تین سو مائیکرو اسکول اور سندھ کے 7.6 ملین بچوں کی تعلیم
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو تین سو مائیکرو اسکول قائم کرنے کے لئے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے لیے 800 ملین روپے کی منظوری دی ہے۔ سی ایم مراد علی شاہ نے ایس ای ایف کے ایم ڈی کبیر کو رواں تعلیمی سال 2025۔ 26 میں 300 ڈیجیٹل مائیکرو اسکول قائم کر کے لئے 3 لاکھ اسکول سے باہر بچوں کو اسکول لانے کا ہدف دیا۔ اس سے پھلے سیف کی کارکردگی کیا ہے اس پر بھی ہم ایک نظر ڈالیں گے۔ مگر اس سے پھلے سی ایم سندھ کے اس فیصلے پر بات کرتے ہیں۔
مائیکرو اسکولنگ، جو ایک کمرے کے اسکول ہاؤس کے روایتی تصور کو جدید بناتی ہے، جو پسماندہ علاقوں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے اسمارٹ فونز، ٹیبلیٹس آئی پیڈز کا استعمال کیا جائے گا۔
پہلا نکتہ یہ ہے کہ مائکرو اسکولنگ کے ذریعے صرف 2 گھنٹے بچوں کو ٹیبلیٹ اور آئی بیڈ کے ذریعے پڑھایا جائے گا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ سندھ میں اسکولز سے باہر بچوں کی تعداد جہاں ستر لاکھ سے بھی زیادہ ہے، جہاں لاکھوں کی تعداد میں بچے کئی دہائیوں سے تعلیم سے محروم ہیں اور وہ بچے کسی بھی اسکول میں نہیں جاتے! وہاں ایسے ایجوکیشن ماڈل لانے کی کیا ضرورت پڑی؟ پہلے تو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ماتحت اسکولوں میں کیا بچوں کو بنیادی سہولیتں میسر ہیں کیا پینے کا صاف پانی مہیا ہے، کیا ان بچوں کو پوری کتابیں ملتی ہیں؟
یا یہ ڈیجیٹل ماڈل متعارف کرانے کا مقصد صرف دکھاوا ہے یا سندھ حکومت عملی طور پر سندھ کی تعلیم کو بہتر بنانا چاہتی ہے۔ کیوں کہ جہاں ستر لاکھ سے زیادہ بچے اسکولوں سے باہر ہیں وہاں ایک ارب ایس ای ایف کو دے کر ڈیجیٹل اسکول بنانے کی ضرورت پیش کیوں آئی۔
کیا ماضی کے ریکارڈ میں ایس ای ایف اسکول سے باہر لاکھوں بچوں کو انرول کر پائی ہے یا سی ایم سندھ بغیر ڈیٹا، بغیر اسکول کے دوروں کے تعلیم کو بہتر بنانے چلے ہیں۔ ایک طرف تو سندھ کے اسکولوں میں اساتذہ حاضری کو بائیو میٹرک نہیں کر سکے، ایک تحقیق کے مطابق 56 ہزار سے زائد اساتذہ ایک ماہ میں صرف ایک یا دو دن اسکول جاتے ہیں۔ مگر پھر بھی سی ایم سندھ کو لگتا ہے کہ سندھ کے تعلیمی نظام میں انقلاب برپا ہو گیا ہے۔ جب کہ تعلیم اب اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی سبجیکٹ بن گیا، اس کے باوجود سندھ تعلیم کے معیار میں دوسرے صوبوں سے بہت پیچھے کیوں ہے؟ اور معیاری تعلیم کا کوئی تصور نہیں! صرف بجٹ کا 25 فیصد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے اس میں بھی اوپر سے نیچے تک کرپٹ لوگ شامل ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے سندھ میں تعلیمی نظام تباہ نظر آئے گا، ایک تو دیہی علاقوں میں کئی اسکول دہائیوں سے بند ہیں۔ وہ گھوسٹ اسکول کہلاتے ہیں۔ نقل کا کلچر عروج پر ہے اور تعلیمی بورڈ سفارش اور پیسوں سے اعلیٰ گریڈ دیتے ہیں۔ میرٹ کی بنیاد پر کم بچوں کو ان کے گریڈ ملتے ہیں۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اسکولوں کا انفراسٹرکچر تباہ کن حالت میں ہے، اس کو اپ گریڈ کیا جاتا، اسکولوں میں صاف پانی کی سہولت مہیا نہیں۔ جہاں بنیادی سہولتوں سے بچوں کو محروم کیا گیا ہے وہاں ڈیجیٹل اسکولنگ کا قیام سمجھ سے باہر ہے۔ سی ایم سندھ کو صرف پیسے دینے سے مطلب ہے یا وہ سندھ کی تعلیم کو بہتر کرنا چاہتے ہیں، اگر بہتر کرنا چاہتے ہیں تو کیا ان سے سندھ کی تعلیم کا معیار، بچوں تک کتابوں کی رسائی، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کرپشن، پینے کا صاف پانی اور بنیادی سہولتوں کی عدم موجودگی کی باتیں چھپی ہوئی ہیں، یا وزیر تعلیم سی ایم سندھ کو آگاہی نہیں دیتے؟ یا سی ایم سندھ کو صرف سندھ کی تعلیم کا جدید ماڈل پیش کیا جاتا ہے۔ یا تو یہ ممکن ہے کہ سندھ حکومت کو صرف اپنے اسٹیک ہولڈرز کو خوش کرنا آتا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ سندھ حکومت جب سالوں سے ان مسائل کا حل نہیں نکال سکی نہ ہی تعلیم کے حوالے سے کوئی پلاننگ کوئی روڈ میپ دے سکی ہے، سندھ کے شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں اب بھی معیاری تعلیم کا فقدان ہے جس میں بنیادی سہولیات، اسکولوں کا فزیکل انفراسٹرکچر، قابل تدریسی عملے کی کمی، تعلیم چھوڑنے کا تناسب اور لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹیں شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے 2015 میں طے شدہ SDGs کو حاصل کرنا ابھی بہت دور ہے۔
جب کہ مائکرو اسکولز میں صرف تین لاکھ بچے پڑھ سکتے ہیں، وہ بھی صرف دو گھنٹے، بالکل یہ ایک مثبت عمل ہے مگر باقی بچوں کا کیا قصور ہے؟ کیا معیاری تعلیم ان کا حق نہیں؟ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ دیہی علاقوں میں بجلی اور انٹرنیٹ کے کتنے مسائل ہوتے ہیں وہاں حکومت نے ڈیجیٹل تعلیمی ماڈل کے ذریعے بچوں کو تعلیم دینے کا ہدف مقرر کیا ہے اس سے اور زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ 800 ملین کے بجٹ میں سندھ میں بہت سارے اسکولوں کا سنگ بنیاد رکھا جاتا۔ انفرا اسٹرکچر مزید بہتر کیا جاتا بنیادی سہولتیں دی جاتی۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ نصاب پرانا ہو چکا ہے۔ وزیر تعلیم سردار شاہ بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ صوبے میں اساتذہ غیر تربیت یافتہ اور نا اہل ہیں۔ ان کو تربیت کی ضرورت ہے۔ حکومت کو ان مسائل پر سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے۔ وزیر تعلیم سے ایک سوال ہے کہ پھر ان غیر تربیت یافتہ اور نا اہل اساتذہ کو کس نے بھرتی کیا؟ یا سندھ کی تعلیم کے ساتھ مذاق کیا گیا ہے صرف خانہ پری کی گئی ہے؟
گھوسٹ اسکولوں کا مسئلہ، گھوسٹ اسکولوں کے بارے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اسکول سے باہر بچوں میں اضافہ اور اساتذہ/طلبہ کی غیر حاضری اس وقت سے آسمان کو چھو رہی ہے۔ سندھ میں تقریباً 11 ہزار ’گھوسٹ‘ اسکول کاغذوں پر موجود ہیں سندھ حکومت کو ڈیجیٹل حاضری کے حل کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ 56 ہزار سے زائد اساتذہ ایک ماہ میں صرف ایک یا دو دن اسکول جاتے ہیں۔ غیر حاضری کی یہ عادت کافی تشویشناک ہے اور غیر حاضری کا یہ عمل سندھ میں تعلیمی بحران میں مزید اضافہ کرے گا۔
وزیر تعلیم اور ایس ای ایف کے ایم ڈی کو اس نکتے پر دھیان دینا چاہیے کہ تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیاں نہیں ہوتیں، اسکولوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ بچوں کو غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف کریں، سندھ میں تعلیمی معیار بہت برا تصور کیا جاتا ہے۔ اس کو مزید بہتر کیا جائے۔ کیوں کہ تعلیم ایک خوبصورت کاروبار کے سوا کچھ نہیں رہا۔ پرائیویٹ سکولوں کی فیسیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ عوام کہاں جائیں گے، وسائل سے مالا مال صوبہ سندھ اپنے بچوں کو بنیادی سہولتیں بھی فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اسکول بنیادی ضروریات کو پورا نہیں کرتے۔ واش روم دستیاب نہیں ہیں۔ پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ میزیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ کئی سکولوں کی چھتیں بھی ختم ہو چکی ہیں۔ یہ انتہائی مایوس کن صورتحال ہے۔ لڑکیوں کے اسکولوں کی کوئی چاردیواری نہیں ہے۔ پرائمری سکولوں میں بھی بجلی کے کنکشن غائب ہیں۔ وہاں سیف ڈیجیٹل اسکولوں کا ہدف کیسے پورا کرے گی؟ 12 ملین بچوں میں سے 6.7 ملین سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ پبلک سیکٹر کے سکولوں میں بنیادی انفراسٹرکچر، کتابیں اور قابل اساتذہ کی کمی ہے، ایک ریسرچر کی حیثیت میں میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اکثر والدین اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں بھیجنے سے مطمئن نہیں ہوتے۔ ٹوٹی ہوئی کرسیاں، پانی کی عدم دستیابی، بجلی کا شارٹ فال اور نا اہل اساتذہ پرائیویٹ سکولوں کے تیزی سے ابھرنے کی بڑی وجہ ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں پڑھایا جانے والا نصاب بالکل مختلف ہے۔ نجی اسکول آکسفورڈ اور کیمبرج کے نصاب کی پیروی کرتے ہیں اور اے لیول اور او لیولز پیش کرتے ہیں۔ جب کہ پبلک سیکٹر کے اسکول پرانے بورڈ کے نصاب کے ساتھ چلتے ہیں۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ مسئلہ فنڈز کی کم تقسیم کا ہے۔ حکومت سندھ اپنے بجٹ کا 25 فیصد تعلیم کے شعبے پر خرچ کرتی ہے۔ یہ کافی نہیں ہے، کیونکہ اس رقم کا ایک بڑا حصہ اساتذہ اور دیگر عملے کی تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے۔ بہت بڑی رقم نامناسب طریقوں سے ضائع ہوتی ہے۔ بعض اوقات اعلیٰ حکام کی نا اہلی کی وجہ سے فنڈز کی اچھی خاصی رقم لیپس ہو جاتی ہے اور دوبارہ رقم کو غیر ضروری طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم عارضی موضوع بن گئی لیکن اس کے باوجود تعلیم کے شعبے میں مختص فنڈز مضحکہ خیز طور پر کم ترین سطح پر چلا گیا۔
پانچواں نکتہ یہ ہے کہ تکنیکی تعلیم بہت ضروری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس شعبے پر خاص توجہ نہیں دی گئی۔ سندھ میں فنی اور پیشہ ورانہ ادارے موجود ہیں لیکن بے روزگار طلبا کو ہنر فراہم کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ غیر ہنر مند، غیر تربیت یافتہ اور غیر تکنیکی نوجوان معیشت پر بوجھ ہیں۔ حکومت کی طرف سے تکنیکی تعلیم کو ترجیحی طور پر سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ یہی معاملہ خصوصی تعلیم کا ہے۔
سندھ میں تقریباً 49 خصوصی تعلیمی مراکز ہیں لیکن یہ تعداد زیادہ تسلی بخش نہیں ہے کیونکہ سندھ میں 50 فیصد سے زیادہ خصوصی بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اگر تمام خصوصیات کے حامل بچوں کو تعلیم، تربیت اور تکنیکی مدد فراہم کی جائے تو بہترین نتائج آ سکتے ہیں۔
خرابی صرف اساتذہ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ بھی زبردست بدعنوانی کا شکار ہے! نصابی کتب کی اشاعت انتہائی ناقص مٹیریل سے کی جاتی ہے بلکہ اِس ضمن میں بیرونِ ملک سے ملنے والی رقم بھی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ کتابوں کی چھپائی سے لے کر بچوں تک کتب کی رسائی کے تمام مراحل کرپشن کا شکار ہیں۔ ابھی بھی 15 دنوں کی اضافی چھٹیوں کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کی کتابوں کی چھپائی وقت پر نہیں ہو پائی اور بچوں کو کتابیں وقت پر نہ مل سکیں ابھی بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کی کتابوں کی رسائی میں اور کتنا وقت لگے گا۔
سندھ حکومت کو تعلیم کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے، اور تعلیم کے شعبے میں نئے تجربات پر خرچ کرنے کے بجائے اس رقم کو تعلیم کے بنیادی انفرا اسٹرکچر، بنیادی سہولتوں، کتابوں کی رسائی، لائبریریوں کے قیام، جدید معیار تعلیم، تعلیمی کانفرنسز، سیمینار، سائنسی میلوں، اور کمپیوٹر کی تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے۔ لائبریریوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے حکومت صوبے کے کونے کونے میں پبلک لائبریریوں کا نیٹ ورک قائم کرے۔ لائبریری تعلیم کا ایک لازمی جزو ہے جسے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
- قانون تو ہیں لیکن خواتین انصاف کی منتظر - 29/08/2024
- مراد علی شاہ کی وفاق سے شکایات! - 25/08/2024
- تین سو مائیکرو اسکول اور سندھکے 7.6 ملین بچوں کی تعلیم - 16/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).