جب جب انجینئر رضی ٹریپ نہیں ہوا


یہ جولائی 2007 کے آخر کی بات ہے۔ رات کے ایک دو بجے ہوں گے۔ میرے سرکاری گھر کے ٹیلیفون کی گھنٹی پاگلوں کی طرح بجنے لگی۔ بیل ڈبل تھی جس کا مطلب تھا کہ کال کسی مقامی نمبر سے نہیں بلکہ ائرفورس کے سیٹ اپ سے کہیں باہر سے کی جا رہی ہے۔ نمبر کالر آئی ڈی پر نہیں آ رہا تھا۔ جس کا کچھ بھی مطلب ہو سکتا تھا۔

فون ریسیو کیا تو ایک کرخت سی نامانوس مردانہ آواز کان سے ٹکرائی جس نے مجھے رعب میں لینے کے لئے صرف ہیلو کے بعد غصے سے پوچھا۔ کون بول رہا ہے۔ انجان شخص، نامعلوم نمبر، جس نے سوتے سے جگایا تھا۔ اوپر سے ٹیلیفون پر گفتگو کی بنیادی تہذیب کی بھی خلاف ورزی کی تھی یعنی اپنا تعارف کرائے بغیر فون ریسیو کرنے والے سے نام پوچھا تھا۔

دس بیس سال پہلے وہ یہ کام کرتا تو میں آدھ گھنٹہ اس کو تمیز سکھانے میں لگا دیتا کہ پہلے تم بتاؤ کہ کون ہو۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اب میں نے یہ حرکت چھوڑ دی تھی اور آرام سے سامنے والے پڑوسی، کسی رشتے دار، ماتحت یا مسز ڈاؤٹ فائر کی طرح کوئی بھی عام سا نام لے دیتا تھا۔ سو میں نے اس کی بدتمیزی یا بدتہذیبی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ ”عمران“ بول رہا ہوں۔

پوچھا، آپ کون۔ کہنے لگا۔ ”میں اسلام آباد کے فلاں تھانے سے انسپکٹر عباسی بات کر رہا ہوں اور اگر آپ چاہیں تو میرے لینڈ لائن نمبر پر کال کر کے چیک کر لیں“ ۔ میں نے کہا ضرورت نہیں۔ فرمائیے۔

کہنے لگا، ”عمران صاحب (اور میں نے دل میں سوچا کہ لے بھائی یہ آ رہا ہے فراڈ) آپ پڑھے لکھے اور مہذب شخص لگتے ہیں کیا کام کرتے ہیں“ ۔

میں نے پھر بحث کیے بغیر کہا کہ ”پڑھاتا ہوں“ (دل میں کہا اپنے بچوں کو)۔

کہنے لگا۔ ”دیکھیں جی پچھلے دنوں اسلام آباد میں ڈسٹرکٹ کورٹ کے باہر و کلاء کے جلسہ پر خود کش حملہ ہوا تھا۔ ہم نے حملہ آور کے موبائل کی سم سے آخری کالر کو پکڑا۔ اس کو سیف ہاؤس میں لاکر تفتیش کی تو اس نے آپ کا نام اور نمبر دیا ہے۔ یہ لیں اس سے بات کریں“ ۔

اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، ایک لڑکا فون پر آیا جس نے روتے ہوئے مجھے ”عمران بھائی“ کہہ کر مخاطب کیا۔ اور ساتھ بتایا کہ میرے کہنے پر وہ دو پیکٹ چرس اسلام آباد لایا تھا لیکن پولیس نے پکڑ لیا اور وہ اس پر کچہری دھماکے کا الزام ڈال رہے ہیں۔ اس نے مزید بتایا کہ اسے بہت مارا گیا ہے اور میں فوراً وہاں آ کر اس کی جان چھڑاؤں۔

( یاد رہے، مشرف کے آخری دنوں میں، 12 مئی 2007 کو کراچی میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی آمد پر قتل و غارت کے بعد ۔ جون جولائی میں لال مسجد اسلام آباد والوں کا نفاذ اسلام سے متعلق چینی مساج سینٹر پر حملے سے شروع ہوا تھا۔ جو 11 جولائی 2007 کو ایک خونی محاصرہ پر ختم ہوا تھا۔ اس کے بعد 17 جولائی 2007 کو چیف جسٹس سے اظہار یکجہتی کے لئے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے لوگوں نے ڈسٹرکٹ کورٹ اسلام آباد کے باہر ایک جلسہ کرنا تھا۔ جہاں موجود لوگوں کے درمیان خود کش حملہ آور نے خود کو اڑا لیا تھا۔ پولیس والا اسی واقعہ کا تذکرہ کر رہا تھا) ۔

کچھ دیر کے لئے میری سٹی گم ہو گئی۔

مگر یاد آیا کہ کال تو عمران کے لئے ہے۔ کہا میری پولیس والے سے بات کراؤ۔ (یعنی جیسے میں اس کو جانتا ہوں ) ۔

میں نے پولیس والے سے پوچھا کہ میرے لئے کیا حکم ہے۔

کہنے لگا۔ ”آپ اگر ابھی ہمارے سیف ہاؤس آ سکیں تو بہتر ہے ورنہ ہم آپ کے گھر آ جائیں گے۔ لیکن اس سے آپ کے لئے بدنامی اور مشکلات بڑھ جائیں گی“ ۔ میں نے دل میں فراڈیے کو دو چار گالیاں دے کر پوچھا کہ میں نے کہاں آنا ہے۔

کہنے لگا، ”پمز کی پارکنگ میں آجائیں۔ کالے رنگ کی ڈبل کیبن کھڑی ہوگی فلاں نمبر کی۔ اس کے پاس آ جائیے گا۔ وہاں سے ہمارا افسر آپ کو سیف ہاؤس لے آئے گا۔ تمہاری کی گاڑی کا کیا نمبر ہو گا“ ۔

میں نے کچھ سوچا اور کہا کہ میری ذاتی گاڑی تو کوئی مانگ کر لے گیا ہے۔ ٹیکسی یا کسی سے لفٹ لے کر آتا ہوں۔ کہنے لگا، ”خبردار، کسی کے ساتھ مت آنا“ ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آدھ گھنٹے میں پہنچتا ہوں۔ (گاڑی کا نمبر نہ بتانے میں حکمت یہ تھی کہ اس سے میری شناخت نہ پتہ چل سکے)۔

فون بند کر کے سوچا کہ کیا کروں ائرفورس پولیس یا ائر انٹیلی جنس کو بتاؤں یا نہیں۔

دماغ نے جواب دیا۔ کیوں کسی کی نیند خراب کرتے ہو۔ فون تو ویسے بھی عمران کے لئے تھا۔ اور اس احمق کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ جس لینڈ لائن پر وہ فون کر رہا ہے وہ کسی کی سرکاری رہائش کا نمبر ہے۔ چپ چاپ معاملہ صبح پر ٹال کر، فون کی تار ساکٹ سے نکالی اور سو گیا۔

اگلے دن ادارے کے متعلقہ لوگوں کو آگاہ کیا تو جواب ملا۔ ”بڑا حوصلہ ہے“ ۔

بہر کیف خاتون خانہ کو آگاہ کر دیا کہ میری عدم موجودگی میں لینڈ لائن یا موبائل پر اس طرح کی کال آئے تو کیا اور کس طرح جواب دینا ہے۔

خواتین اور بالخصوص لڑکیوں کو یہ ٹپ ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ کبھی بھی انجان نمبر سے کال آئے تو نہ تو بحث کرنی ہے نہ اپنا اصل یا گھر کی کسی بھی خاتون کا نام بتانا ہے۔ دوسرا کوشش کریں کہ آپ کا پہلا جملہ غصے میں ادا ہو۔ ہنستے یا مسکراتے نہیں۔ یعنی فون کرنے والے انجان شخص کی ہمیشہ حوصلہ شکنی ہو۔ کوئی اپنا یا اچھا شخص ہوا تو بعد میں بات کو سنبھالا جاسکتا ہے۔ لیکن بدتمیزی کی نوبت نہ آئے۔

٭٭٭

سن 2013 تھا اور دس محرم کی چھٹی میں گھر پر گزار رہا تھا۔ بھری دوپہر میں ایمرجنسی میں دفتر جانا پڑا۔ سو تاریخ اچھی طرح یاد ہے۔ ڈرائیور چھٹی پر تھا تو خود ہی گاڑی لے کر پہنچ گیا۔ اس دوران انجان نمبر سے مسلسل کال آ رہی تھی۔ جب سیٹ پر براجمان ہوا تو دس بارہ مس کال منہ چڑا رہی تھیں۔ سب ایک ہی انجان موبائل نمبر سے، یعنی کوئی بہت شدت سے یاد کر رہا تھا۔

اس سے پہلے کہ میں اس نمبر پر کال کرتا ایک بار پھر کال آ گئی۔

میں نے وہی حکمت عملی اپنائی یعنی مجھ سے پوچھنے پر کہ کون بول رہا ہے : جو اباً ً اس بار میں ”شمیم“ تھا۔

دوسری طرف سے بتایا گیا کہ شمیم صاحب میں چوہدری مختار بات کر رہا ہوں۔ کھاریاں بس اڈے کا منیجر۔ (میری بلا سے وہ اگر صدر پاکستان بھی ہوتا کیوں کہ وہ مجھے شمیم کہہ رہا تھا) ۔

مختار صاحب نے مزید میری معلومات میں یہ کہہ کر اضافہ کیا کہ بس اڈے پر جیب کاٹنے، پرس اور موبائل چرانے کے بہت زیادہ واقعات ہو رہے تھے تو ان لوگوں نے کئی لوگ اس کام پر لگائے اور آج ایک جیب تراش لڑکا پکڑ لیا گیا۔ جب اس کی تلاشی لی گئی تو اس کی جیب سے ایک پرچی ملی جس پر میرا موبائل نمبر لکھا تھا۔ یہ اس لڑکے نے ہی ان ہیں بتایا کہ یہ اس کے ہینڈلر کا نمبر ہے۔

مختار نے پھر کہا، ”یہ لیں اس سے بات کریں“ ۔
پھر وہی کہانی کہ بھائی جان پھڑا گیا ہوں۔ بڑی مار پڑ رہی ہے آ کر چھڑا لیں۔

یہاں پڑھنے میں شاید وہ اثر پیدا نہ ہو لیکن ایسے انکشاف پر ایک لمحے کو یقیناً پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے۔

اتنے میں چوہدری مختار لائن پر دوبارہ آیا اور اس بار کہنے لگا کہ یہاں اڈہ یونین کے صدر سے بھی بات کریں۔

مجھے میرے موبائل کمپنی کے دوستوں نے ایک ٹپ بتائی تھی کہ اگر گمنام نمبر سے مجرمانہ کال آئے تو کوشش کریں کہ اس کال کو تین چار کالوں میں وصول کریں تاکہ بعد میں فون کرنے والا اسے اتفاقیہ نہ قرار دے سکے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کو سوچنے کے لئے وقت مل جاتا ہے۔ سو میں نے اڈہ یونین کے صدر کی آواز سن کر کہا کہ ہیلو ہیلو آواز کٹ کٹ کر آ رہی ہے۔ دوبارہ فون کریں۔ اور یہ کہہ کر میں نے کال کاٹ دی۔

اتنے میں فون کال دوبارہ آنی شروع ہو گئیں۔ میں نے پہلا کام تو یہ کیا کہ اپنے موبائل میں کال ریکارڈنگ کو آن کر لیا۔ (چند سال بعد اب واٹس ایپ کال ہو یا نارمل کال۔ میرے اور گھر والوں کے فون پر کال ریکارڈنگ لازماً ہو رہی ہوتی ہے۔ اس کے لئے میرے پاس ایک ایسی قانونی لچ موجود ہے جس کی بنیاد پر میں کسی بھی عدالت میں اس فعل کو صحیح ثابت کر سکتا ہوں ) ۔

بہرحال چند منٹ انتظار کرانے کے بعد میں نے کال اٹینڈ کرلی اور اڈہ یونین کے صدر کو کہا کہ ذرا ہولڈ کریں۔ اور ساتھ اپنے سامنے کھڑے غیرمرئی ماتحت کو کام کے آرڈر جاری کرنا شروع کر دیے۔

اب جب میں نے دوبارہ کال لی تو وہ کہنے لگا، ”آپ کون ہیں“ ۔ میں نے کہا، فی الوقت تو جیب کتروں کا ہینڈلر ہوں آپ پوری کہانی سنائیں۔

بہرحال اس نے بھی ماضی کے مسائل (یعنی جرائم) پر روشنی ڈالی اور آج کے کارنامے پر خوشی کا اظہار کیا۔ ساتھ واپس اڈہ منیجر چوہدری مختار کو فون پکڑا دیا۔

میں نے پھر ہیلو ہیلو آواز نہیں آ رہی کہہ کر فون کاٹ دیا۔ اور اپنا لیپ ٹاپ آن کر کے گوگل میپ پر کھاریاں کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ یہ اور بات کہ میں کھاریاں کے محل وقوع اور کھاریاں کینٹ کے بارے میں کچھ کچھ آگاہ تھا۔ (آج کل یہ واقعات ہوتے تو شاید میں اس سے لوکیشن کی پن بھی مانگ لیتا۔ لیکن عقل کی بات یہی ہے کہ مجرم کو ایسا محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اگر سیر ہے تو دوسرا سوا سیر ) ۔

بہرحال چوہدری مختار پھر کال کر کے مجھ سے جڑ گئے تو میں نے معذرت کی کہ جناب یہاں قریب میں جیمر لگے ہیں اس لئے فون بار بار کٹ جاتا ہے۔ بہرحال آپ بتائیے۔ پوچھنے لگا، ”آپ کہاں ہوتے ہیں“ ۔ میں نے کہا اسے چھوڑیں آپ مسئلہ بتائیں کہ آگے کیا کرنا ہے۔

اب وہ مقصد پر آ گیا اور کہنے لگا۔ ”آپ گفتگو سے شریف اور پڑھے لکھے لگتے ہیں اور ایسے قبیح جرائم میں ملوث ہونے سے آپ اور آپ کے خاندان کی عزت خاک میں مل جائے گی“ ۔ میں نے کہا، صحیح کہتے ہیں۔

کہنے لگا، ”اگر آپ یہاں ہونے والی ساری وارداتوں کا نقصان پورا کر دیتے ہیں، تو ہم اس لڑکے اور آپ کو چھوڑ دیں گے ورنہ معاملہ ہر حال میں قانونی کارروائی تک جائے گا“ ۔ میں نے اس عظیم احسان پر شکریہ ادا کیا اور ایک بار ہیلو ہیلو کرتے فون کاٹ دیا۔

اتنے میں انٹرنیٹ سے میں جان چکا تھا کہ کھاریاں پولیس، ڈی پی او گجرات کے نیچے آتی ہے اور کھاریاں میں کون کون سے تھانے ہیں۔

بہر حال چوہدری مختار نے ایک بار پھر نئی کال پر چند روپے ضائع کیے تو میں نے پھر کال اٹینڈ کرلی۔ میں نے پھر معذرت کی، ساتھ پوچھا، بتائیں نقصان کتنا بھرنا ہو گا۔ کہنے لگا۔ کچھ مل ملا کر ساٹھ ہزار روپے۔ (یاد رہے یہ 2013 ہے جب ڈالر شاید ساٹھ روپے کے آس پاس تھا) ۔

میں نے کہا کچھ زیادہ نہیں۔ اتنا تو اس نے کما کر بھی نہیں دیا اور میں دوسروں کی چوریوں کی ادائیگی کیوں کروں۔

بہرحال مول تول پر وہ تیس ہزار روپے پر آ گیا۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے اب یہ بتائیں۔ پیسے وصول کرنے آپ کا بندہ آئے گا یا مجھے آپ کے پاس آنا ہو گا۔

یاد رہے، فراڈیوں کا پسندیدہ طریقہ جیز کیش یا ایزی پیسہ اس وقت تک متعارف نہیں ہوئے تھے۔ ثانی الذکر کا سہرا 2008 کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کے سر ہے۔ جب پارٹی کی ایک سرگرم خاتون لیڈر کے شوہر نے اپنے بنک کے ذریعہ ایزی پیسہ کا لائسنس حاصل کیا تھا۔ اب تو بہر حال کرپٹو کے ذریعہ بھی لین دین ہوجاتا ہے۔

چوہدری مختار نے پھر پوچھا، ”آپ کہاں ہیں“ ۔
میں نے کہا، اسے چھوڑیں، کیا آپ کو اس لڑکے نے یہ نہیں بتایا کہ شمیم صاحب یعنی میں کہاں ہوتا ہوں۔
کہنے لگا نہیں، ”وہ تو کہہ رہا ہے کہ میں صرف کسی مشکل کی صورت میں اس نمبر پر فون کرتا تھا“ ۔

اب میں نے کھیل کو ختم کرنا مناسب سمجھا کیوں کہ میں دفتر جس کام سے آیا تھا۔ وہ کام بھی ملٹی ٹاسکنگ میں ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔

میں نے چوہدری مختار کو کہا کہ۔ مختار صاحب، اگر آپ کا یہی نام ہے تو، پہلی بات تو یاد رکھیں کہ میرے تیار کردہ اور ٹرینڈ لڑکے اگر پکڑے جائیں تو ان پر اور میری ٹریننگ پر لعنت ہے۔ میرے تمام لڑکوں کے پیچھے لوگ موجود ہوتے ہیں جو ان کی گرفتاری پر خود ہی ایکشن لے لیتے ہیں۔ اس لئے بہتر ہو گا کہ اس فراڈیے کو پکڑیں اور سیدھا کھاریاں کینٹ کے تھانے میں لے جائیں۔ میں ”ڈی پی او“ گجرات سے ابھی بات کر لیتا ہوں۔ وہ کھاریاں کینٹ کے انچارج کو بتادے گا۔ اور آپ کا کچھ نہ کچھ نقصان پورا کروا دے گا۔ کوئی مسئلہ ہو تو شام کو مجھے پھر اسی نمبر سے کال کر لیجیے گا۔ میں ”ڈی پی او“ گجرات سے آپ کی بات کروا دوں گا۔

چوہدری مختار ہکلاتے پھر پوچھنے لگا۔ ”آپ کون ہو؟“ ۔
میں نے کہا۔ قبلہ فون کرنے سے پہلے تھوڑا چیک کر لیا کرو کہ فون نمبر کس کا ہے۔

دوسری بات، یاد رکھیں کہ میری اور آپ کی ساری باتیں ریکارڈ ہو چکی ہیں۔ تیسری بات میرا نام شمیم نہیں ہے۔ اور چوتھی بات یہ ہے کہ میں پنڈی میں ہوتا ہوں اور آج دس محرم کو بھی اپنے دفتر میں بیٹھا ہوں اور آخری بات یہ کہ میں اڈیالہ جیل راول پنڈی کی انتظامیہ میں سے ایک ہوں۔ کبھی پنڈی آئیے گا تو ضرور ملاقات کیجئے گا۔

آخری جملہ شاید چوہدری مختار نہیں سن سکا، کیوں کہ فون کٹ چکا تھا۔

یاد رکھیں جب آپ نے کوئی جرم نہیں کیا تو ڈر کس بات کا۔ بس بحث میں وقت مت ضائع کریں۔ اور اپنا نام کبھی صحیح مت بتائیں۔ یہ اور بات کہ آج کل مجرم آپ کا اصل نام بھی جانتے ہیں۔ اس لئے اگر وہ شمیم سے کہیں کہ ہم نے رضی سے بات کرنی ہے۔ تو اس وقت بھی ان کے جھانسے میں مت آئیں۔ رضی صاحب کے نوکر یا اسسٹنٹ بن جائیں اور کہیں صاحب اس وقت میٹنگ میں ہیں۔ آپ شمیم کو ہی کام بتائیں۔ وہ جیسے ہی فارغ ہوں گے آپ کو کال کر لیں گے۔

اگلی کسی تحریر میں ان فراڈ کی کچھ مزید کہانیاں جو ”مجھے“ دیکھنے یا سننے کو ملیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments