مولانا مفتی تقی عثمانی کے نام کھلا خط (2)


(پہلا  حصہ)

مولانا صاحب آزادی نسواں صرف ماڈل گرل بننے کا نام نہیں ہے۔ آزادی نسواں عورتوں کے مناسب حقوق کا نام ہے۔ انہیں بھیڑ بکریاں نا سمجھا جائے بلکہ انہیں بھی مردوں کی طرح انسان سمجھا جائے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بیٹا تو سکول جائے اور بیٹی گھر بیٹھی رہے کہ باہر جائے گی تو عزت نیلام کر کے ہی آئے گی ؟ مفتی صاحب ہمارے معاشرے کی عورت کو آزادی نسواں کا یہ فریب مغرب نے نہیں دیا بلکہ اسی معاشرے نے دیا ہے۔ جب ایک لڑکی کو بچپن سے لے کر جوانی تک کہا جاتا ہے کہ تم تو اپنے ماں باپ پر بوجھ ہو تب وہ اپنی ذات کی پہچان کے لئے باہر نکلتی ہے۔ جب ایک گھریلو خاتون کو کہا جاتا ہے کہ تم سارا دن گھر میں کرتی ہی کیا ہو تب اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنی بے وقعت ہے۔ جب کوئی لڑکی اپنے باپ کو ساری زندگی کلرکی کرتا دیکھتی ہے تب وہ اپنے آپ سے عہد کرتی ہے کہ وہ اپنی محنت سے معاشرے میں ایک مقام حاصل کرے گی اور اپنے ماں باپ کو ایک پُر سکون زندگی دے گی ۔ کیا اسلام عورت کو اس عہد سے روکتا ہے؟

مولانا صاحب عورتیں آج ماڈل گرل، ویٹرس ہونے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہیں۔ شائد آپ نے اسپتال میں کام کرنے والی ڈاکٹر اور نرسیں نہیں دیکھیں، شائد آپ کو بنک میں کام کرنے والی مینیجر اور کیشئر بھی نہیں دکھیں، شائد آپ کو سکول، کالج میں کام کرنے والی ٹیچرز اور پروفیسرز بھی نظر نہیں آئیں، شائد آپ کو جہاز اڑانے والی پائلٹ کا بھی نہیں پتا۔ مفتی صاحب ذرا ایک پل کو سوچیں یہ سب مسلمان خواتیں آج اپنے اپنے گھروں میں جا کر بیٹھ جائیں تومسلمان خواتین کو باہر کی دنیا میں کون سروسز مہیا کرے گا؟ آپ کے گھرانے میں کسی خاتوں کو طبی مدد کی ضرورت ہو تو کیا کسی مرد ڈاکٹر کی خدمات حاصل کی جائیں گئ؟

مولانا اپنی تحریر میں آپ نے ذکر کیا کہ اہلِ مغرب مسلمانوں کو حجاب کرنے پر طعنے دیتا ہے تو مولانا مجھے ان ممالک کے نام بتا دیں جہاں ایسے اہلَ مغرب بستے ہیں۔ آپ دنیا گھومے ہیں اور بیشتر جگہ اپنی اہلیہ کے ساتھ گئے ہیں۔ کیا کسی ملک نے آپ کی اہلیہ کو ائیر پورٹ پر اس لئے روکا کہ انہوں نے حجاب کیا ہوا تھا؟ کیا آپ کی اہلیہ ان غیر مسلم ممالک میں پوری آزادی سے نہیں گھومیں؟ میرے ساتھ تو کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ اس ڈیڑھ سال کے قیام میں مجھے کسی غیر مسلم نے دیکھ کر ٹھٹھہ نہیں لگایا کہ ارے دیکھو برقعے میں ملبوس مسلمان جا رہی ہے۔ دنیا کے تمام غیر مسلم ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان آباد ہیں۔ اِن میں داڑھی والے مرد بھی ہیں اور حجاب والی عورتیں بھی ہیں۔ سب مکمل آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور خوش و خرم رہ رہے ہیں۔ جہاں کہیں روک ٹوک ہوتی بھی ہے وہاں مسلمان سلام دعا کر کے واپسی کی راہ لے لیتے ہیں۔

ماضی قریب سے ایک مثال لے لیں۔ امریکی صدر کی جانب سے سات مسلم ممالک پر ٹریول بین کے خلاف کتنے ہی غیر مسلموں نے مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائی۔ ان کافروں نے” آئی ایم آ مسلم ٹو” (میں بھی مسلمان ہوں ) کے نام سے کمپین چلائی اور دنیا کو بتا دیا کہ ہر کافر ہر مسلمان کو دہشت گرد نہیں سمجھتا اور ہر کافر ہر مسلمان کو اس کے مذہب کا طعنہ نہیں دیتا۔ مولانا صاحب اپنی اس فرضی دنیا سے نکل آئیں جہاں مسلمانوں کو دین کی راہ پر چلنے پر طعن و تشنیع سہنے پڑتے ہیں۔ اگر غیر مسلموں کی ایک حقیر تعداد مسلمانوں سے نفرت رکھتی ہے تو ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی حامی بھی ہے۔

 مولانا صاحب لوگوں کی ایک بڑی تعداد آپ سے عقیدت رکھتی ہے۔ آپ کے الفاظ ان کے لئے جاددو کا سا اثر رکھتے ہیں۔ آپ جو کہتے ہیں لوگ اس پر بلا چوں چرا ایمان لے آتے ہیں۔ میری آپ سے بس ایک گزارش ہے کہ خدارا عوام کو اس معاملے میں گمراہ نہ کیجئے۔ صرف عورتوں کے پردے کی بات نہ کریں، مرد کے پردے کی بھی بات کریں۔ عورت کی خواہشات پر حرام کا ٹھپہ لگا کر ان خواہشات کا گلہ نہ گھونٹیں۔عورتوں کو بھی جینے دیں۔ انہیں پتا ہے کہ اسلام انہیں کس حد میں کیا کرنے کی اجازت دیتا ہے اور مجھے میرا مذہب اپنی جائز خواہشات اور خواب پورے کرنے سے نہیں روکتا۔ گھر کو صرف عورت کی ذمہ داری نہ قرار دیں۔ گھر مرد اور عورت دونوں مل کر بناتے ہیں۔ جتنی ذمہ داری گھر سنبھالنے کی عورت کی ہے اتنی ہی مرد کی بھی ہے۔ آپ نے اپنی تحریر میں حضرت علیؓ  اور حضرت فاطمہؓ کی بات کی ہے تو مولانا صاحب، مسلمان عورتوں کو حضرت بی بی فاطمہؓ کے راستے پر چلنے کی تلقین کرتے ہوئے مسلمان مردوں کو حضرت علیؓ  کی سیرت بھی یاد دلانی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments