنا۔

صحت:صحت کی سہولیات کی فراہمی کو بہتر بنانا۔ دیہی علاقوں میں صحت کے مراکز قائم کرنا۔ عوام میں صحت کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا۔

اقتصادی ترقی: ہماری موجودہ اقتصادی حالت سب کے سامنے ہے۔ ہمیں صنعتی ترقی کی حوصلہ افزائی کرنا۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کی حمایت کرنا ہو گی تا کہ ہماری اقتصادی ترقی کی بنیاد مستحکم بنیادوں پر قائم ہو سکے۔ زراعت کے شعبے میں بھی جدید ٹیکنالوجی متعارف کرانا پڑے گی۔

ہمارے ملک کے انفراسٹرکچر میں سڑکوں، پلوں اور ریلویز کی مرمت اور تعمیر ایک سنگین مسئلہ اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ بھی توجہ طلب ہے۔ اسی کے ساتھ جدید مواصلاتی نظام قائم کرنا اور توانائی کے متبادل ذرائع پر سرمایہ کاری کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان سب باتوں سے افضل، طرز حکمرانی میں شفافیت اور احتساب کے نظام کو مضبوط کرنا لازم ہے۔ جب قانون کی حکمرانی یقینی ہو تو ملک انارکی سے بچتا ہے۔ حکومتی فیصلوں میں عوامی رائے کو شامل کرنا اور اس کا احترام ہی جمہوریت کا حسن ہے۔ ہمیں ماحولیاتی تحفظ کے لیے موثر اقدامات کرنے، جنگلات کی حفاظت اور مزید پودے لگانے کی مہمات متواتر چلانی چاہیے۔ اس کے علاوہ آلودگی پر قابو پانے کے لئے سخت قوانین بنائے جائیں۔ جس معاشرے میں سماجی انصاف نہیں ہو گا وہ ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ ہمیں خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرنا غربت کے خاتمے کے لئے منصوبہ بندی نیز معاشرتی انصاف کے اصولوں کو فروغ دینا ہو گا۔ یہ چند اقدامات پاکستان کی تجدید نو کے لیے بنیاد فراہم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، عوامی شمولیت اور ملکی و بین الاقوامی تعاون بھی اہم ہے تاکہ ان مقاصد کو حاصل کیا جا سکے۔ نیز ہر شہری کو مملکت پاکستان کے ساتھ اپنا تجدید نو کرتے ہوئے اس کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ جس کی کئی صورتیں ہیں۔ ان میں سر فہرست بچوں کی تعلیم و تربیت، ان کی صحت، مقامی مصنوعات خریدنے کی ترغیب، چھوٹے کاروباروں کی حوصلہ افزائی، نئی مہارتیں سیکھ کر اپنی پیشہ ورانہ قابلیت میں اضافہ کرنا، ماحولیاتی تبدیلی کے لئے درخت لگانا اور ان کی حفاظت، توانائی کی بچت، صفائی کی اہمیت، سماجی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، انتخابات میں دیانت داری سے اظہار رائے کا اظہار کرنا، پرامن احتجاج اور مطالبات کے ذریعے اپنی آواز بلند کرنا، قانون کی پاسداری مختلف فلاحی اور سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر رضاکارانہ کام کرنا، عوامی شمولیت سے نہ صرف معاشرتی مسائل کا حل ممکن ہو گا بلکہ ملک کی ترقی اور تجدید نو میں بھی اہم کردار ادا کیا جا سکے گا۔ آئیے! تجدید نو کرتے ہوئے ایمانداری کے ساتھ ملکی ترقی کے لئے اپنا حصہ ڈالنے کا عہد کریں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments