بنگلہ دیش: کچھ یادیں، خدشات اور امکانات!


کرنل صاحب کے والد مشرقی پاکستان میں ایک اہم سرکاری عہدے پر تعینات تھے۔ نوکری سے ریٹائر ہوئے تو مضافات میں چائے کا ایک باغ خریدا اور پنجابی خاندان وہیں گھر بنا کر آباد ہو گیا۔ سال 1971 ء کے پر آشوب مہینوں میں جب فضاء خون کی باس سے بوجھل تھی تو ایک رات مکتی باہنی والے کھانے کی میز کے گرد بیٹھے بے گناہ مرد و زن پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑے۔ ٹھیک تین برس پہلے، میں نے کرنل صاحب سے واقعے پر کچھ لکھنے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے کہا، ’ایک دوسرے پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستانیں تو ایک سے بڑھ کر ایک ملیں گی، ضرورت ہے کہ بربریت کے ڈھیر میں سے نفیس انسانی جذبوں کو ڈھونڈا جائے‘ ۔

اٹھارہ برس پہلے، سوڈان میں تعینات کی جانے والی اقوام متحدہ کی امن فورس کی ساخت اس لحاظ سے منفرد تھی کہ اس میں پہلی بار بھارتی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی دستے ایک ساتھ بین الاقوامی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے تھے۔ خرطوم میں واقع کثیر القومی امن فورس کے ہیڈکوارٹرز میں ملٹری پولیس کی ڈیوٹی بنگالیوں کے سپرد تھی۔ ہم میلوں دور واقع پاکستانی اپنے کیمپ سے جب کبھی فورس ہیڈکوارٹرز آتے تو سب سے پہلے بنگلہ دیشی ملٹری پولیس سے واسطہ پڑتا۔

ہمارا مجموعی تاثر یہی تھا کہ بنگالی ہمارے ساتھ احترام مگر خشک مزاجی سے پیش آتے۔ ہم میں سے اکثر کا اندازہ یہی تھا کہ ایسا وہ اپنی مخصوص ذمہ داریوں کی بناء پر کرتے۔ تاہم ایک رائے یہ بھی تھی کہ ’لبریشن جنگ‘ کے بعد پروان چڑھنے والے بنگلہ دیشیوں کے بظاہر ’درشت‘ رویے کی جڑیں دو ملکوں کے مابین تلخ ماضی میں پیوست ہیں۔ دیکھا جائے تو پاک و ہند تعلقات میں خونریزی، دشمنی اور مسلسل مخاصمت کی تاریخ کہیں طویل اور تلخ ہے۔

تاہم اس کے باوجود بنگالیوں کے برعکس، بھارتی افسروں سے ہماری بے تکلفی کہیں بڑھ کر رہتی۔ بھارتی بات بات پر دو ملکوں کے درمیان مشترکات کی نشان دہی کرتے۔ بھارتیوں کی ہمارے ساتھ غیر معمولی گرم جوشی سے متعلق ہمارا اندازہ یہی تھا کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کو زمین پر کچھی محض ایک لکیر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جس نے دو اطراف ایک جیسے کلچر کے حامل انسانوں کو تقسیم کر رکھا ہے۔ بنگلہ دیشیوں سے ہمارے تعلقات کی نوعیت مختلف تھی۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کو ایک حقیقت کے طور تسلیم کر رکھا ہے اور اس کے وجود کے درپے ہر گز نہیں۔

چند بنگلہ دیشی افسر مقامی ہیڈکوارٹرز میں بھی تعینات تھے۔ وہ ہمارے ساتھ پاکستانی کیمپ میں رہتے۔ میرے عزیز دوست اور پیش رو کمانڈنگ افسر نے ان بنگالی افسروں کو ہر ویک اینڈ پر بٹالین کے میس میں رات کے کھانے پر مدعو کرنے کی روایت قائم کر رکھی تھی۔ میں نے یونٹ کی کمان سنبھالی تو خیر سگالی پر مبنی اس سلسلے کو برقرار رکھا۔ تاہم سب دلجوئی کے باوجود کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا کہ ایک آدھ کو چھوڑ کر بنگالی افسروں کے رویے میں کہیں نہ کہیں اندرخانے سرد مہری موجود رہتی۔

مشن کے خاتمے پر میرا دفتر میں آخری دن تھا۔ میں میز کے درازوں سے اشیاء سمیٹنے میں مصروف تھا کہ اُن میں سے ایک بنگالی افسر پہلی بار مجھ سے دفتر میں ملنے آیا۔ چائے آئی اور ہم کافی دیر گپ شپ کرتے رہے۔ اس دوران وہ نوجوان بنگالی افسر میری میز کے عقب والی دیوار پر ٹنگی قائدِاعظم کی تصویر کو وقفے وقفے سے خاموشی کے ساتھ دیکھتا اور ہم باتوں میں مگن ہو جاتے۔ رخصت ہوا تو گلے ملنے کے بعد اس نے مجھے قرآنی آیات سے مزین ایک خوبصورت ’کی چین‘ تحفے میں دی۔ دو عشرے بیت گئے، بنگالی افسر کا تحفہ اب بھی میرے پاس محفوظ پڑا ہے۔

2021 ء کے کہیں وسط کی بات ہے، سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پیدا ہونے والے ایک نوجوان بنگلہ دیشی فوجی افسر نے ’جنگِ آزادی‘ میں پاکستان کی طرف سے لڑنے والے ’میجر لہراسب‘ کی کئی سالوں بعد ’میجر جنرل لہراسب‘ کی حیثیت میں بنگلہ دیش میں اپنی سابقہ 1 ایسٹ بنگال رجمنٹ کے دورے کی بطور ’کنڈکٹنگ افسر‘ روداد لکھی ہے۔ جنرل کا اپنی سابقہ پلٹن کے پرانے ساتھیوں اور جو وفات پا چکے تھے، اُن کے خاندانوں سے ملنے ان کے گھروں میں جانا، اپنے بنگالی کمانڈنگ افسر کی ضعیف بیوہ کے گھر چائے کی دعوت پر تاخیر سے پہنچنے پر سر جھکا کر اُن کی ڈانٹ سننا، پرانے ساتھیوں کے ساتھ گھنٹوں پرانی یادیں تازہ کرنا، کبھی آنکھوں میں آنسو بھر آنا تو کبھی بے اختیار کھلکھلا کر ہنس دینا، یقیناً اس نوجوان بنگلہ دیشی افسر کے لئے حیران کن مشاہدات تھے۔ واپسی کے لئے جنرل صاحب ہیلی پیڈ پر پہنچے تو 1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں زخمی ہونے والا ان کی یونٹ کا ایک بوڑھا بنگالی لانس نائیک وہاں کھڑا اُن کا منتظر تھا۔ دونوں گلے ملے، اور زار و قطار روتے رہے۔

بنگلہ دیش میں ہونے والے حالیہ واقعات پر تبصرے اور تجزیے جاری ہیں۔ کچھ دن گزریں گے تو ہی دھند چھٹے گی۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش میں بدلنے کے بعد ایک پوری نسل ’تین ملین بنگالیوں کے قتل عام اور ان کی تین لاکھ عورتوں کی عصمت دری‘ کیmyth کے زیرِاثر پروان چڑھی ہے۔ تاہم بنگالیوں کی وہ نسل جو بنگلہ دیش بننے کے بعد بیرونِ ملک پل کر جوان ہوئی، یک طرفہ ظلم و بربریت کی کہانیوں سے اس قدر متاثر نہیں ہے۔ اب تو خود متعدد بنگالی دانشور اور سکالرز بھی ان دعووں کی نفی میں ناقابلِ تردید شواہد سامنے لا چکے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ بہیمانہ زیادتیاں ہر دو اطراف سے ہوئیں۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ خود پاکستان کے اندر بھی ایک گروہ ایک خاص مقصد کے تحت یک طرفہ ظلم و بربریت کی داستانوں اور مبالغہ آمیز اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام کے مابین فاصلے کم کیے جائیں۔ اندازہ یہی ہے کہ پچھتاوے کا احساس کہیں نا کہیں دونوں طرف موجود ہے۔ کیا کئی برساتوں کے بعد بالآخر دو برادر ملکوں کے مابین خون کے دھبے دھلنے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں؟

پاکستان اور بنگلہ دیش دو آزاد اور خودمختار ریاستیں ہیں۔ نئی ابھرنے والی صورتحال کے پیشِ نظر ہمیں دونوں برادر ملکوں کے مابین دو طرفہ تعلقات میں پیدا ہونے والے امکانات کا جذباتیت کی بجائے حقیقت پسندی کے ساتھ جائزہ لینا ہو گا۔ تقسیم ہند کے وقت قائداعظم نے بنگال کے وزیرِاعظم سہروردی صاحب کو پاکستان سے باہر مگر متحدہ بنگال کے قیام کی تجویز کے ساتھ کانگرس اور وائسرائے سے براہِ راست مذاکرات کی اجازت دی تھی۔

صدر ایوب کے زمانے میں بھی اس سے ملتی جلتی ایک تجویز زیرِ غور آئی تھی۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ جنوب ایشیا میں واقع دو بڑے خود مختار مسلم ممالک کے تعلقات مگر کیا اب بھی کچھ انہی خطوط پر استوار ہو سکتے ہیں کہ جنہیں پیشِ نظر رکھتے ہوئے قائدِاعظم نے حسین شہید سہروردی کو نہرو اور ماؤنٹ بیٹن کے پاس بھیجا تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments