چاہت فتح علی خاں وزیرِ اعظم، علیزہ سحر وزیرِ خزانہ تو مہک ملک؟


موسمِ گرما بھادوں کی سرحد پہ وچھوڑے کی آخری ہچکیاں لے رہا تھا۔ راتوں نے اوس کی ٹھنڈ کو اپنا آشنا بنا کر اُس سے بے وفائی کر لی تھی اور اب اُسے روتا بلکتا چھوڑ کے جا رہی تھیں۔ سرحد کے پار کھڑا دلفریب موسمِ سرما اپنی محبوبہ سے بغل گیر ہونے کے لیے بے تاب تھا۔

صحرا کے ہمسایہ میں آباد بہاول پور شہر کراچی اور اسلام آباد کے بعد ملک کے تیسرے بڑے ملٹی کلچرز شہر کا درجہ حاصل کر چکا تھا جس میں دیس کی تمام زبانوں کے بولنے والے اور تمام ثقافتوں سے وابستہ افراد آباد ہو چکے تھے۔ یہ 24 اگست 2024 کی صبح تھی۔ فضا میں خوشگوار سی مہک تھی۔ بابا گجر کے ڈھابہ پہ رکشہ ڈرائیوروں اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے طلباء کی منڈلی جم چکی تھی۔ دراصل یہاں ان ڈرائیوروں اور طلباء کو سستے نرخوں پہ ہاف کپ چائے اور ہاف پلیٹ دال سبزی والا کھانا مل جاتا تھا۔ ڈھابہ پہ بکائین اور نیم کے درختوں کے نیچے لکڑی کے بنچ اور پلاسٹک کی بہت ساری کرسیاں پڑی ہوئی تھیں جن پہ بیٹھے رکشہ ڈرائیورز اور طلباء انگلینڈ کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالات پہ بحث کر رہے تھے۔

انور نام کے ایک طالب علم نے کہا کہ انگلینڈ کے حالات انتہائی مایوس کن اور بے یقینی کی کیفیت پیش کر رہے ہیں۔ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین درجہ پہ پہنچ چکی ہے۔ لوگ سبزی اور آٹا تک نہیں خرید پا رہے۔ بجلی کی قیمتیں آسمان تک پہنچا دی گئی ہیں۔ کئی سرکاری محکموں کو ختم کر دینے کے احکامات جاری ہو چکے ہیں۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کو سرکاری نوکری ملنے کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ انصاف کرنسی نوٹ پھینکنے والے تماش بین کے سامنے طوائف بن کر ناچ رہا ہے۔

پاس بیٹھے سعد نام کا طالب علم بولا کہ ملکہ برطانیہ نے جو باوردی اور بے وردی سوٹڈ بوٹڈ انگریز افسر شاہی پالی تھی، اُسے کئی کئی ایکڑوں پہ پھیلے محل نما بنگلوں میں رہنے، عالیشان دفتروں میں بیٹھنے اور لگژری گاڑیوں میں سفر کرنے کا عادی بنا دیا۔ بھاری مالیت کے سرکاری فنڈز جو عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کیے جاتے افسر شاہی کو اس کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا۔ اب وہ اپنی شاہی زندگی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے عوام پہ مزید ٹیکسوں کا بوجھ نہ ڈالے تو کیا کرے؟ بجلی اور پٹرول کے نرخوں میں مزید اضافہ نہ کرے اور سرکاری اثاثے نہ بیچے تو کیا کرے؟

اس طالب علم نے ایک رباعی پڑھی۔
سیاست ہے میرے دیس کی یا انداز دِلرُبا حسینہ کا
مسکرائی، پھر نہ آئی، حیران کھڑے وعدوں کے بازار میں
اکبر میاں اب تک تو دیکھے لٹیرے رہنما کے بھیس میں
لُٹتے چلے آ رہے ہیں کسی اَن دیکھی سرکار میں

تیسرے طالب علم نے کہا کہ جونکیں تو انگلینڈ کا خون چوستے ہی رہیں گی۔ بے روزگار نوجوانوں کے لیے آن لائن ای کامرس کی دنیا میں قدم رکھنے کے سوا اب اور کوئی راستہ ہی نہیں رہا۔ وہاں کم سرمایہ یا بغیر سرمایہ کے بھی سروائیو کیا جاسکتا ہے۔ جن نوجوانوں کو برطانیہ سے باہر دوسرے ممالک جانے کا چانس مل رہا ہو وہ باہر چلے جائیں۔ انگلستان میں تو فی الحال اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔

شوکت نام کے موٹر رکشہ ڈرائیور نے یہ سب کچھ سنا تو اس کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ سی آ گئی۔ پہلے تو اُس نے پھولی ہوئی سگریٹ کا طویل کش لیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ دیر بعد ناک سے سگریٹ کا دھواں نکالا تو فضا میں عجیب و غریب بھینی بھینی سی خوشبو پھیل گئی۔ پتہ نہیں کیا تھا؟ اُس نے آنکھیں بند کیے دھیمے سے کہا ”ان سارے مسائل کا حل یہ ہے کہ چاہت فتح علی خاں کو وزیرِ اعظم بنا دیا جائے“ ۔

سب نے چونک کر شوکت کو دیکھا۔ بہاول پور ریلوے اسٹیشن سے سواری کو لاکر فرید گیٹ اتارنے والے اسلم نامی ڈرائیور نے کہا ”او میڈا بِھرا! خرچہ پانی آلے کم کاج تے وزیرِ خزانہ چلیندا ہِے ول او کون ہو سی؟“ (او میرے بھائی! مالی معاملات تو وزیرِ خزانہ چلاتا ہے تو وہ کون ہو گا؟ ) ۔

شوکت نے سگریٹ کا دوسرا کش لگایا اور بولا ”علیزہ سحر“ ۔

سوشیالوجی کے ایک طالب علم نے ہنستے ہوئے پوچھا اگر چاہت فتح علی خاں بھی انگلستان کے بے حال عوام کو ریلیف نہ دے سکا تو اگلا آپشن کیا ہو گا؟

جواب آیا ”خواجہ سرا ڈانسر مہک ملک“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments