3: پنڈی جو اک شہر ہے
راجہ رجب جب بات کر رہے ہوں تو ایسے رواں ہوتے ہیں کہ شاعر کی طرح انہیں یہ مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا
بہرحال میں نے ان کی روانی کو توڑنے کی جسارت کرتے ہوئے سوال کیا، لگتا ہے آپ کے شب و روز کی مصروفیات صرف پرانے پنڈی کی حدود میں ہی مقید تھیں۔
بولے نہیں ایسا نہیں تھا۔ سکول کے زمانے میں ہر سال گرمیوں کے آغاز سے کچھ پہلے اسلام آباد سے تھوڑا پرے نور پور شاہاں میں بری امام کا سالانہ عرس سجا کرتا تھا۔ اس میں شرکت کی خاطر ہم دوست ایک ٹولی بناتے اور ایک پورا دن اس میلے میں گزارتے۔ وہاں بڑی رونق ہوتی تھی اور تمام پوٹھوہار کے ساتھ ساتھ ہزارہ اور پشاور سے بھی لوگ اس عرس میں شرکت کے لیے آیا کرتے تھے۔ مزار ایک بارشی کٹھے کے کنارے واقع تھا اور اس کے عقب میں نور پور شاہاں کا بچا کچا گاؤں تھا جو حدود اسلام آباد میں آ چکا تھا۔ چنانچہ مقامی لوگ نقل مکانی کر رہے تھے۔ کٹھے کے دوسری طرف اسلام آباد سے آتی سڑک کے کنارے خیموں کی بے شمار بستیاں آباد ہو جاتی تھیں۔ یہ باہر کے علاقوں سے ڈالیاں لانے والے زائرین کے خیمے ہوتے تھے۔ پشاور سے آنے والی ڈالی خاص سمجھی جاتی تھی۔ خیموں سے ذرا ہٹ کے عارضی بنائے ہوئے چولہوں پر نیاز کی دیگیں ہر وقت دھری ملتی تھیں۔ کھانوں اور علاقائی سوغاتوں کے سٹال بھی لگے ہوتے تھے۔ زائرین کی کئی ٹولیاں دھمال ڈالتی حال مست ملتی تھیں۔ بس نہ پوچھیے، رونق میلے کا کیا عالم ہوتا تھا۔
ایک سال جب ہم عرس میں شرکت کے لیے جانے کو کمیٹی چوک کے بس سٹاپ پر کھڑے تھے تو اتنے میں ایک سرکاری قافلہ کچھ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر مشتمل ہمارے سامنے سے گزرا۔ بتایا گیا صدر ایوب خان اور بندرا نائیکے ایک کھلی گاڑی میں اسلام آباد روانہ ہیں۔ مجھے یہ منظر ایسے یاد ہے جیسے کل کی بات ہو۔ یہاں ایک بات کرتا ہوں۔ ایوب خان کے ایک وصف کا معاملہ بڑا انوکھا رہا مسلمانوں کی مجموعی تاریخ کو دیکھیں یا قیامِ پاکستان کے بعد کے معاملات کو، جس طرح ایوب خان نے طاقت سے سرشار مزاحمت کے بغیر اقتدار کو خیرباد کہہ دیا ویسا پہلے یا بعد میں بھی کبھی نہیں ہوا۔
ہمارے گھر سے دو گلیاں ادھر ایک مشہور طلب علم لیڈر شیخ رشید احمد کا گھر تھا۔ ان کے گھر کے باہر تھڑا سہ پہر کے بعد بیٹھک کی شکل اختیار کر لیتا تھا۔ بہت بعد میں وہ باہر بڑی سڑک پہ واقع لال حویلی کے مکیں بن گئے۔ اس دوران راج نیتی ناٹک کے ایک اہم کردار ہونے کی بدولت اطلاعات و نشریات کی وزارت کے ایک سے زائد مرتبہ وزیر بھی بنے۔ اس دور میں ہمارے کالج کے ایک ساتھی جو سی ایس ایس افسر تھے ان کے پی آر او بنے تھے۔ وہ شاعر تھے، "خاموش” ان کا تخلص تھا۔ بے حد باتونی تھے جس بنا پہ ایک دوست کہتے تھے کہ تخلص کے معاملے میں حضرت کچھ کسرِ نفسی کا مظاہرہ کر گئے۔ خاموش کی بجائے فغاں ان کے لیے زیادہ موزوں تخلص بنتا تھا۔ اپنے اشعار کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے شعرا کے ایسے اشعار جن میں واعظ اور شیخ کا طنزیہ ذکر پایا جاتا تھا دفتر کے ساتھیوں کو سنا دینا ان کا معمول تھا۔ دوسری طرف دفاتر کے کلچر کی پیروی میں، موقع پا کر ایسے اشعار کو شیخ صاحب تک پہنچانا ساتھیوں کا معمول۔ ایک دن تو انتہا ہو گئی۔ بغیر سوچے سمجھے فیض کا یہ شعر ساتھیوں کو سنا ڈالا۔
شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی۔
یوں اس دفتر سے ان کا بوریا بستر گول ہو گیا۔
ہمارے محلے کے دوستوں میں سے ایک بتایا کرتا تھا کہ اس کی اکلوتی بہن رتہ امرال میں بیاہی ہوئی ہے۔ ہم اس بات سے بہت مرعوب ہوتے تھے۔ ایک دفعہ ہم روز سینما میں اکٹھے فلم دیکھنے گئے تو وہاں اس کا بہنوئی مل گیا۔ فلم ختم ہونے کے بعد وہ ہمیں پاس ہی گولڑہ کے پیروں کے ہوٹل پیلس میں چائے پلانے لے گیا۔ چائے کے ساتھ تین منزلہ ٹرے میں سجی چھوٹی چھوٹی پیسٹریاں بھی لائی گئیں۔ ہم نے جھجکتے ججکھتے بس ایک ایک پیسٹری کھائی۔ اس کے بعد ہم رتہ کے باسیوں سے اور بھی مرعوب ہو گئے اور ساتھ ہی اپنے ہم محلہ دوست کو پہلے سے زیادہ اہمیت دینے لگے۔ گولڑہ سے یاد آیا وہاں کی زیارت گاہ کے ساتھ ساتھ دن بھر جاری لنگر کا بھی بڑا چرچا تھا۔ مجھے وہاں جانے کا بس ایک مرتبہ اتفاق ہوا اور وہ بھی بہت کم وقت کے لیے۔
محلے کے باسیوں میں سے ایک حاجی علی زمان کی چاہ سلطان کے علاقہ میں فرنیچر کی دکان تھی۔ آپ مقابلتاً خوشحال آدمی تھے اور مسجد کمیٹی کا ممبر ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو مذہبی مسائل کا عالم سمجھتے تھے۔ اقبال کے شعر۔ میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ امم کیا ہے۔ کے بارے میں کہتے تھے کہ یہاں قوالی کو روا قرار دینے کی بات ہو رہی ہے۔ شاعر کے بقول مسلمان تلوار کا دھنی ہونے کے ساتھ ساتھ ڈھول ڈھمکے کا بھی رسیا ہوتا ہے۔ حاجی صاحب کے خیالات سے اختلاف نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ وہ مسجد کی خدمت کے ساتھ ساتھ ہر سال دسویں محرم اور بارہ ربیع الاول کے جلوسوں کے لیے نیاز کا انتظام کرتے تھے جسے محلہ دار خوب رج کے کھایا کرتے تھے۔ جلوس میں نیاز کی تقسیم ہم بچوں کے ذریعے ہوا کرتی تھی۔
کالج کے دور میں یادگار انٹر کالجیٹ مقابلے بھی منعقد ہوا کرتے تھے۔ کھیلوں کے ساتھ ساتھ تقریری مقابلے بڑے جوش و خروش سے منعقد ہوتے۔ ان میں سب سے مقبول پنجابی کا تقریری مقابلہ ہوا کرتا تھا جس میں پنجابی کے نئے نئے اور انجانے الفاظ سننے کو ملتے تھے۔ یہ مقابلے گورڈن کالج، اصغر مال کالج اور انٹر کالج کے درمیان ہوا کرتے تھے۔ انٹر کالج سے یاد آیا آج کے پنجابی کے مقبول ترین شاعر انور مسعود اسی کالج میں فارسی پڑھاتے تھے اور ان کی نظم،
توں کی جانیں پہولیے مجھے انار کلی دیاں شاناں
کافی مقبول ہو چکی تھی۔
جاری ہے۔
- سفرِ کوسوو: آخری قسط - 20/01/2025
- سفرِ کوسوو (3) - 07/01/2025
- سفرِ کوسوو (2) - 29/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).